گذشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر بڑا عجیب منظر دیکھا ایک جوان کُرتے شلوار میں ملبوس نورانی چہرہ جس پر کالی داڑی سج رہی تھی۔میں سمجھا کہ کوئی نیک شریف جوان ہے جس کو طالبان کا رکن سمجھ کر شائد پولیس کے لوگوں نے پکڑا لیا ہے۔جب اس کے متعلق خبر چلی تو اس کا چہرہ موہرہ دیکھ کر میں حیران تھاکہ وہ فرشتوں کی شکل والا جوان شیطانوں کے ٹولے ہی رکن نکلا ۔وہ شخص شراب کشید کر کے جب سپلائی کے لئے نکلتا توخود بھی ٹوپی لگا کر مذہبی حلیئے میں نکلتا تھااور اپنے بچے کو بھی ٹوپی پہنا کرلی کر جاتا تھا۔ اُس کے بقول اپنے معصوم بچے کو جس کی عمر بمشکل 5سال ہوگی یا بیوی کو ساتھاس لئے بٹھا لیاکر تا تھا تاکہ کوئی گاڑی کو روک کر تلاشی نہ لے لے۔پولیس نے اسکی گاڑی روک کر جب تلاشی لی تو پتہ چلا کہ موصوف اپنی کشیدکردہ شراب سپلائی کرنے جا رہا ہے۔پولیس کو جھانسہ دینے کے لئے اس نے مولویوں کا حلیہ اپنا یا ہواتھا۔آجکل ہمارے علاقوں اور محلوں میں اس شکل و شباہت کے لوگ کئی کرائمز میں ملوث پھرتے ہوے دیکھے جاتے ہیں جن کا مذہب یا دین سے دور دور کہیں بھی کوئی تعلق نظر نہیں آتا ہے۔
ان میں زیادہ تر پاکستانی ،انڈین،اسرائیلی یا امریکی ایجنسیوں کے پے رول پر اس مملکتِ خدادا میں ایک جانب تخریب کاری میں مصروف ہیں تو دوسری جانب ان کا ایجنڈا اسلام اور پاکستان کے مذہبی طبقے کو بد نام کر کے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرنا دکھائی دیتا ہے۔یہ کام بڑی شدو مد سے پورے ملک میں جاری ہے۔اس ضمن میں ہماری ایجنسیاں کچھ خاموش خاموش سی دکھائی دیتی ہیںشائد امریکی اثرات ان پر سر چڑھ کر بول رہے ہیں۔جو پاکستانیوں کو تو اغواکر کے ان کی مسخ شدہ لاشیں ان کے لواحقین کو دیتی اور لوگوں کو غائب کرنے میں تو متحرک دکھائی دیتی ہیں ۔مگر پاکستان کے دشمنوں سے لگتا ہے کہ گہری دوستی گانٹھی ہوئی ہے۔بلوچستان اور فاٹا کے حالات اس ا مر کی گوہی دے رہے ہیں۔ سیاست کے میدان میںہماری ایجنسیاں سیاست دانوں سے زیادہ مشاق دکھائی دیتی ہیں مگر پروفیشنلزم کی جانب ان کی توجہ پہلے جیسی نہیں دکھائی دیتی ہے۔ قوم اپنے بجٹ کا بڑا حصہ تم پر سیاست بازی کے لئے نہیں خرچ کر رہی ہے بلکہ ملک کی یکجہتی کی اور سرحدوں کی حفاظت کے لئے اپنا پیٹ کاٹ کراور اپنا لہو پلا کرپال رہی ہے۔مگر ریزلٹ اورینٹیڈ پروفیشنلزم ہمیں کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔بات کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئی۔
ہمارے دشمنوں کے ہاتھوں بکنے والے مومن مسلمان نما باریش لوگ ہمارے محلوں میں مساجد اور مدارس کے گرد صبح اورمدارس کی چھٹی کے وقت مساجد و مدارس کے راستوں پر منڈلاتے پھرتے ہیںمگر ہمارے اداروں کو اس کا ہوش ہی نہیں ہے۔وہ کسی خاص بچے کو منتخب کر کے جیسے ہی موقعہ ملتا ہے اُس معصوم کواغوا کر کے لے اُڑتے ہیں۔ ایک ہفتہ قبل میرے عزیزوں میں ایسا ہی ایک واقعہ رونما ہو چکا ہے۔