میرے لئے یہ امر انتہائی فخرو انسباط کا مظہر ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے توہینِ عدالت کے بل میں بنیادی تبدیلیاں لاکر اسے قومی اسمبلی سے منظور کر لیا ہے اور یوں ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی آخری نشانی کو بھی دریا برد کر کے آئینِ پاکستان کو پاک و صاف کر دیاہے۔
سید یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کے بعدیہ لازمی ہو گیا تھا کہ ا س قانون کی بنیادی خامیوں کی اصلاح کی جاتی تا کہ پارلیمنٹ کی بالا دستی عدلیہ کے ہاتھوں ایک بار پھر خاک میںملنے سے بچ جاتی ۔
gilani
کوئی سید یوسف رضا گیلانی کے اندازِ حکمرانی سے لاکھ اختلاف کرے لیکن یہ ایک انمٹ حقیقت ہے کہ وہ اس ملک کا وزیرِ اعظم تھا اور اٹھارہ کروڑ عوام کی امنگوں کا ترجمان تھا لیکن اس شخص کو جس توہین آمیز انداز میں وزارتِ عظمی سے فارغ کیا گیا ہے اسطرح تو کسی تیسرے درجے کے افسر کو بھی فارغ نہیں کیا جا تا۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب پچھلے سال وزیرِ اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے کچھ ملازمین کی ترقیاں اور تبادلے کرنے کے احکامات صادر فرمائے تھے تو سپریم کورٹ نے وہ تبادلے اور تقرریاں روک دی تھیں کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ ان احکامات میں میرٹ کو نظر انداز کیا گیا تھا لیکن جب وزیرِ اعظم پاکستان کو ہٹا نے کا مر حلہ درپیش ہوا تو بڑی بے ر حمی سے وزیرِ اعظم پر آئین کی تلوار چلا کر اسے قتل کر دیا گیا حالانکہ اس وقت جو تقرریاں اور تبادلے کئے گئے تھے وہ آئینی تھے ۔
آئین وزیرِ اعظم کو انتظامی امور چلانے کیلئے ترقیوں اور تبادلوں کا مکمل اختیار دیتا ہے اگر وزیرِ اعظم تبادلے اور تقرریاں نہیں کر سکتا تو پھر انتظامی امور کی انجام دہی کیلئے کوئی بھی شخص تقر ریاں اور تبادلے کرنے کی اتھارٹی نہیں رکھتا ۔ بہر حال سپریم کورٹ اڑ گئی اور اگر سپریم کورٹ اڑ جائے تو پھروزیرِ ا عظم کو جھکنا پڑتا ہے۔ ایک خط نہ لکھنے کی بنیاد پر وزیرِ اعظم کو نا اہل قرار دے دینا انصاف کا خون ہے ظلم و زیادتی ہے اور تاریخ کے صفحات پر یہ فیصلہ پارلیمنٹ پر شب خون کے نام سے ہی یاد رکھا جائیگا۔ سپریم کورٹ ابھی تک اڑی ہو ئی ہے اور معلوم نہیں کہ یہ اڑ جا نا کیا کیا گل کھلائیگا؟اس ضد کی وجہ سے ملک کا بے پناہ نقصان ہو رہا ہے کیونکہ انتظامی فیصلوں میں وہ قوت نہیں رہی جو کسی ملک کو چلانے کے لئے ضروری ہو تی ہے اور نتیجے کے طور پر پوری انتظامی مشینری مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
