جیسے ہی منصور اعجاز کی آمد کی اطلاعات گرم ہوتی ہیں سرکاری ایوانوں میں ہلچل سی مچ جاتی ہے۔اس ہل چل میں چند ایک افراد تو کچھ زیادہ ہی بوکھلائے ہوے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ان میں ایک اہم نام صدر زرداری کے جیل کے ہم جولی رحمان ملک کا بھی شامل ہے۔جو منصور اعجاز کی پاکستان آمد کی خبر سنتے ہی بے خودی میں نہ جا نے کیا کیا کہنے لگ جاتے ہیں۔ منصور اعجاز کو خوف زدہ کرنے کی غرض سے پیپلزپارٹی کے لوگ کبھی کہتے ہیں کہ انہیں گرفتار کر لیا جائے گا رحماملک اس پر تڑکا لگاتے ہیں کہ ان سے پوچھا جائے گا کہ انہوں نے سازشیں کر کے بی بی کی حکومت کیوں گروائی تھی؟ وزیر داخلہ نہ اس معاملے میںجانے کیوں احمقوں کی سی باتیں کر نے لگ پڑے ہیں۔ اگر ایساے لوگ کامیاب ہونے لگے تو پاکستان میں کسی کا بھی اقتدار چند دنوں سے آگے بڑھ ہی نہ سکے گا۔ ان کا پارہ اُس وقت انتہائی بلندی پر پہچ گیا جب انہیں یہ اطلاع ملی کہ منصور اعجاز کو پاکستانی سفارت خانے ویزا جاری کر دیاہے۔منصور اعجاز نے جمعرات کی سہ پہرکو پاکستانی ہائی کمیشن سے ویزے کے حصول کے لئے رابطہ کیا تھا۔ہائی کمیشن نے پاسپورٹ دیکھنے کے بعد چند سوالات کے جوابات لیکر منصور اعجاز کو پاکستان کا ایک سال کا ملٹی پل ویزجاری کر دیا ہے ۔جس کے بعد19 جنوری کو ہی میڈیا پر یہ خبر آگئی تھی کہ میمو کیس کے مرکزی کردار منصور اعجاز 24جنوری کو سپریم کورٹ کے میمو کمیشن اور26 جنوری کو پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہو ں گے۔اس خبر نے تو جیسے پیپلز پارٹی کے ایوانوں میں ایک بھونچال سا پیدا کر دیا۔رحمان ملک اور کئی حکومتی وکیل تو پہلے سے ہی منصور اعجاز کی پاکستان میں داخلے کی کی شدت کے ساتھ مخالفت بھی کر رہے ہیں اور اُس کو جھوٹا ثابت کرنے کی بھی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں ۔ وزیر داخلہ رحمان ملک تو کئی مرتبہ منصور اعجاز کو دھمکیاں بھی دے چکے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ منصور اعجاز کو پاکستان میں داخل ہوتے ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔کبھی کہا جاتا ہے کہ اُس کے پاکستان میں داخلے کے بعد اُس کا نام ای سی ایل پر ڈالدیا جائے گا۔اس بات کے جواب میں سینئر سیاست دان اور سابق وزیر داخلہ اور پارلیمانی کمیٹی کے رکن آفتاب شیر پائو کا کہنا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی سمیت پاکستان کی کوئی اتھارٹی منصور اعجاز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نہیں ڈال سکتی۔صرف اعلیٰ عدالتیں ہی یہ کام کر سکتی ہیں!!!وہ کمیشن کے بلانے پر مخصوص حالات کے تحت ایک معاہدے کے تحت پاکستان آرہے ہیں۔ موجودہ وزیر داخلہ کے اختیارات نہیں ہیں کہ وہ ان سے تفتیش کریں۔وزیر داخلہ کے پاس کوئی ایسا ثبوت نہیں ہے کہ کہ منصور اعجاز نے بے نظیر حکومت گرانے میں کوئی کردار ادا کیا تھا …..مگر اس کے باوجودکبھی کہا جاتا ہے کہ منصور اعجاز جو فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف زہر افشانی کرتا رہا ہے اس کا بھی اُس سے پوچھا جائے گا۔کل ہی کی بات ہے کہ رحمان املک کا ایک اور بیان سامنے آگیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ منصور اعجاز کو تمام سوالوں کے جواب دینے تک تو پاکستان میں ہی رہنا ہوگا۔غالباََ پیپلز پارٹی کے جیالوں کی تسلی کے لئے وہ یہ بھی کہہ گئے کہ کوئی پریشان نہ ہو منصور اعجاز کی سیکورٹی کی ذمہ داری میری ہے۔اس کے بعد وزیر اعظم کو بھی جیالوں کی تسلی کے لئے کہنا پڑا منصور اکو پاکستان میں شہزادوں جیسی سیکورٹی فراہم نہیں کیجا سکتی ہے….یہ بات ہماری سمجھ سے بالا تر ہے کہ ان سب لوگوں کو منصور اعجاز کی آمد اور میمو کمیشن میں پیش ہونے سے کیوں پریشانی ہے؟ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔اگر منصور اعجاز جھوٹا ہے تو خود ہی ذلیل ہو کر جائے گا!!!مگر حکومت کی بدحواسی سے لگتا ہے کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے!!