اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہماراملک دنیا کی ایک ایٹمی قوت ضرور ہے مگر اِس کے ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان اپنی اِس حیثیت کے اعتبار سے اپنے تمام حصوں میں مساوی ترقی نہیں کرپایاہے یہ اپنے قیام سے اَب تک غیر ترقی یافتہ ہونے کا ٹیکہ اپنے ماتھے پر سجائے ہوئے ہے جبکہ ہوناتو یہ چاہئے تھاکہ آج یہ جس طرح ایک ایٹمی ملک بناہواہے اِس کا شمار بھی دنیاکے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں ضرورہوناچاہئے تھا۔
مگر افسوس کہ یہ اَب تک غیرترقی یافتہ ملک ہونے کے خول سے نہیں نکل سکاہے اِس کی کیاوجہ ہے …..؟یہ ایک علیحدہ بحث ہے مگر ہم یہاں اتناضرور عرض کریں گے کہ ہمارا یہ ملک پاکستان بھی دنیا کا ایک دولت مندملک بن سکتاہے بشرطیکہ ہم اپنے اُن قدرتی وسائل سے بھرپور استفادہ حاصل کریں جنہیں قدرت نے ہماری ضرورتوں کو پوراکرنے کے لئے ہماری زمین کے چپے چپے میں پوشیدہ کر رکھاہے یعنی جس دن ہم نے اپنے اِن قدرتی وسائل کو اپنی ضرورتوں کو پوراکرنے کے لئے استعمال کرناشروع کردیا تو ہم یقین کرسکتے ہیں کہ ہماراملک بھی دنیاکے اُن دولت مند ممالک کی صف میں ضرورکھڑاہوسکتاہے جن سے ہم اَب تک اپنی ضرورتوں کوپوراکرنے کے لئے کبھی قرض توکبھی امداداور جب اِن سے بھی ہماراکام نہیں چلتاہے تو ہم کشکول ہاتھ میں اُٹھائے اِن سے بھیک مانگنے کے لئے نکل پڑتے ہیں ۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اِن زرائع کو اپنی ترقی اور خوشحالی کے لئے سنجیدگی اور حقیقی معنوں میں بروئے کار لانے سے متعلق کبھی سوچابھی نہیں ہے کیوںکہ گزشتہ 64سالوں کے دوران ہمارا سارازور تواپنی ضرورتوں اور خواہشات کو پوراکرنے کے لئے اپنوں اور اغیار سے جھولیاں پھیلاپھیلاکر قرض،امداداور بھیک مانگنے میں ہی گزرگیاہے جب اِن سے ہی اپناکام چل جاتاہے تو پھر کیا۔
ضرور ت ہے کہ کوئی ایساکام کیاجائے جس میں ہماری ذہنی اور جسمانی توانائی خرچ ہو اور یہی کچھ ملے جو(صرف ذراسا کشکول اٹھانے )بھیک مانگنے سے مل جاتاہے۔ مگر دوسری جانب ایک یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیاکے کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کا دارومدار اپنے زرائع کو استعمال میں لائے بغیر ممکن نہیں ہے یعنی اِس کی ترقی اور استحکام اُس وقت تک بے معنی ہیں جب تک یہ اپنے زرائع کو استعمال میں نہیں لاتایہاں ہمیں کہنے دیجئے کہ دنیاکے جو ممالک اپنے وسائل کو استعمال میں نہیں لاتے تو اِن کا معیار زندگی بھی ہماری طرح سے کبھی بلندنہیں ہوتاہے اور اِسی طرح ہمارے خیال میں دنیاکے کسی بھی ملک کے لئے اِس کے باشندوں کی خوشحالی مسرت اور ترقی سے زیادہ اور کوئی امر قابل اطمنان اور باعث افتخار نہیں ہوسکتااور دنیاکے کسی بھی ملک کے حکمران کے لئے اُس کی سب سے زیادہ بڑی اور اہم کامیابی یہی ہے کہ اِس کے عوام کو مادی ، اخلاقی ،سیاسی ،اقتصادی ،صحت عامہ، تعلیم اور روحانی ترقی حاصل ہو۔
اِس ساری تمہید کے منظر اور پس منظر میں اگر ہمارے وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی بھی ہماری اتنی سے بات سمجھ لیں کہ اقتدار تمام تر ایک ایسی مقدس امانت ہوتاہے جو قومیں اپنے اندر سے اُس شخض کے حوالے کرتی ہیں جو اُن میں سب سے زیادہ مخلص، امانتدار، دیانتدار اور سب سے زیادہ فہم وفراست سے مالامال ہوتاہے اِن صفات کی حامل شخصیت کو جب اقتدار اللہ تعالی کی طرف سے مل جاتاہے تو اِس شخص پر یہ بات پوری طرح سے لازم ہوجاتی ہے کہ وہ رب کائنات کی طرف سے تفویض کی گئی اِس اہم زمہ دار ی کو انتہائی نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ نوع انسانی کی خدمت کے لئے خوش اسلوبی سے انجام دے اور پوری طرح امانت داری اور دیانتداری کے ساتھ اپنے دورے اقتدار میں اپنی قوم اور ملک و ملت کے لئے اپنی تمام ترخداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لائے تاکہ وہ روزقیامت اللہ تعالی کے سامنے سُرخروہو اور اللہ کو بتاسکے کے اے میرے رب تو نے مجھے اقتدار کی صورت میں جو ذمہ داری سونپی تھی اُسے میں نے اپنی پوری دیانتداری اور خلوص نیت کے ساتھ انجام دی اور آج میرے رب تو اِس کے صلے میں مجھے اِنعام اور اکرام سے نوازدے۔