جس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ بچہ محمد عثمان جس کی عمر قریباََ12,،13سال ہوگی ،حسبِ معمول صبح مدرسے میں قرانی تعلیم کے حصول کے لئے گھر سے نکلا ۔ماں نے حسبِ دستوربچے کو دروازے پر چھوڑا اور گھر کے اوپر کے حصے میں جاکر اس کومدرسے جاتے دیکھنے کے غرض سے گیلری میں پہنچی تو روز کی طرح ماں کوعثمان مدرسے جاتا ہوا نظر نہیں پڑا۔ اُس کو تشویش تو ہوئی مگر پھر خیال آیا کہ بچہ دوسرے راستے سے مدرسہ چلا گیا ہوگا۔مطمعن ہو کر روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہوگئی۔جب مدرسے کی چھٹی کے بعد حسب معمول بچہ گھر نہیں پہنچا تو تمام گھر والوں کو تشویش ہوئی ہر جانب سے معلومات لی جاتی رہیں بچے کا کہیں سراغ نہیں مل رہا تھا۔پورے خاندان کا برا حال تھا۔پھر خیال آیا کہ کسی نے بچے کو تاوان کی غرض سے اغوا تونہیں کر لیا ہے؟لہٰذا کسی انجانے فون کا انتظار کیا جانے لگا۔ماں بچے کی جدائی سے ہلکان ہوئی جارہی تھی کبھی کبھی نیم بے حوشی کی سی کیفیت میں مبتلا ہورہی تھی۔ہر جانب عثمان کی ڈھونڈ پڑی ہوئی تھی۔مگر کوئی سُراغ نہ ملاتمام رشتہ داروں میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔
بچے کوصبح گھر سے نکلتے ہی دو باریش ادھڑ عمر لوگوں نے روک کراُس سے کہا کہ ہم آپ کے مولوی صاحب کے دوست ہیں ہم جلدی میں ہیں ایک کتاب بچے کے ہاتھ میں دیتے ہوے کہا کہ یہ مولوی صاحب کو دیدینا۔ بچے نے جیسے ہی کتاب ہاتھ میں لی دوسرے فر دنے ادھر اُدھر دیکھ کر موقع غنیمت پاکر اس کے منہ پر رومال رکھ دیا۔ رومال ناک کے پاس پہنچتے ہی عثمان بے حوش ہوگیا دوسرے یا تیسرے دن جب اسے حوش آیا تو یہ تینوںا فراد ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔جب ٹرین ملتان کے نزدیک پہنچی تو عثمان کو حوش آنا شروع ہوچکا تھا۔بچہ ان کی سرگوشیاں آسانی کے ساتھ سن سکتا تھاجو عثمان سے متعلق اپنے منصوبوں اور اس کے بدلے ملنے ولے معاوضے اور معاوضے کے مصارف سے متعلق بہت ہی دھیمے لہجے میںگفتگو کر رہے تھے۔عثمان سمجھ کیا کہ اسے اغوا کیا جارہا ہے۔
ایک نے دوسرے سے پوچھا ٹرین کہا ںپہنچ گئی ہے تو دوسرے نے جواب دیا کہ ملتان آنے والا ہے۔بچہ سمجھدار تھا خاموشی کے ساتھ بے حوشی کے انداز میں لیٹا رہا۔وہ ویسے بھی اپنے والدین کے ساتھ کئی مرتبہ ملتان اور پنجاب کے کئی علاقوں میںپہلے بھی آچکا تھا اسلئے وہ آسانی کے ساتھ ان درندوں سے بچ نکل کر چھپنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔جیسے ہی ٹرین سلو ہوئی وہ اٹھ بیٹھا اور ان درندوں سے کہا کہ میں واش روم جانا چاہتا ہوں۔تو اس کو واش روم جانے کی اجازت مل گئی مگر ایک درندہ اس پر کڑی نظر رکھے ہوا تھا۔واش روم کئی قوموں کے فاصلے پر تھالہٰذاعثمان اُس سے بھی نظر بچا کر چلتی ٹرین سے نیچے اترنے میں کامیاب ہوگیا۔ ٹرین کے ملتان اسٹیشن پر رکنے پر ان درندوں نے عثمان کی تلاش شروع کردی مگر وہ ایک کیبن کی آڑ میں ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوے تھا۔جیسے ہی وہ کافی فاصلے پر ہوے عثمان نے مخالف سمت پوری قوت سے بھانا شروع کر دیااور شہر کے گنجان علاقے میں پہنچ کر اس نے اُن درندوں سے نجات پائی تو کسی طرح چھپتا چھپاتا ہوا وہ اپنے عزیزوں کے ہاں پہنچ گیااور اس طرح معصوم عثمان خود کُش حملہ آور بننے سے بچ گیا۔جہاں سے اُس نے اپنے محفوظ ہونے کی اطلاع کی گھر والوں کو دی تو خاندان میں خوشی اورسکون پیدا ہوا۔
