سلطانہ ایک شہرت یافتہ ڈاکو تھا جو امیروں کو لوٹتا اور غریبوں پر خرچ کرتا تھا۔ اُس نے چوری کی ابتداء ایک انڈے سے کی تھی لیکن اُس پر تنبیہ نہ ہونے کی وجہ سے اُسے جرأت ہوئی اور پھر چوری کی عادت نے اُسے شہرت یافتہ ڈاکو بنا دیا۔ سلطانہ ڈاکو جب گرفتار ہوا اور پھانسی کی سزا دیئے جانے سے پہلے اُس سے آخری خواہش پوچھی گئی تو اُس نے کہا کہ میری آخری خواہش اپنی ماں سے ملاقات کرنا ہے۔ سلطانہ ڈاکو کی خواہش کے احترام میں اسکی ماں کو اس کے سامنے لایا گیا۔ اس نے ماں کے قریب جا کر بجائے کچھ کہنے کے اپنی ماں کے کان کو دانتوں سے چبا لیا۔ جب سلطانہ ڈاکو سے دریافت کیا گیا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ تو اُس نے جواب دیا کہ جس وقت میں پہلی بار انڈا چوری کرکے لے آیا تھا اگر میری ماں نے تنبیہ کیا ہوتا تو میں ڈاکو نہ بنتا اور نہ ہی آج تختہ دار پر لٹکایا جاتا۔ سوشل نیٹ ورک پر ملک ریاض بھی اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ میں سلطانہ ڈاکو کی حکمت عملی کا پیچھا کر رہا ہوں کیونکہ وہ امیروں سے کماتا تھا اور غریبوں پر خرچ کرتا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ ملک ریاض آج پاکستان کے سب سے بڑے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ہیں۔ وہ اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ میں ایک غریب آدمی تھا اور میرے پاس کھانے کے لیئے کچھ نہیں تھا لیکن آج میرے صرف پچہتر فیصد اثاثے فلاحی کاموں کے لیئے استعمال ہوتے ہیں۔ ارب پتی بزنس مین ملک ریاض کے مطابق بحریہ ٹائون سات ہزار بچوں کی کفالت کر رہا ہے، آٹھ سو افراد کے ڈائیلاسیز ہو رہے ہیں جبکہ پینتیس ہزار افراد کو تین وقت کا مفت کھانا مہیا کر رہا ہے۔ بلاشبہ ملک ریاض کی طرف سے دُکھی انسانیت کی فلاحی و سماجی خدمات باعث فخر و باعث تقلید ہے لیکن ساتھ ہی اُن پر اعلیٰ عدالتوں میں قتل، بلیک میلنگ اور زمینوں پر ناجائز قبضے جیسے درجنوں مقدمات بھی چل رہے ہیں۔ ایسی صورت میں ملک ریاض کی کمائی سے صدقہ خیرات اللہ کے ہاں قابلِ قبول ہے یا نہیں یہ تو تب معلوم ہوگا جب اعمال نامے کی صورت میں اُن کا مقدمہ قیامت کی عدالت میں پیش ہوگا جہاں ہر معاملے کا گواہ، قیامت کی عدالت کا اکیلا بااختیار جج، حاکم اور بادشاہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہوگی لیکن دنیا میں ملک ریاض بہت سے غریبوں کی مدد کر رہے ہیں جو یقینا باعثِ افتخار ہے۔
riaz
کہا جاتا ہے کہ ملک ریاض جرنیلوں، سیاست دانوں، صحافیوں اور بیورو کریٹس کو خریدنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ اپنے بزنس کو بڑھاوا دینے کے لیئے جب کبھی قانون، ضابطے اور اُصول ملک ریاض کے راستے کی رکاوٹ بنے تو اُس نے قانون، ضابطے اور اُصول سب خرید لیئے۔ وہ اپنے راستے میں رکاوٹ بننے والے ہر آدمی کی ٹھیک قیمت لگاتے ہیں اور دوسروں کا منہ بند کرنے کے لیئے منہ کا سائز دیکھ کر ہڈی دیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ارسلان افتخار سکینڈل کے منظرعام پر آتے ہی بہت سی نامی گرامی شخصیات بھی بے نقاب ہو گئی ہیں جو ارب پتی ملک ریاض کی دولت سے فیضیاب ہوتی رہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے سیاست دانوں، جرنیلوں، بیورو کریٹس اور صحافیوں کی خاموشی دیکھ لیں۔ یہاں تک کہ معروف ٹی وی اینکر طلعت حسین کے مطابق جو جرنیل ریٹائرڈ ہوتا ہے وہ بحریہ ٹائون کا ملازم بن جاتا ہے لیکن آج جب ملک ریاض پر بُرا وقت آیا ہے تو جہاں روزانہ ٹی وی پر اُصولوں کے بھاشن دینے والے اور ہر دوسرے دن پریس کانفرنسیں کرکے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے والے سیاست دانوں کے مونہوں کو تالا لگ گیا ہے وہاں کئی ایک پُراسرار بیماری میں بھی مبتلا ہو گئے ہیں۔
Arsalan Iftikhar
ارسلان افتخار سکینڈل کے بعد منظرعام پر آنے والی خبروں کے مطابق ملک ریاض نے تحفے میں جہاں بہت سے سیاست دانوں کو پلٹ پروف گاڑیاں دیں وہاں سیاسی جماعتوں کے جلسوں کے لیئے رقوم اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں تک بنا کر دیتے رہے۔ اس طرح ملک ریاض کے تقریباً ہرسیاسی جماعت اور سیاست دانوں سے دوستانہ تعلقات استوار ہو گئے۔اُن کی طرف سے جہاں میاں برادران پر نوازشات، پنجاب حکومت کی آشیانہ ہائوسنگ سکیم، شیخ رشید احمد کی بلٹ پروف گاڑی اور تحریک انصاف کے جلسوں کے لیئے رقوم کی فراہمی آج کل زیرِ بحث ہے وہاں کئی نامور اور بڑے صحافیوں اور ٹی وی اینکرز نے پیسے اور بنگلے بھی حاصل کیئے لیکن ابھی تک سیاست دانوں میں سے صرف عمران خان جبکہ صحافیوں میں سے حامد میر کے سوا کسی نے بھی کھل کر اپنے اوپر لگنے والے الزام کی تردید نہیں کی جبکہ چوہدری نثار تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ملک ریاض نے جسے بھی خریدا اُسے بے نقاب ہونا چاہئے۔ ارب پتی ملک ریاض کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے نام تو بہت سوں کے لیئے جا رہے ہیں۔ کچھ خاموش ہیں، کچھ دھیمے لہجے میں اپنی صفائیاں پیش کر رہے ہیں جبکہ کچھ کسی حد تک حمایت کر رہے ہیں البتہ جو حمایت نہیں کر رہے وہ منافق ہیں۔
منافق سے یاد آیا کہ پچھلے دنوں ارسلان افتخار کیس میں ایک معروف ٹی وی اینکر جیسے ہی سپریم کورٹ میں اپنا تحریری بیان جمع کرانے کے بعد کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو بحریہ ٹائون کے ایک ملازم نے اونچی آواز میں ان کے خلاف بولنا شروع کر دیا اور انہیں منافق قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اُس وقت کہاں تھے جب انہوں نے ملک ریاض سے دوبئی میں بہت بڑا گھر لیا تھا۔اس تماشے کو درجن بھر لوگوں نے دیکھا جبکہ دوسری طرف میڈیا سے گفتگو میں صحافیوں نے اُن سے اس حد تک تند و تیز سوالات کیئے کہ انہیں میڈیا کے کیمرے چھوڑ کر عجلت میں اپنی گفتگو مکمل کیئے بغیر جانا پڑا۔ ملک ریاض کی دولت سے فیضیاب ہونے والے ضمیر فروش صحافیوں کے لیئے اب ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عدالت کے بعد انصاف کی آخری اُمید سپریم کورٹ کے خلاف چھپ کر سازشیں کرنے کی بجائے ملک ریاض کی نمک حلالی کرتے ہوئے کھل کر زہر اگلنا شروع کر دیں ورنہ وہ نہ صرف منافق کہلائیں گے بلکہ آئندہ کے لیئے ملک ریاض کا اعتماد بھی کھو دینگے۔ آپ انٹرنیٹ فارمز اور سوشل نیٹ ورکس پر تبصرے پڑھیں توپتہ چلے گا کہ پاکستانی قوم کس طرح قلم کی حرمت، صحافت کی عزت اور ملکی سلامتی چند ٹکوں میں بیچنے والے نام نہاد صحافیوں پر پوری آب و تاب سے لعنت بھیج رہی ہے۔
malik riaz
یہ نمک حلالی بھی بڑی چیز ہوتی ہے کیونکہ کسی کا نمک کھاتے ہوئے اسکی عزت و حرمت کی حفاظت نمک کھانے والے پر فرض ہو جاتی ہے اور پھر اس کا ہر جائز و ناجائز حکم نمک حلالی کے فرائض کو پورا کرتے ہوئے تکمیل تک پہنچانا کھانے والے پر فرض ہو جاتا ہے چاہے وہ اس قابل ہو نہ ہو۔ قلم کی تجارت اور زبان کی قیمت لگانے والے ملک ریاض سیاست دانوں، صحافیوں، جرنیلوں اور بیورو کریٹس کو تو خریدتے رہے لیکن وہ اپنی پوری کوشش کے باوجود افتخار چوہدری کی عدالت کو نہ خرید سکے۔ سچ تو یہ ہے کہ ارب پتی بزنس مین ملک ریاض نے سیاست دانوں، بیورو کریٹس اور صحافیوں پر سرمایہ کاری کرکے جو ”مافیا” تشکیل دیا آج اسی مافیا کی بدولت وہ ایک ایسی بند گلی میں پھنس چکے ہیں جہاں سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں ہے۔ اگر وہ اپنے دل کے بجائے دماغ سے سوچتے اور غلط لوگوں کے مشوروں پر عمل نہ کرتے تو یقینا آج اتنے پشیماں نہ ہوتے اور نہ ہی بحریہ ٹائون کے مستقبل پر سوالات اُٹھتے۔ نجی ٹی وی پر ملک ریاض کے تہلکہ خیز انٹرویو کی آف ایئر گفتگو کی سازش بے نقاب کرنے والوں کو پوری قوم سلام پیش کرتی ہے کہ جنہوں نے صحافت جیسے مقدس شعبے میں موجود کالی بھیڑوں کو بے نقاب کیا۔ ملک ریاض کی دولت سے فیضیاب ہونے والے صحافیوں کو چاہئے کہ اب وہ اپنا ذاتی نیوز گروپ کھول لیں اور روز مل بیٹھ کر ”سیاپا” کریں تاکہ انہیں ہر دوسرے دن چینل تبدیل نہ کرنا پڑیں۔
بلاشبہ ملک ریاض صاحب کا شمار پاکستان کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے اور اُن کی غریب پروری کی بھی مثال نہیں ملتی لیکن اُن کے لیئے صاحب مشورہ یہی ہے کہ وہ سلطانہ ڈاکو کی حکمت عملی کا پیچھا کرنے کی بجائے اُس مافیا کو بے نقاب کریں جنہوں نے پیسہ کھانے کے باوجود انہیں ایک بند گلی میں پہنچایا۔ لیاری کراچی کا بدنام زمانہ مجرم عبدالرحمن ڈکیت بھی اپنے وقت کا سلطانہ ڈاکو تھا۔ اُس کے قتل پر آدھے سے زیادہ کراچی رویا کیونکہ وہ بھی امیروں کو لوٹ کر غریبوں کی پرورش کرتا تھا لیکن قانون کی نظر میں وہ ایک ایسا مجرم تھا کہ جس کے ہاتھ اپنی سگی ماں سے لے کر ان گنت نامعلوم لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ اگر دولت کمانا ہی حقیقی کامیابی اور زندگی کا اصل مقصد ہوتا تو قارون کو بامقصد زندگی گزارنے والا کامیاب ترین انسان مانا جاتا۔ ”میں شرمندہ ہوں اور ملک ریاض سے ملنے والی تمام مراعات واپس کرنے کا اعلان کرتا ہوں” افسوس کہ کسی ایک ”شخص ”نے بھی ایسا نہیں کہالیکن پھر بھی بہت سے چہروں پر سے نقاب اُترنے پر نہ جانے کیوں میرا دل بے ساختہ کہہ اُٹھتا ہے ”ملک ریاض تیرا شکریہ”