امریکہ نے پاکستان کو سکیورٹی کی مد میں دی جانے والی اربوں ڈالر کی امداد القاعدہ اور اس کے حامی شدت پسند گروپوں کے خلاف کارکردگی سے مشروط کردی ہے۔ موقر امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکہ نے اس سلسلے میں تعاون کا حساب رکھنے اور اپنے مفادات پر مبنی ایک خفیہ سکور کارڈ تشکیل دیا ہے جسے پاکستان میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کیلئے کی جانے والی کارروائی کے بعد نافذ کردیا گیا ہے۔ مستقبل میں اسی سکور کارڈ کی بنیاد پر پاکستان کو فوجی امداد ملے گی۔ اخبار کے مطابق جن چار شعبوں میں پاکستان کے تعاون کا حساب رکھا جائے گا۔ ان میں اسامہ بن لادن کے کمپانڈ سے ملنے والی معلومات کے حصول میں مدد افغانستان میں جاری جنگ میں پاکستان کے تعاون دہشتگردوں کے خلاف امریکہ اور پاکستان کی مشترکہ کارروائیاں اور دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے امور شامل ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ مستقبل میں سکیورٹی کی مد میں امداد کا انحصار ان چار شعبوں میں پاکستان کی کارکردگی پر ہوگا اور پاکستانی حکام کو اس بات سے آگاہ کردیا گیا ہے۔ امریکی اخبار کی رپورٹ میں کہاں تک صداقت ہے۔ قطعیت سے فی الحال اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ اسی اخبار نے پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکہ نے باقاعدہ طور پر پاکستان کو ایسی کوئی فہرست فراہم نہیں کی۔ تاہم دونوں ملکوں کے تعلقات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں ان کے پیش نظر امریکہ کی طرف سے اس طرح کا اقدام خلاف توقع بھی نہیں ہے۔ امریکی انتظامیہ کا یہ بھی ایک طریق کار ہے کہ جس فیصلے کا خود اعلان کرنا خلاف مصلحت سمجھتی ہے اسے کسی اخبار کے ذریعے متعلقہ حلقوں تک پہنچادیتی ہے۔در اصل دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہزاروں بے گناہ لوگوں کا خون بہانے اور امریکی خزانے سے کھربوں ڈالر لٹانے کے باوجودامریکہ کچھ حاصل کئے بغیر افغانستان سے واپس جارہا ہے۔ اوباما انتظامیہ اس حوالے سے امریکی عوام کے غیظ و غضب اور شدید تنقید کی زد میں ہے۔ جبکہ انتخابات سر پر ہیں اور رائے دہندگان کی ہمدردیاں تبدیل ہورہی ہیں۔ اس لئے اسکے رویے میں جھنجھلاہٹ پیدا ہوگئی ہے۔ اپنی ناکامیوں کا غصہ وہ پاکستان پر اتارنا چاہتی ہے اور اس حقیقت کو نظر انداز کررہی ہے کہ امریکہ کی افغان جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستانیوں نے دیں۔ پاکستان کے 35 ہزار سے زائد شہری اور فوجی جوان اس جنگ کی نذر ہوگئے۔ اتنی بڑی قربانی اور عملی تعاون کے باوجود وہ ہمیشہ پاکستان سے ڈومور کے مطالبے کرتا آیا ہے اور اس سلسلے میں فوجی اور اقتصادی امداد کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے۔ اس نے امداد کا بڑا حصہ پہلے ہی روکا ہوا ہے اور مزید دبا ڈالنے کیلئے اس نے نئی شرائط تیار کرلی ہیں۔ یہ حقیقت ساری دنیا پر عیاں ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کیلئے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ وفادار ملکوں کو ڈرانا دھمکانا دھوکہ دینا ان کی امداد بند کرنا اور ضرورت پڑنے پر ان کے لیڈروں کے خلاف کارروائی اس کا پسندیدہ طریق کار رہا ہے۔ دوسرے ملکوں کی مقتدر قوتوں کو مختلف حربوں سے اپنا حاشیہ بردار بنائے رکھنے کے علاوہ بعض اوقات وہ ان ملکوں کے اہل الرائے طبقوں کے اندر اپنا اثر ورسوخ بڑھاکر ایک اندرونی محاذ قائم کردیتا ہے جو رائے عامہ پر اثر انداز ہوکر اسکے مفادات کی نگہبانی کرتا ہے۔ پاکستان پر اسکی نظر کرم کئی حوالوں سے ہے۔ سب سے بڑی وجہ پاکستان کا اسٹریٹجک محل وقوع ہے جسے وہ کسی صورت نظر انداز نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی لیڈر ایک طرف اس پر گرجتے برستے اور امداد بند یا مشروط کرنے کی باتیں کرتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان اس خطے خصوصا افغان جنگ میں امریکہ کا ناگزیر اتحادی ہے۔ اس لئے اسے تنہا نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس سے ان کا اصل مقصد پاکستان کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ سکیورٹی کی مد میں دی جانے والی امداد کیلئے کارکردگی کی شرط بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ در اصل امریکہ اس طرح کا منفی دبا ڈال کر پاکستان کو مکمل طور پر سرینڈر کرنے کا پیغام دے رہا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان کو امریکی مفادات کا غلام بنانے میں ہماری کمزور لیڈر شپ نے ہمیشہ بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ پرویز مشرف نے اس معاملے میں دوسروں سے زیادہ کمزوری دکھائی مگر موجودہ قیادت کا کردار بھی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ہم ابتدا ہی سے اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ کسی بھی ملک کو خواہ وہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو اپنے قومی مفادات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ پاکستان کے 18 کروڑ عوام اپنی قومی خود مختاری پر سمجھوتہ کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں۔ ہمارے دفاع کیلئے دنیا کی بہترین فوج اور ایٹمی اثاثے موجود ہیں۔ امریکی امداد پر ہم پہلے ہی کافی حد تک انحصار کم کرچکے ہیں اور کرتے جارہے ہیں۔ اس لئے امریکہ کے کسی بھی منفی اقدام سے ہمیں خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایسی صورتحال سے ماضی میں بھی پاکستان کئی بار دوچار ہوا ہے اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہم ہر امتحان میں سرخرو ہوکر نکلے ہیں۔ اب اس نئی صورتحال کا مقابلہ کرنے سے بھی ہمیں نہیں گھبرانا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی قیادت صبرو تحمل اور سکون سے صورتحال کا سامنا کرے اور جو بھی فیصلہ کرے کسی دبا میں آئے بغیر کرے۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ متبادل ذرائع اور وسائل کو بھی بروئے کار لائے تاکہ کسی ناگہانی صورتحال میں ملک مشکلات کا شکار نہ ہو۔ اس سلسلے میں دوسرے دوست ملکوں سے رابطوں کے علاوہ نیٹو ممالک میں بھی اپنے ہمدرد تلاش کرے۔ امریکہ سے بھی برابری کی سطح پر بات کی جائے اور اپنے مفادات کے خلاف کسی قسم کا دبا قبول نہ کیا جائے۔ پنجاب اور سندھ میں سیلاب کی صورتحال بھارت نے پاکستان کواطلاع دیئے بغیر دریائے ستلج میں 70ہزار کیوسک پانی چھوڑ دیا ہے جس سے پانی کی سطح بلند ہونے اوربارشوں کے باعث روہی نالہ میں طغیانی کے باعث متعدد دیہات زیرآب آ گئے ہیں۔ نارنگ منڈی میں سینکڑوں ایکڑ اراضی دریا برد ہوگئی ہے۔ 70ہزار کیوسک پانی کاریلا گنڈا سنگھ والاکے مقام سے گزر رہا ہے۔ دریائے ستلج سے ملحقہ دیہات اورزیر کاشت اراضی میں پانی داخل ہوچکا ہے اور کروڑوں روپے کی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ قصور اوراس کے نواح میں چھ گھنٹے کی موسلادھار بارش سے روہی نالہ میں سیلاب کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ محکمہ موسمیات کی طرف سے اس سال معمول سے کہیں زیادہ بارشوں کی پیش گوئی بہت پہلے کردی گئی تھی لیکن حکومت اس کے لئے قبل از وقت موثر اقدامات نہیں کرپائی۔ بھارت ایک طرف معاہدہ سندھ طاس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کو صحرا میں تبدیل کرنے میں مصروف ہے تو دوسری طرف موسم برسات میں عوام کیلئے سنگین مشکلات پیدا کرنے اور زرعی معیشت کو تباہ کرنے کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس مسئلے کوعالمی سطح پر اٹھائے اور خاص طور پرمعاہدہ سندھ طاس کی خلاف ورزی کا مسئلہ محض مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بجائے اسے عالمی بنک کے سامنے اٹھایا جائے جواس معاہدے کااہم فریق ہے۔دوسری جانب سندھ کے 7اضلاع میں تیز بارشوں اور نہروں میں شگاف پڑنے سے 25لاکھ سے زیادہ آبادی اور 40ہزار ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا کی قلت کے باعث لاکھوں افراد فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ضلع بدین کے بیشتر علاقے جھیل کا منظر پیش کررہے ہیں اور سیکڑوں دیہات ڈوب چکے ہیں۔ کئی اضلاع میں سات سے آٹھ میٹر پانی کھڑا ہے۔ ہزاروں افراد کی ریلیف کیمپوں میں منتقلی کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی کھلے آسمان تلے بھوک اور پیاس کے عالم میں امداد کی منتظر ہے۔ بہت سے لوگ اب بھی پانی میں گھرے ہوئے ہیں جبکہ پاک بحریہ کی طرف سے محصور افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جارہا ہے۔ بدین، ٹنڈو محمد خاں کے پورے اضلاع اور میرپور خاص کی 26یونین کونسلوں کو آفت زدہ قرار دیدیا گیا ہے۔ پنگریو شہر ڈوب چکا ہے اور کئی دوسرے شہروں کے ڈوبنے کے خطرات ہیں۔ اس صورت حال میں وزیر اعظم نے اچھا کیا کہ صوبے کے متاثرہ اضلاع کا دورہ کیا اور مصیبت زدگان کو وطن کارڈ کی تقسیم سمیت ہر قسم کی اعانت فراہم کرنے کے اعلانات کئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کم از کم انسانی ابتلا کے مواقع کو سیاست کی نذر کرنے سے اجتناب برتا جائے، مصیبت زدگان کو ہر ممکن امداد تیزی سے پہنچائی جائے اور ممکنہ سیلابوں سے بچنے کی حقیقی تدابیر کی جائیں تاکہ آنے والے وقتوں میں نقصانات کے امکانات کم کیا جاسکے۔