مہمان کی تواضح، پڑوسی کا خیال رکھنا اور بے مقصد گفتگو سے گریز مومن کی پہچان ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” جو کوئی اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے اور جو کوئی اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسکو چاہیے کہ وہ اپنے ہمسایہ کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسکو چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔
” اس حدیث پاک میں مومن کی تین صفات حمیدہ کا ذکر کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اور قیامت کے دن میں جزا اور سزا کا یقین رکھتا ہو، اسکو چاہیے کہ آنیوالے مہمان کی عزت اور دلجوئی کرے اور اپنے قول و فعل سے اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور یا تو اچھی بات کرے جس میں اسکے دین و دنیا کا بھلا ہو، ورنہ خاموشی اختیار کرے۔
islamic food
کیونکہ غلط اور معصیت والے کلام سے تو خاموش رہنا ہی ہزار درجہ بہتر ہے۔ مہمان کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھنا چاہیے۔ آنیوالا مہمان اپنی قسمت کھاتا ہے اور میزبان کی بخشش کا زریعہ بن جاتا ہے۔ میزبان کو چاہیے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سمجھتے ہوئے اسکیساتھ خوش خلقی سے پیش آئے۔
ترشوئی سے پیش نہ آئے، سخت رویہ اختیار نہ کرے اور حتٰی الوسع خود خدمت کرے۔
حضرت امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ ذکر فرماتے ہیں کہ حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” مہمان کو ناپسند نہ کرو، جو شخص مہمان کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس شخص کو ناپسند فرماتا ہے۔
حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ابو ارفع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک مہمان آیا تو حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک یہودی کے پاس اپنی زرہ رکھ کر اسکی ضیافت فرمائی۔
حضرت امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ” مہمان کی دعوت سے شہرت اور فخر کا ارادہ نہ کرے بلکہ مہمان کو خوش کرنے اور حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اپنانے کا فیصلہ کرے۔
امام عبدالوہاب شعرانی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ” جب کوئی مہمان آئے تو اس کی ضیافت کیوقت تمہارے دل میں یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ وہ تمہیں اس دعوت کے عوض کوئی چیز دیگا، تم اس سے کوئی دنیوی مطلب حاصل کرو گے۔ ورنہ اس دعوت سے اخلاص کی دولت نصیب نہ ہو گی اور نہ ہی سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنت حاصل ہو گی۔ اصل طریقہ یہ ہے کہ مہمان کیساتھ کھانا کھانا چاہیے۔
امام ابو حامد بن غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ” اگر ایک دو دن بعد مہمان رخصت ہونے کا ارادہ ظاہر کرے تو میزبان کو چاہیے کہ مہمان کو تنہا کھانا کھانے کا موقع دے۔ ممکن ہے میزبان کا ساتھ کھانا اسکی وجہ سے گراں گزرتا ہو۔
امام شعرانی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں کہ سیدی علی خواص رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اسوقت تک کامل مومن نہیں ہوتا جبتک کہ وہ اپنے پس آنیوالے ہر مہمان کی تعظیم و تکریم نہ کرے اور یہ خیال کرے کہ یہ لوگ اسکے پاس اللہ تعالیٰ نے بھیجے ہیں۔ انکے آنے پر خوش ہو اور سنت نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق ان سے حسن سلوک کرے اور انکی خاطر تواضح مقدور بھر کرے۔
ایک حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے کہ مومن کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف دے۔
ایک روایت میں ہے کہ حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” واللہ! وہ مومن نہیں جسکا پڑوسی انکی اذیتوں سے بے خوف نہ ہو۔”
ان احادیث میں کو ایمان کی نفی کی گئی ہے اس سے کمال ایمان کی نفی ہے کیونکہ ایذا معصیت ہے اور معصیت سے ایمان کامل نہیں رہتا۔