انتہائی افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے ادارے دیگر قسم کی ادھیڑ بُن میں تو لگے ہوے ہیں مگر پاکستان کے دشمنوں سے بالکل غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور کبوتر کی طرح پروں میں گردن چھپا کر کہہ رہے ہیں سب کچھ ٹھیک ہے۔ ہمارے دشمن ہمارے ہی لوگوں کو خرید کر ہمارے ہی بچوں کو اغواکرا کے انہیں پہلے برین واش کرتے ہیں جب وہ محسوس کر لیتے ہیں کہ ان کے مقاصد کے لئے کام کرنے کی تحریک بچے کے اندر پیدا کردی گئی ہے تو طالبان کے بھیس میں خود کُش حملے یا پانٹیڈ بلاسٹ کے لئے ان کو کسی مسجد، امام باڑے،جلوسِ جنازہ یاکسی مزار و مجلس پر حملہ کرنے کے لئے بھیجدیا جاتا ہے۔ اس حملہ آور کو اُس جگہ بھیجا جاتا ہے جو ہما ری یکجہتی کے لحاظ سے حساس ادارہ یا مجلس ہو۔جہاں کاروائی کے نتیجے میں ملک و قوم میں یا قوم کے کسی طبقے میں حساسیت پید کر کے مذہبی لوگوں سے عوام کو برگشتہ کر کے اپنے مذموم مقاصد حاصل کر سکیں۔عیسایت خاص طورپر اور یہودیت عمومیت سے اس کھیل میں صدیوں سے ملوٹ ہیں،جس میں ہندو آج ان کا سب سے بڑا معاون ہے۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کفر کی قوتوں کو کسی سے اتنی تکلیف نہیں ہے جتنی مسلمان کے جذبہِ جہاد سے ہے۔ اس کوختم کرنے کے مقصد کے حصول کے لئے ماضی میں بھی انگریزوں نے مُلے اورجعلی پیر خرے اور جعلی پیغمبر بنائے گئے اور آج بھی بہت سے پیر و مُلا خریدے ہوے ہیں جو قرآن کے اس حکم کی صریح خلاف ورزی میں مصروف ہیں کہ ”اے مومنو!یہود و نصاراتہمارے دوست نہیں ہو سکتے جو ان سے دوستی کرے گا وہ ان ہی میں سے ہوجائے گا”ہمارے میڈیا پر بھی برملا کہا جا رہا ہے کہ کافر سے شادی کر کے اسے کافر ہی رہنے دویہ کس قسم کی تعلیم ہمارا میڈیا اور آج کا جعلی مُلا پاکستان کے مسلمانوں کو دینے کی کوشش کر رہا ہے؟؟؟اس فعل قبیح کی برکت سے وہ ملا جو مسجد میں کبھی جھاڑو دیتے تھے آج بیلنر ہیں۔جب میرے جیسا ان سے دولت کی اس ریل پیل پر سوال کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تو ہمارے مریدوں کا کرم ہے!!! ساری قوم کو ایسے نا ہنجاروں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہی اسلام اور مسلمانوں کے دشمن اول ہیں۔یہ ایک جانب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوے راستے سے بھٹکا رہے ہیں تو دوسری جانب سچے مسلمانوں کو اپنی چرب زبانی سے بد نام کرنے کی مذموم کوششوں میں لگے ہوے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید