لوگ اپنی مادر وطن سے غداری کرنے سے پہلے سو نہیں بلکہ ہزار بار سوچتے ہیں۔ کوئی با ضمیر شخص کسی ایسے ملک کواپنے مادرِوطن کی جاسوسی فراہم کرنے کا تصور بھی نہیںکرسکتا جو مجموعی طور پر اُس کی قوم (مسلم اُمہ)کے ازلی دشمن ہوں…. مگر وائے ناکامی متاعِ کاروان جاتا رہا کاروان کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا !!!کسی امریکن نے شائد سچ ہی کہا تھاکہ پیسے کی خاطر پاکستانی اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں!!صلیبی جنگوں کے زخم چاٹتی ہوئی نصرانیت آج بھی ماضی کے زخموں کی ٹیسیں محسوس کر رہی ہے۔یہ اتنے بزدل ہیں کہ ایک آدمی اُسامہ بن لادِن کا خوف ان کی پوری صلیبی امت محسوس کرتی رہی ہے اور اُس اکیلے نہتے شخص کو زیر کرنے کے لئے ان کا کوئی ایک فرد نہیں نکلا ،بلکہ پوری نصرانیت کیل کانٹے سے لیس ہو کر 46ممالک میں سے دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ملکوں کا جم غفیر اُمڈ آیا۔ مگر شائد اقبال کے اس شعر کی معنویت سے وہ سب ہی نا بلد ہیں۔
اسلام کے شیروں کو مت چھیڑنا تم ورنہ یہ مٹتے مٹاتے بھی دنیا کو مٹا دیں گے”۔ اُس اکیلے شخص کا مقابلہ کرنے کے لئے دنیا کے مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس ابرہا کا لشکر اس مردِ مجاہد پر حملہ آور ہونے کے لئے آیا ۔مگر ناکام و نامراد رہا ۔ایکعشرے سے زیادہ عرصہ جنگ کرنے کے باوجود بھی ابراہالشکر کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکا تو ان کے سردار نے ہم میں سے ہی ایک ضمیر فروش شکیل آفریدی کو منتخب کیا ۔جو میری قوم کا سودا چند سکوںکے عوض کرنے پر تیار ہوگیا اور میرے وطن کے خلاف جاسوسی کے لئے حامی بھر کر اس فعلِ قنیح کا حصہ بننے کو تیار ہوگیا۔ اس ننگِ وطن کو ٹاسک یہ دیا گیا کہ اسامہ بن لادن کو تلاش کر کے انہیں اطلاع دے ۔کیونکہ ان شاطروں کے تمام ذرائع آج تک اسمردِ مجاہد کا سراغ نہ لگا سکیں،اور یہ تمام کے تمام اس تلاش میں نا کام رہے ہیں، اس سلسلے میں ان کی جدید ٹیکنالوجی بھی دھری کی دھری رہ گئی۔مگر وہ اُسامہ بن لادِن کو تو تلاش نہ کر سکے۔
operation
پاکستان کے انٹیلی جینس کے ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پرایک میڈیا سے بات کرتے ہوے کہا تھا کہ یہ بات درست نہیںہے کہ اُسامہ بن لادن کو کاکول اکیڈمی کے پاس ایک گھر میں مارا گیا تھاپاکستانی ادارے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ پاکستانیوں نے ہی امریکیوں کا ہیلی کوپٹر مار گریا تھا۔اس ہیلی کوپٹر میں دس سے زیادہ افراد ہلاک ہوے تھے جس کی کوئی پاکستانی افسر تصدیق نہیں کرتا ہے…. مگر اُسامہ کے بیوی بچوں کے مسکن تک ذلیل آفریدی کے ذریعے امریکی پہنچنے میں کامیاب گئے۔ ذلیل (شکیل)آفریدی کے متعلق برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹر کے مطابق دستاویزی ثبوت موجو ہیں کہ وہ ”ایک بد عنوان، شرابی،عیاش اور نا اہل شخص ہے۔ جس پر خوا تین کے ساتھ زیادتی اور انہیں حراساں کرنے جیسے سنگین الزامت لگ چکے ہیںاور جن کے ثبوت موجود ہیں”ذلیل آفریدی کے سیاہ کرتوتوں نے آفریدی قبیلے کو رسوا کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ رکھا تھا۔
خبروں کے مطابق ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکہ کے لئے جاسوسی کرنے پر 33سال قید اور 3لاکھ 20ہزار روپے جرمانہ کر کے اسے پشاور جیل منتقل کر دیا گیا2 مئی 2011،کو اسے ایبٹ آبادآپریشن کے لئے امریکہ کے لئے جا سوسی کر نے پر ملک سے غداری کے الزام میں گرفتار ی کے بعد اس پر پولیٹیکل انتظامیہ نے ایف سی آر قانون کے تحت سزا سُنائی ڈاکٹر شکیل پر ایبٹ آباد پر آپریشن سے قبل پولیو مہم شروع کر کے امریکہ کے لئے جا سوسی کرنے اور امریکی انٹیلی جینس کو اسامہ بن لادن کے خاندان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے الزام میں،جو ملک سے غداری کے مترادف ہے پر گرفتارع کیا گیا تھا۔حکام کے مطابق ملزم کو اپنے دفاع کا پورا موقع دیا گیا تھا۔
شکیل آفریدی کو2 مئی2011 کو القائدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادِن کی فیملی کے خلاف امریکی آپریشن کے کچھ عرصہ بعد گرفتار کیا گیا تھا۔جس کی جنوری میں 2012 میں امریک وزیر خارجہ لیون پناٹا نے سرکاری طور پر تصدیق کی بھی کی تھی کہ شکیل آفریدی امریکی انٹیلی جینس کے لئے کام کر چکا ہے اور اس نے اسامہ بن لادن کے ڈی این اے کی تصدیق میں مدد دی تھی ۔ذلیل آفریدی نے اس فعلِ قبیح کے لئے الگ سے دس لاکھ ڈالر زیادہ وصول کیئے تھے۔