ملک کا چیف اگز یکٹو جس کے سامنے ملک کی ساری انتظامیہ کو جواب دہ ہو نا ہوتا ہے اس کا تو عدالت نے ایک حکم کے ذریعے تا یا پانچا کر کے رکھ دیا ہے لہذا انتظامی مشینری کو کون لگام دیگا ؟وہ تو شترِ بے مہار کی طرح جو من میں آئے گا کریگی کیونکہ اس سے جواب طلبی کرنے والی اتھارٹی کا دن دھاڑے قتل کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کون صحیح اور کون غلط ہے بلکہ اہم معاملہ یہ ہے کہ ایک وزیرِ اعظم کو اس کے عہدے سے فارغ کرنے کا اختیار ایک عدالت کے پاس کیسے چلا گیا؟وزیرِ اعظم کو فارغ کرنے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہو تا ہے اور یہ اختیار اسی کے پاس ہی رہنا چائیے کیونکہ وہی ایک ادارہ ہے جو منتخب ہو تا ہے ۔ اگر کسی دوسرے ادارے اور طاقتور گروہوں نے ہی وزیرِ اعظم کی حیثیت اور بقا کا فیصلہ کرنا ہے تو پھر پارلیمنٹ کی خود مختاری اور آزادی کہاں باقی رہ پائیگی۔
National Assembly
پارلیمنٹ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہوتا ہے اور اسکی آئینی حیثیت میں مداخلت کا حق کسی بھی ادارے کے پاس نہیں ہوتا چاہے وہ ادارہ ہمیں کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو۔ پارلیمنٹ کو عوام اپنے ووٹوں سے حقِ حکو مت تفویض کرتے ہیں لہذا حکومت کو ہٹا نے کا اختیار بھی پارلیمنٹ کے پاس ہو تا ہے ۔ ہمارے آئین میں کئی عشروں تک ٥٨ ٢ بی آئین کا حصہ تھی جس میں صدرِ پاکستان کو اختیار حاصل تھا کہ وہ پارلیمنٹ کو تحلیل کر کے نئے انتخابات کا اعلان کر دے اس ٥٨ ٹو بی نے جو گل کھلائے وہ سب کے سامنے ہیں ۔ اک طرفہ تماشہ تھا جو چہار سو مچا ہو تا تھا اور سیاست دانوں کی کھٹیا کھڑی کر دی جاتی تھی اور انھیں ا کثر و بیشتر جیل کی ہوا بھی کھا نی پڑتی تھی ۔ موجودہ اسمبلی خوش قسمت ہے کہ صدرِ پاکستان نے اپنے سارے اختیارات پارلیمنٹ کو تفویض کر دئے ہیں تا کہ پارلیمنٹ کے سر پر لٹکتی ٥٨ ٹو بی کی تلوار اس کی آزادی کو سلب نہ کر سکے لیکن باعثِ حیرت ہے کہ اب اسی پارلیمنٹ کے منتخب نمائیندے کو صدرِ مملکت نہیں بلکہ سپریم کورٹ نے فارغ کرنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے جو کے پارلیمنٹ کی توہین کے مترادف ہے۔
ہما را سفر در اصل دائروں کا سفر ہے ہم جہاں سے چلے تھے وہی پر کھڑے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ فیصلے کرنے والے ادارے بدل گئے ہیں۔جسطرح صدرِ پاکستان کے ہاتھوں ٥٨ ٹو بی کا استعمال غلط تھا اسی طرح سپریم کورٹ کے ہاتھوں وزیرِ اعظم کو فارغ کرنے کا اقدام بھی غلط ہے کیونکہ اسطرح سے ملکی نظام بالکل تہس نہس ہو کر رہ جائیگا اور قوم کی ترقی کی منزل کھوٹی ہو جائیگی ۔اداروں کے تصادم کی آڑ میں کچھ سیاسی جما عتیں اسطر ح کے اقدا مات کی حمائت کرتی نظر آرہی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے اقتدار کی منزل قریب تر ہو سکتی ہے۔ لیکن ان سے صرف اتنا سوال کیا جانا ضروری ہے کہ جب ایک سازش کے تحت سید سجاد حسین شاہ نے ١٩٩٨ میں وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کو لائن حاضر کر لیا تھا تو پھر اس وقت ان کا ردِ عمل کیا تھا؟