ناکہ جس طرح گزشتہ دنوں وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی صاحب آپ نے اپنی اُن تمام تر ذمہ داریوں سے جواللہ تعالیٰ نے آپ کووطن پاکستان کا اقتدار سونپ کردی ہیں اِن سے پہلوتہی کرتے ہوئے جب آپ نے اپنے انتہائی معصوم لہجے میںاپنے نئے سیکرٹری امتیاز حُسین قاضی سے گفتگوکرتے ہوئے اِنہیں”ملک کے کسی بھی حصے میں غیراعلانیہ بجلی کی لوڈشیڈنگ نہ کرنے کی ہدایت کی ” تو قوم کو آپ کی اِس بے معنی اور بے مقصد ہدایت سے سخت مایوس ہوئی ۔
اِس موقع پر قوم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ وزیراعظم نے وزارت پانی وبجلی کے نئے سیکرٹری امتیاز حسین قاضی کو اِن سے اسپیشل ملاقات کے دوران اِنہیں اپنی خصوصی ہدایت میں صرف اِس بات کا کیوں پابندکیاہے….؟؟ کہ ملک کے کسی بھی حصے میں غیراعلانیہ بجلی کی لودشیڈنگ نہ کی جائے” وہ یہ بھی تو امیتاز حسین قاضی کو کہہ سکتے تھے کہ آج عوام ملک میں توانائی بالخصوص بجلی کے بحران کے باعث کئی کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے سخت پریشان ہے تو وہیں اِس سے ملک کی صنعتی ترقی اور معیشت کا پہیہ رک گیاہے ملک کے طول وارض سے بجلی کے بحران اور طویل لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر تمام تر اقدامات اُٹھائے جائیں ۔
کوشش کی جائے کہ آپ(مسٹر امتیاز حسین قاضی) اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر عوام کو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے کے ساتھ ساتھ ملک کی دم توڑتی معیشت کو سہارادینے کے لئے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ بجلی کی لوڈشیڈنگ بن کرائیں۔ مگر ہائے رے …!افسوس کہ وزیراعظم ایساکچھ نہیں کہہ سکے بلکہ اُنہوں نے امیتاز قاضی سے جو کہااِس سے تو صاف طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے اپنے ڈھکے چھپے لہجے میں سیکرٹری امتیاز حسین قاضی کو یہ سمجھادیاہے کہ ملک کے کسی بھی حصے میں ڈنکے کی چوٹ پر غیراعلانیہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بجائے اعلانیہ طورپر لوڈشیڈنگ کی جائے بھلے سے وہ بیس سے تائیس گھنٹوں یاپورے پورے دن اور رات پر ہی کیوں نہ محیط ہو۔
ِ اِس موقع پر ہم یہ کہناچاہیں گے کہ ارے وزیراعظم صاحب آپ اور صدرمملکت کی یہ کیسی عوامی اور جمہوریت حکومت ہے کہ آج ملک کے عوام اِس جمہوری حکومت میں اُن چیدہ چیدہ مسائل سے بھی دوچار ہوگئی ہے جن سے یہ کسی بھی آمر حکمران کے دورِ میں بھی شاید کبھی رہی ہومگر آپ لوگوں کی سول اور عوامی جمہوری حکومت نے تو عوام کو مسائل کی کچی میں پیس کراِس کاکچومر ہی بنادیاہے اور بڑی افسوس کی بات ہے کہ آپ لوگ اِس کے باوجودبھی کس منہ سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ کی حکومت نے عوام کے وہ دیرینہ مسائل حل کردیئے ہیں جن سے یہ گزشتہ 64سالوں سے دوچار تھی ۔
جبکہ اگر صحیح معنوں میں حقیقت پسندی سے دیکھاجائے تو حقائق اِس کے یکدم برعکس یہ ہیں کہ موجودہ عوامی اور جمہوری حکومت نے کسی آمر کی دورِحکومت سے کئی گنازیادہ آج عوامی مسائل میں اضافہ کردیاہے جس کی وجہ سے ملک کے ساڑھے سترہ کروڑعوام ہاتھ اُٹھااُٹھاکراللہ تعالی ٰ سے یہ دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے !رب کائنات آئندہ ایسی سول حکومت ہم پر مسلط نہ کرناجوملک کے عوام اور ملک کے ساتھ اِس حکومت کی طرح مخلص نہ ہوجو ہر لمحہ اور ہرگھڑی اپنے مفادات کا خیال رکھے اور عوامی مسائل کو پسِ پست ڈال کراپنے بینک بیلس بھرے اور قومی خزانے کو موجودہ حکمرانوں کی طرح اپنی عیاشیوں پر خرچ کرکے یہ دعویٰ کرے کہ اِس نے عوام کی خدمت کی ہے جس طرح آج وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی نے بجلی کے بحران میں گھری ہوئی۔
اپنی قوم کو اِس مسلے سے فوری نجات دلوانے کے بجائے اِس کے ذمہ داروں کو اپناسینہ ٹھونک کہاہے کہ ملک میں غیراعلانیہ بجلی کی لوڈشیڈنگ نہ کیاجائے” ہم یہاں آخر میں ایک مرتبہ پھر یہی کہیں گے کہ ایسامحسوس ہوتاہے کہ جیسے وہ یہ کہناچارہے ہوں ہوسکے تو اعلانیہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی جائے بھلے سے وہ 20سے23گھنٹوں یا پورے پورے رات دن کے دورانئے کی ہومگر توانائی بچانے کے لئے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو ضرور ہو۔