Shakil Afridi
ہمارے پٹھو حکمرانوں نے امریکیوں کو اتنا سر پر بٹھایا ہوا ہے کہ وہ ہمارے ہر اندرونی معاملے میں دخل در معقولات سے باز نہیں آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آفرید کو سزا پاکستان کے اپنے قانون کے تحت دی جاتی تو پیٹ میں پیڑ واشنگٹن والوں کے ہوتی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ ٹولینڈ نے ذلیل آفریی کی سزا پر کہا ہے کہ ڈاکٹر آفریدی کو سزا دینے یا قید کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے!ترجمان دفترِ خارجہ نے مزید کہا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو جس الزام میں سزا دی گئی ہے اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔
دوسر ی جانب امریکی سینیٹڑز جان مکین اور کارل لیون نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو 33 سال کی قید کی سزا پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکہ کی مدد کر نے والے شکیل آفریدی کو غداری کے جرم میں 33 سال قید کی سزا دینا شرم ناک او رحیران کن ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس نے غداری نہیں بلکہ جراء ت، حب الوطنی اور اور بہادری کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شکیل آفریدی کی سزا سے پاک امریکی تعلقات کو اور بھی نقصان پہنچے گا۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاک امریکی تعلقات اچھے کب ہیں جو نقصان پہنچنے کا طعنہ دیا جا رہا ہے۔
امریکہ کی سینٹ کمیٹی نے پاکستا ن کو سزا سناتے ہوے غدار شکیل آفریدی کو 33سال کی سزا پرپاکستان کی 33 میلین ڈالربھیک کم کرکے کٹوتی کا بل منظور کر الیا ہے۔اس ضمن میں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ کہ شکیل آفریدی کو دی جانے والی سزا بلا جواز ہے۔ اُسامہ بن لادِن کی تلاش میں امریکہ کی مدد کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا بلا جواز ہے!!!اس معاملے پر حکومت پاکستان سے بات کر رہے ہیں۔کٹوتی کی ترمیم پیش کرنے والے سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا ہے کہ ہمیں پاکستان کی اور پاکستان کو ہماری ضرورت ہے لیکن ہمیں پاکاکستان کی ڈبل ڈیلنگ نہیں چاہیئے!!!دوسری جانب امریکہ نے شکیل آفریدی کی رہائی کا پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سے با ضابطہ مطالبہ کر دیا ہے۔ پاکستان کی وزیر خارجہ نے کیمرن منٹر او ر ہیلری کلنٹن کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوے کہا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی ایک پاکستانی شہری ہے اسے ایک پاکستانی عدالت نے سزا سنائی ہے۔امریکہ پاکستان کے عدالتی نظام کا احترام کرے۔ہم کہتے ہیں کہ امریکی پاکستان کے مجرموں کی حمایت نہ کرے۔
america
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے کہاہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے امریکہ ہماری عدالتوں کا احترام کرے۔امریکہ سے مال بٹورنے والی این جی اوز کے پیٹ میں بھی شکیل آفریدی کی سزا کے خلاف اُتنا ہی زور سے درد ہو رہا ہے جتنا کہ امریکیوں کو ہو رہا ہے۔انہیں مجبور پاکستانیوں کے حقوق کہیں دکھائی نہیں دیتے ہیں مگر آقا کے خادموں کے جعلی حقوق کی سلبی پر یہ نوں نوں آنسو رو تی ہیں۔
دوسری جانب ڈالرز کی چمک میں پلنے والی انسانی حقوق کی علمبر تنظیمیں بھی اسی مرضِ لا علاج میں مبتلا دکھائی دیتی ہیں۔اس مہلک مرض کا شکار ہمارے بعض لکھار بھی دکھائی دیتے ہیں۔ان سے ہم کہتے ہیں کہ ملک کی جاسوسی مین ملوث غدارِ وطن سے کیسی ہمدردی؟؟؟ ہم سمجھتے ہیں ان سب کی ایک ہی مجبوری ہے اور وہ ہے ”ڈالر” پاکستان کا مائنس زیرو آج امریکہ کا ہیرو بنا ہوا ہے جس سے ہمارے تعلقات کی پستی کا اندازہ لگانا کسی کے لئے بھی مشکل نہیں ہے۔
امریکہ ہم سے تعلقات اپنے مفادات کی تکمیل کی غرض سے رکھتا ہے ورنہ اسے ہماری دوستی یا رفاقت کی اسے قطعی اور کبھی بھی ضرورت نہیں رہی تھی۔ امریکہ کیا پورا ویسٹ اس معمولی درجے کی ایٹمی قوت سے خائف نہ جانے کیوں ہیں؟؟؟یہ ممالک اپنے ہاں جو کچھ ناجائز سمجھتے ہیں وہ سب کچھ ہمارے ہاں جائز قرار دینے میں ذرا بھی تو شرم محسوس نہیں کرت ہیں۔ہمارے بھکاری اور غلام حکمران بے شرمی کا لبادہ اوڑھے ہر وقت سب کچھ ٹھیک ہے کی بانگیں لگاتے رہتے ہیں۔نہ جانے ربِ کائنات ان بے غیرتوں سے اس قوم کو کب نجات دلائے گا۔تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com