منصور اعجاز کو گرفتار کر نے کے لئے ایک جیالے نے سیشن عدالت میں درخواست دی تھی جس میں منصور اعجاز کو سنگین دفعات کے تحت فوجداری مقدمے کے اندراج کے درخواست دی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ منصور اعجاز نے فوج اور حکومت کولڑانے کی کوشش کی ہے۔جس نے غیر ملکی اخبا میں پاک فوج کے خلاف آرٹیکل لکھے ۔لہٰذا منصور اعجاز کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے ۔جس مذکورہ عدالت نے خارج کر دیا۔منصور اعجاز کو پاکستان میں آنے سے روکنے کے لئے پیپلز پارٹی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے مگر وہ اس کام میںہر سطح پر نا کام ہوچکی ہے۔ ان تمام لوگوں کی دلی خواہش اور کوشش یہ ہی ہے کہ منصور اعجازپاکستان نہ آسکے۔ منصور اعجاز کی سیکورٹی کے بارے میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع کے درمیان مشاورت ہوئی ہے اس حوالے سے ہفتہ کو وزیر داخلہ رحمان ملک کایہ کہنا تھا منصور اعجاز کی سیکورٹی اور حفاظت کے لئے فوج کو طلب کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے ہی لمحے انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ آئین کی خلاف ورزی پر حکومت منصور عجاز کے خلاف تحقیقات کرواسکتی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عوام جاننا چاہتی ہے کہ آپ کو کس نے فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف کام کرنے کے لئے کہا تھا….ملک صاحب اگر یہ پینڈرا کھلا تو اس میں بھی تمہارا چہیتا ہی ملوث پایاجائے گا جو امریکہ میں بیٹھ کرملا ملٹری اتحاد کے نام سے کتاب لکھ کر آئی ایس آئی اور پاکستان کی فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا رہا ہے اورجس کی منصور اعجاز سے دوستی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جس کی تحریروں کا ریکارڈ آج دنیا کی لائبریریوں میںبھی موجود ہے۔جو خود حسین حقانی کے ہاتھوں سے ہی تحریر کردہ ہے۔ آج کا سونے کے پنجرے میں قید پنچھی جس کا نام حسین حقانی پاکستان کے اداروں کو ایک مرتبہ پھر دنیا میں بدنام کرنے کے لئے امریکہ کے اخبار وال اسٹریٹ جنرل کو ایک انٹرویو دیتے ہوے پاکستان اور اس کے اداروںکو بد نام کرنے کی کوشش کر رہاکی ہے۔جس کا کہنا ہے کہ ریاستی ڈھانچے کے کچھ عناصر ملک کی منتخب قیادت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔پاکستان میں کچھ قوتیں ہمیں اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خوف کے اندر رکھنا چاہتی ہیں۔تاہم محترم یہی کام تو آپ بھی امریکہ میں بیٹھ کر کرتے رہے ہیں اور آپ بھی تو اپنے اداروں پر اتہام طرازی میں مصروف ہیں ۔آپ کے اس فعل کی کسی کو فکر کیوں نہیں ہے ۔ایک غیر ملکی جب آپ کے اور آپ کے سرپرستوں کا کچا چٹھا کھولنے کی شہادتیں لا رہا ہے تو سب کی ٹانگیں کیو کانپ رہی ہیں؟پاکستان آنے کے بعد منصور اعجاز جو امریکی شہری ہے اُس کی جان کو خطرہ تو موجود ہے یہی وجہ ہے کہ منصور اعجاز نے ایک مرتبہ پھر خوف کے عالم میں پاکستان آنے سے انکار کر دیا ہے۔کیونکہ وزارت داخلہ اس ضمن میں بہت بھونڈا کھیل کھیل رہی ہے۔ایک جانب تو کہا جاتا رہا ہے کہ منصور اعجاز کوئی بڑا آدمی نہیں دوسری جانب بڑے بڑے منہ منصور اعجاز کی مخالفت میں غصے میں لال پیلے ہو ہو کر کھل رہے ہیں۔منصور اعجاز کی آمد سے حسین حقانی کا چاہے کچھ ہو یا نہ ہو مگر وزیر اعظم اور رحمان ملک کی خاص طور گبھراہٹ دیدنی ہے۔وزیر اعظم نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ فیصلہ کچھ بھی آئے تھانے دار تو میں ہی لگاوئں گا….وزیراعظم کے اس بیان سے بھی حکومت کے عزائم کابخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ہمیں سمجھ نہیں آرہی ہے کہ یہ لوگ پاکستان کے ساتھ کس قسم کاکھیل کھیل رہے ہیں۔یہاں سابقہ ڈکٹیٹر کے الفاط ہی یاد آرہے ہیں کہ” پاکستان کا خدا ہی حافظ ہے۔پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید03333001671shabbir4khurshid@gmail.com