نفس ایمان کی نفی مراد نہیں ہے۔ ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” جبرائیل علیہ السلام ہمیشہ مجھے ہمسایہ کے متعلق نصیحت کرتے رہتے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ شاید ہمسایہ کو وارث قرار دیدینگے۔ اس میں حقوق ہمسایہ کا مبالغہ سے بیان ہے کہ وہ ہمسایہ کو وارث کا قائم مقام کہیں گے نہ کہ حقیقتا وارث۔
عمدہ القادری شرح بخاری جلد 22 ص 108 میں ہے کہ لفظ ” جار ( ہمسایہ ) ”میں مسلمان، کافر، عابد، فاسق، دوست، دشمن، مسافر، شہری، دیہاتی، نفع دینے والا، نقصان دینے والا،اپنا، بیگانہ سب شامل ہیں۔
یعنی مذکورین میں سے جو بھی اسکا ہمسایہ ہو، اس پر لازم ہے کہ انکے حقوق کا لحاظ رکھے اور اسکیطرف قول و عمل کیساتھ کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
حضرت امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” کہ پڑوسی کے حقوق میں سے یہ ہے کہ اسکو ابتدا سلام سے کرے اور اس سے زیادہ دیر تک گفتگو نہ کرے۔ اسکے خانگی معملات کی تفتیش نہ کرے، بیماری میں عیادت کرے، مصیبت میں اظہار ہمدردی، موت میں اسکی تعزیت کرے اور تجہیز وتکفین میں شریک ہو۔
خوشی کے موقع پر اسکو مبارکباد دے اور اسکی خوشیوں میں شریک ہو، اسکے عیوب معلوم کرنے کی کوشش نہ کرے، اسکے گھر میں نظر نہ ڈالے، اسکی غیر موجودگی میں اسکے گھر والوں کا خیال رکھے اور اسکی خواتین سے گفتگو کرنی پڑے تو نظر نیچی رکھے، اسکے بچوں سے پیار کرے اور دین و دنیا کی بھلائی سے متعلق جو باتیں اسکے بچے نہ جانتے ہوں، انکو بتلائے۔
حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” اگر پڑوسی مدد طلب کرے تو اسکی مدد کرو، اگر قرض مانگے تو قرض دو، فقر و مرض میں اسکی عیادت کرو، مر جائے تو جنازے میں شریک ہو، خوشی کے موقع پر مبارکباد دو، اسکی اجازت کے بغیر اسکے مکان کے سامنے اتنا اونچا مکان نہ بناؤ جس سے اسکی ہوا رک جائے یا بے پردگی ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا” جب تم سالن پکاؤ تو شوربہ زیادہ کر دیا کرو تاکہ بوقت ضرورت پڑوسی کو دے سکو۔
نیز حضرت امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ پڑوسی تین قسم کے ہیں۔ اول:َ وہ جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی اسکا حق سب سے زیادہ ہے۔
دوسری قسم: عام پڑوسی، اسکا حق دوسرے درجے کا ہے اور اسکی تفصیل میں تمام احکام اسی متعلق ہیں۔
اور تیسری قسم کے پڑوسی غیر مسلم، جو احکام مسلمانوں کیساتھ خاص نہیں ہیں ان تمام احکام اور حقوق کا غیر مسلم پڑوسی بھی حقدار ہے۔ ( عمدہ القادری جلد 22 ص 108)
amar bil maroof
تیسری چیز جسکا بیان اس حدیث میں ہے ، وہ یہ ہے کہ یا تو کلام خیر کرے یا خاموشی اختیار کرے۔
کلام خیر میں ہے کہ کسی کو امر بالمعروف کرنا اور نہی عن المنکر کرنا، وعظ و نصیحت کرنا، جب کسی کو خلاف شرع کام کرتے دیکھے تو اسک احسن انداز سے منع کرنا، اسکو پیار سے سمجھانا۔
جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ” یعنی جو خلاف شرع کام دیکھے اول ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے۔ اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے منع کرے اور اگر یہ بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے برا جانے۔ یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ” بات کرنی ہے تو وہ کرے جس میں اسکا اخروی بھلا ہو ورنہ اسکیلئے خاموشی بہتر ہے۔
آجکل ہم وقت گزارنے کیلئے ہنسی، مزاح اور ٹھٹھا کرتے رہتے ہیں ۔ اپنے نفس کو بہلانے کا نام ” دل لگی ” کہتے ہیں۔
حالانکہ قرآن حکیم میں ہے۔ ترجمہ: کوئی قوم کسی قوم سے ٹھٹھا نہ کرے، ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ اسی طرح نہ عورتیں عورتوں کیساتھ ٹھٹھا کریں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اسی طرح لامعنی اور بیہودہ لغو اور بے فائدہ کلام سے خاموشی بہتر ہے۔
keep quiet
جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: ” یعنی اسلام کی خوبی میں سے ہے لایعنی گفتگو کو چھوڑ دینا۔
ایک دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے ” جو خاموش ہوا وہ نجات پا گیا۔
حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں” دل زیادہ بولنے سے مردہ ہو جاتا ہے، چاہے اسکا کلام عدن کے موتی ہوں، اللہ تعالیٰ ہمیں ان اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین