انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی سوچ سے دوسرے انسانوں اوراُن کے گروہ کو متاثر کرے اور اپنا ہم نوا بنا ئے تاکہ جن مقاصد کو وہ لے کر اٹھا ہے اس میں اس کو کامیابی میسر آئے اور وہ اپنے نصب العین کو حاصل کر لے ۔اِس “کامیابی” کے حصول کے لیے کبھی وہ مثبت طریقے اختیار کرتا ہے اور کبھی منفی۔انسان کو کیونکہ خالق برحق نے فطرتِ سلیم پر پیدا کیا ہے لہذا جب جب انسانوں کے گروہ کو منفی طریقوں سے اپنا ہم نوا بنانے کی سعی و جہد کی جاتی ہے ،کامیابی اُن لوگوں کے حصہ میں نہیں آتی۔اور اگر وقتی طور پر گمراہ کرکے یا منفی سوچ کے ساتھ چند قدم لوگ چلنے کے لیے تیار بھی ہو جائیں تو بہت جلد وہ دوریاں اختیار کر لیتے ہیںاور آخر کار اایسے لوگ ظلیل و خوار ہوکر رہتے ہیں۔انسان کی یہ بھی خواہش ہے کہ وہ ان حرکات و سکنات پر تنقید کرے جو اس کے خیال میں صحیح نہیں۔اس کے لیے کبھی وہ تحریر اور کبھی تقریرکا ذریعہ اختیار کرتا ہے۔ہم کسی صورت کسی بھی شخص کو “تنقید”کے اختیار سے محروم نہیں کر سکتے اور اگر کوئی شخص یا گروہ ایسا کرتا ہے تو بالواسطہ وہ لوگوں کے بنیادی حقوق سلب کرتا ہے جس کی حد درجہ مذمت کی جانی چاہیے۔حقِ تنقید کے باوجودآپ کا لہجہ اور زبان دونوں ہی ایسے ہونے چاہئیں جن سے ہر سننے والے کو محسوس ہو کہ فل واقع آپ اصلاح چاہتے ہیں۔تنقید کے لیے زبان کھولنے سے پہلے یہ اطمینان بھی کر لیجئے کہ آپ کے اعتراض کی کوئی بنیاد واقعہ میں موجود ہے؟بلا تحقیق کسی کے خلاف کچھ کہنا ایک گناہ ہے جس سے فساد رونما ہوتا ہے۔ساتھ ہی اس فرمان پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے جس میں اللہ تعالیٰ متوجہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ک:”اورلوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیز گاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے”(المائدہ:٨)۔یہ وہ واضح تعلیمات ہیں جن حدود کا ایک مسلمان کو لازماً پاس و لحاظ رکھنا چاہیے، الفاظ کی ادائیگی میں بھی اور معاملات کے لین دین میں بھی۔لیکن وہ لوگ جو اسلام اور اسلامی تعلیمات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ان پربھی تنقید کے تعلق سے اخلاقی پابندیاںنیز مختلف ممالک کے قوانین میں قانونی پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ قوم کے لیے وقف نوجوانوں کی ٹریننگ: ملک میںفل الوقت کرپشن اور اس کے خاتمہ کی آوازیں سنی جا رہی ہیں، اس کے لیے نوجوان اپنی حمایت کا اعلان بھی کر رہے ہیں اور ایسے نوجوان بھی سامنے آئے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم شادی نہیں کریں گے بلکہ قوم کی فلاح و بہود کے لیے مر مٹیں گے کیونکہ ان نوجوانوں کو دیش سے محبت ہے اس لیے کچھ لوگ ان کو ٹریننگ دینے کے بھی خواہاں نظر آتے ہیںاور یہ کام رالے گن سدھی میں انجام دینے کی تیاری میں ہیں۔اب جبکہ اننا جی نے ایک بار پھر راہل گاندھی اور کانگریس کے بخیے ادھیڑنا شروع کر دیے ہیں تو ان کی مخالفت میں آندھرا پردیش سے کانگریس ممبر پارلمنٹ ہنومنت رائو نے ٹیم انا پر پلٹ وار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کانگریس جنرل سکریٹری راہل گاندھی پر حملے سے باز آئیں وہیں راہل گاندھی کو نشانے پر لینے پر کانگریس لیڈر دگوجے سنگھ نے بھی ٹیم انا کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اس پر الزام لگایا ہے کہ ان کا ارادہ سیاسی ہے اور وہ کانگریس کے خلاف ماحول بنانے پر آمادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پوری ٹیم انا، بشمول بابا رام دیو اور شری شری شنکر کا رادہ سیاسی ہے۔ان کے لیے بدعنوانی ایشو نہیں ہے، ان کا ایشو یہ ہے کہ کانگریس کے خلاف کیسے ایشو بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی حکمت عملی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شامل سنگھ کے اراکین سے توجہ ہٹانے کی ہے۔ ایک طرف ٹیم اننا کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے اور دوسری جانب اننا جی نوجوانوں کو ٹریننگ دینے کاارادہ رکھتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اس ٹریننگ سے فیض یاب ہونے والے کس کے لیے کام کریں گے؟ سنگھ اور ان کی ہم نوا پارٹیوں کے لیے یا ملک میں امن وسلامتی اور آپسی بھائی چارے کے قیام کے لیے؟سوال یہ بھی ہے کہ یہ نوجوان اے بی وی پی کے ہوں گے یا این ایس یو آئی ،ایس ایف آئیاے آئی ایس ایف،بی وی ایس،ایس سی ایس پارٹیوں کے نوجوان ییا پھر وہ عام نوجوان جو حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں اور جن کا کسی سیاسی پارٹی سے واسطہ نہیں۔ اظہار خیال کی آزادی۔۔۔۔؟ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب گوگل متعارف ہوا تو بہت آسانی ہو گئی، اس کے بعد فیس بک اور ٹوئٹر کا وجود سامنے آیا۔یہ حقیقت ہے کہ اظہار خیال کی آزادی میں اِن سائٹس نے اہم کردار ادا کیا ہے۔کیونکہ اس کے ذریعہ ایک دوسرے سے جڑنے اور پیغامات دینے میں سہولت بھی ہے اور فائدے بھی،یہی وجہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل فیس بک پر اپنے خیالات کا اظہار بڑی بے باکی سے کر رہی ہیساتھ ہی یہ افراد اپنی ذہانت کا مظاہرہ بھی کرتے نظر آتے ہیں۔اس کے برعکس شر پسند ذہن رکھنے والے افراد “اظہار خیال کی آزادی”کے نام پر فیس بک اور ٹوئٹر کے استعمال سے فساد برپا کر نے میں مصروف ہیں جبکہ اظہار خیال کے معنی یہ نہیں کہ کسی دوسرے فرد یا طبقے کی دل آزاری کی جائے۔انٹر نیٹ کی مذکورہ سائٹس پر کئی ایسی تصاویر اور بیانات ہیں ، جس سے مخصوص افراد اور فرقے کے لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس کے برے انجام بھی سامنے آئیں گے۔ مخصوص واقعہ اور موجود شر پسندموادکی روشنی میں وزیر مواسلات کپل سبل کہتے ہیں کہ اظہار خیال کی آزادی یا صحافتی آزادی میں مداخلت نہیں کی جا رہی ہے، مگر ایسے بیانات ، جو شر انگیز ہوتے ہیں ان پر پابندی لگانا ضروری ہے۔اس سلسلے میں سبل نے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کو متنبہ کر دیا ہے کہ یا تو وہ خود ہی اشتعال انگیز مواد پر پابندی عائد کر دیں بصورت دیگر حکومت اس ضمن میں اقدام کرے گی۔ اظہار خیال یا منافرت پھیلانے کی سازش؟ اظہار خیال ہی کا تعلق ہے کہ گزشتہ جولائی میں ممبئی بم دھماکے کے دو روز بعد سبرامنیم سوامی نے ایک انگریزی اخبار میں لکھے گئے اپنے کالم میں اس کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔سبرامنیم سوامی کے اس مذکورہ مضمون کا عنوان تھا”ہائوٹووائپ آئوٹ اسلامک ٹیرز”یعنی اسلامک دہشت گردی کو کیسے ختم کیا جائے۔ یہ مضمون انگریزی اخبار ڈی این اے میں شائع ہوا تھا۔سبرامنیم نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ دہشت گردانہ کاررائیوں سے نمٹنے کے لیے ہندوئوں کو متحد ہوکر جواب دینا چاہیے اور اگر ضرورت پڑے تو مسلمانوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کر دیا جانا چاہیے۔اپنے مضمون میں سوامی نے لکھا تھا کہ مندروں کی جگہ بنی تمام مساجد کو منہدم کردینا چاہیے اور اس بات کی وکالت کی تھی کہ جو لوگ اپنے آبائو اجداد کو ہندونہیں مانتے انہیں بھی ووٹ دینے کے حق سے محروم کر دینا چاہیے۔سبرامنیم سوامی نے اس موقف کی بھی وکالت کی تھی کہ ہندوستان میں اسلامی دہشت گردی قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔سبرامنیم سوامی امریکہ کی ہاروڈ یونیورسٹی میں اقتصادیات کے ماہر کی حیثیت سے درس دیتے آتے ہیں۔اِن کے اس مضمون کے بعد ہاروڈ کی پروفیسر ڈائنااک کہتی ہیں کہ”سبرامنیم سوامی نے ایک خاص مذہب کے تمام افراد کو نیچا دکھا کر ان کی عبادت گاہوں پر حملے کی وکالت کرکے ہر طرح کی حدیں پار کردی ہیں۔لہذا یونیورسٹی کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا رشتہ کسی بھی ایسے فرد سے نا جوڑے جو کسی بھی ا قلیتی طبقے کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام کرتا ہو”۔بیشتر اساتذہ اور یونیورسٹی اسٹاف نے اس فیصلے کی حمایت کی اور آخر کارمتعصبانہ ذہنیت کی عکاسی کرنے والے آرٹیکل کی پاداش میں سوامی کے ذریعے پڑھائے جانے والے ‘کورسیس’کو ختم کردیا گیاساتھ ہی اِن کے ٢مضامین کو بھی ہٹا دیا گیا۔ توجہ طلب توجہ طلب پہلوہے کہ یہ منافرت کہاں سے پیدا ہوئی؟کون لوگ ہیں جو اس کو ہوا دے رہے ہیں اور وہ کون لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ملک میں امن و سکون کا ماحول ختم کر دیا جائے توجہ طلب پہلو یہ بھی ہے کہ یہ لوگ جو سیاست کی کمان سمبھالے ہوئے ہیں اور مختلف پارٹیوں میں سرکردہ حیثیت رکھتے ہیں اگر وہ اپنے قلم یا زبان سے منافرت پھیلاتے پھریں تو کس طرح ممکن ہے کہ وہ امن و امان کے قیام میں کوئی کردار ادا کر سکیں گے اورتوجہ طلب پہلو یہ بھی ہے کہ ان منافرت کے پرستادوںکوسیاسی میدان میں کون مات دے گا یعنی وہ کون لوگ ہوں گے جو منافرت کے خلاف ووٹ دینے سے لے کر ووٹ مانگنے تک میں اتحاد کا مظاہرہ کرسکیں گے کیا یہ ووٹ بینک کی سیاست رنگ،نسل ،ذات اور مذہب کی ہی بنیادوں پر ہوتی رہے گی ؟یا اس کا متبادل بھی سامنے آئے گا۔ یہ صحیح ہے کہ تمام ہی سیاسی پارٹیاں اور سیاسی لیڈر انتخابات کے دنوں میںآپسی بھائی چارے اورفردو ریاست کی فلاح و بہود کی بات کرتے ہیںلیکن جب وعدے پورے کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ اقتدار میں وہ کن بنیادوں پر آئے تھے۔آج وطن عزیزمیں چند مقامات سے مسلم قیادت بھی ابھر رہی ہے لیکن اس قیادت کو موجودہ گمراہ کن سیاست سے اپنے آپ کو الگ رکھنا ہوگا تبھی ممکن ہے کہ وہ سیاسی میدان میں اپنی جگہ بنا سکیں۔کیونکہ جذبات عام طور پر وقتی ہوتے ہیں لیکن فکر و عمل میں ہم آہنگی بہت دور رس نتائج اخذ کرتے ہیں۔ محمد آصف اقبال، نئی دہلی