کیا انھوں نے عدالتی احکامات پر عمل در آمد کر لیا تھا ؟ بالکل نہیں کیونکہ ایسا کرنا جمہوری نظام کو یرغمال کروانے کے مترادف تھا اور میاں محمد نواز شریف نے عدالت کے سامنے سرنگوں ہونے سے انکار کر کے پارلیمنٹ کی بالا دستی کو یقینی بنا نے کا عزم ظاہر کیا تھا لیکن اس کیلئے انھوں نے جس راہ کا انتخاب کیا تھا وہ غلط تھا۔سپریم کورٹ پر حملہ ایک سنگین جرم تھا جسے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ۔عدلیہ کے غیر منصفانہ طرزِ عمل کے کہیں بھی یہ م معنی نہیں کہ عدلیہ کے ادارے کو ہی تہس نہس کر کے رکھ دیا جائے ۔موجودہ حکومت کی عدلیہ نے جو درگت بنائی ہو ئی ہے وہ سب کے سامنے ہے لیکن اس حکومت نے اس طرح کے کسی اقدام کا عندیہ نہیں دیا جو عدلیہ سے اس کی گہری محبت کا غماز ہے ۔ موجودہ حکومت ابھی تک صبرو تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کر رہی ہے جس کا ادراک عدلیہ کی مسند پر بیٹھے ہو ئے معزز ججز کو نہیں ہو رہا۔ کاش وہ اس کا ادراک کرلیں توغیر یقینی کے بادل ہمیشہ کیلئے چھٹ جائیں گئے او قوم سکون کا سانس لے گی۔۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صدرِ پاکستان سردار فاروق لغا ری اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد حسین شاہ نے آپس میں گٹھ جوڑ کر رکھا تھا اور وہ میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو فارغ کر کے اپنے اقتدار کی راہیں سیدھی کرنا چاہتے تھے ۔وہ ایک سازش کے تحت جمہوری نظا م کو تبا ہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے تھے اور آئینی حکومت کی راہ میں نت نئے روڑے اٹکا رہے تھے۔ میاں محمد نواز شریف کو اس وقت دو تہائی اکثر یت حاصل تھی لیکن اس کے باو جود بھی دونوں سازشی ان کے قابو میں نہیں آ رہے تھے جس کی وجہ سے سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا اور سجاد حسین شاہ کو چیمبر میں چھپ کر اپنی جان بچانی پڑی تھی ۔ عجیب اتفاق ہے کہ ماضی کے ان دونوں کرداروں سید سجاد حسین شا ہ(چیف جسٹس آف پاکستان) اور سردار فاروق احمد خان لغاری( صدرِ پاکستان) کا ایک بھی نام لیوا اور حمائیتی کہیں پر بھی نہیں ملے گا کیونکہ ان کے اقدامات بد نیتی پر مبنی تھے اور آ ئین کے نام پر وہ سازشوں کا جال بھن رہے تھے۔وقت کے بے رحم پہیے نے ان دونوں کو روندھ کے رکھ دیا ہے کیونکہ بد نیتی ایک دن ظاہر ہو کر رہتی ہے اور ذلت کا باعث بنتی ہے۔اس وقت ان کے اقدامات کی حمائت کرنے والے اور انھیں ہوا دینے والے بھی بڑے تھے لیکن وہ سارے کے سارے کردار وقت کی دھول میں کہیں گم ہو چکے ہیں اور سچائی یہی ہے کہ سازشیوں کا انجام بہت برا ہوا کرتا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اپنے اقتدار کو بچانے کی خاطر سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والی جماعت آج آگے بڑھ کر عدلیہ کے بپھرے ہوئے طوفان کو ہوا دے رہی ہے کیونکہ آج پی پی پی بر سرِ اقتدار ہے اور اس پارٹی کا اقتدار انھیں کسی بھی صورت میں گوارہ نہیں ہے۔مسلم لیگ (ن) بھی ماضی میں عدالتوں سے ڈسی گئی جماعت ہے لہذا اس کی ترجیح جمہوریت کی بقا ہو نی چائیے۔ اسے عدلیہ کے پیچھے چھپ کر وار کرنے سے اجتناب کرنا چائیے کیونکہ اس کے نتائج بڑے خطرناک ہو ں گئے۔ پی پی پی کسی نہ کسی طرح سے اس مشکل وقت سے نکل جائیگی لیکن جس روائیت کو مسلم لیگ (ن) قائم کر نے کی سازش کر رہی ہے اسے
ایک دن اس پر شرمندہ ہو نا پڑیگا اور اپنے اس منفی کردار کی قیمت چکانی پڑیگی بالکل دھشت گردی کے ان قوانین کی طرح جو اس نے اپوزیشن کے کچلنے کیلئے بزور بنا لئے تھے لیکن اسی قانون کے شکنجے نے میاں برادران کی گردنوں کو دبوچ لیا تھا اور پھر انھیں معافی نامہ لکھ کر دس سالوں کیلئے سعوی عرب میں جلا وطن ہو نا پڑا تھا۔میری ذاتی رائے ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو پارلیمنٹ کی مضبو طی اور خود مختاری کے لئے آگے بڑھنا چائیے کیونکہ کل اقتدار کے سنگا سن پر ان کو بھی بیٹھنا ہے اور ایسا نہ ہو کہ ان کا حشر بھی کسی طالع آزما چیف جسٹس کے ہا تھوں ویسا ہی ہو جائے جیسا١٩٩٨ میں سید سجاد حسین شاہ کے ہاتھوں ہوا تھا۔ برے وقت کا کوئی پتہ نہیں ہو تا اور پھر برا وقت بتا کر نہیں آیا کرتا بس اسے آنا ہو تا ہے اور یہ آجاتا ہے اور پھر انسان صرف دیکھتا رہ جاتا ہے۔دو تہائی اکثریت کے ہوتے ہوئے میاں محمد نواز شریف نے کب سوچا تھا کہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس سید سجاد حسین شاہ ان کی وزارتِ عظمی پر حملہ آور ہو جائے گا اور انھیں اپنے بچائو کے لئے وہ کچھ کرنا پڑیگا جسے وہ کبھی بھی حق بجانب نہیں ٹھہرا پائیں گئے۔پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہے کہ اس کے قائدین ذاتی مفادات کے پیشِ نظر اپنے موقف بدلتے رہتے ہیں جس نے سیاست جیسے معزز پیشے کو بدنامی کے داغ لگا د ئے ہیں ۔
اگر ایک موقف سچ ہے تو اس سچ کا اظہار حکومت اور اپوزیشن بنچوں میں بیٹھتے وقت یکساں طور پر ہو نا چائیے تاکہ موقف کی سچائی اور سیاست کا تقدس ہمیشہ بر قرار رہے۔ توہینِ عدالت کا وہ قانون جسے میاں محمد نواز شریف نے عدلیہ سے تصادم کے دنوں میں بنا یا تھا پی پی پی نے اسی قانون کو چند ترامیم کے ساتھ منظور کیا ہے لیکن مسلم لیگ(ن) اس کی کھل کر مخالفت کر رہی ہے جو اسے زیب نہیں دیتا۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو ٥٨ ٹو بی کے سخت ناقدین میں سے تھیں کیونکہ ان کی اپنی دونوں حکومتیں اسی ٥٨ ٹو بی کی بدولت تحلیل کی گئی تھیں لیکن ١٩٩٧ کے انتخابات میں جب میاں محمد نواز شریف نے دو تہائی اکثریت ھاصل کر لی تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس ٥٨ ٹو بی کے خا تمے کیلئے میاں محمد نواز شریف کا ساتھ دیا تھا حا لانکہ اس شق کو ختم نہ کرنا پی پی پی کے مفاد میں تھا لیکن محترمہ سمجھتی تھیں کہ ٥٨ ٹو بی پارلیمٹ اور جمہوریت کیلئے ایک دو دھاری تلوار ہے لہذا پی بی بی نے اس شق کے خاتمے کے لئے میاں محمد نواز شریف کے ساتھ مکمل تعاون کر کے اسے ختم کروا دیا تھا اور ایک اصول پسند سیاست دان ہونے کا ثبوت دیا تھا ۔