پاکستان کے صوبے سندھ کے شہر لاڑکانہ اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کی دھرتی اور حضرت عثمان مروند المروف لعل شہباز قلندر کے مزار شریف سے کچھ ہی کلو میٹر دور موہن جو داڑو (Mound of the Dead)آج بھی اپنی پُر آشوب اور یادگاری کا قصہ سنانے کیلئے موجود ہے۔ اس کی کہانی بہت ہی دلچسپ اور آپ کو حیرت زدہ کرنے کیلئے کافی ہے۔ زمانۂ طالب علمی میں اُس جگہ کا کئی بار نظارہ دیکھنے کو ملا اور ہر باراس جگہ کی visitنے دل و دماغ کے بند دریچے کھولے اور نظر کو حیران کر دیا۔ چونکہ مجھے لکھنے لکھانے کا شوق بھی زمانۂ طالب علمی سے ہی پروان چڑھ رہا تھا اس لئے آج اپنی کوششوں کو یکجا کرکے اس شہرِ پُر شکوہ کے بارے میں کچھ لکھنے اور کچھ اپنے لکھاری ہونے کے ناتے اس جگہ کو لفظوں میں پِرونے کی کوشش کرنے کی سعی کرنے جا رہا ہوں۔
سندھ کی تہذیب تقریباََ پانچ ہزار سال قدیم ہے۔اس تہذیب میں دو خوبصورت شہر بہت مشہور ہیں، ایک تو ہڑپّہ اوردوسرا موہن جو ڈارو،جس کے بارے میں آج میرے قلم نے اپنے آپ کو صفحہ قرطاس کی زینت بنانے کیلئے اُکسایا۔موہن جو ڈارو کے معنی کو یوں کہا جا سکتا ہے کہ: ”موہن کا گھر ” یا ”مردہ لوگوں کی آبادی ” اس کی قدامت کا اندازہ٢٦٠٠ قبل مسیح لگایا گیا ہے’اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے مکانات پکی ہوئی لال اینٹوں کی خوبصورت خد و خال کے ذریعے سے بنائے گئے ہیں۔
یہ شہر تقریباََ پانچ لاکھ کیلو میٹر پر محیت ہے’اوّل الذکر یہ کسانوں کا شہر تھاجس نے بعد میں تجارتی،سیاسی اور مذہبی صورت اختیار کرلی،عام لوگوں کے لئے حمام’بڑے ہال’بڑے ٹاورز’اور فصیلیں تعمیر کی گئیں۔ پکّے کنویں ‘پکّی اینٹوں کی سڑکیں اور چورس شاہراہوں سے یہ اندازہ لگانا بہت آسان ہو جاتا ہے کہ کبھی یہ ایک ترقی یافتہ شہر تھا’ اور اس کے لوگ بڑے امن پسند تھے کیونکہ اس پورے شہر کی کھدائی میں کسی قسم کی ہتھیار بر آمد نہیں ہوئے۔اس شہر کی دریافت 1922 عیسویں میں ہوئی’کہا جاتا ہے کہ اس شہرکو ” راکھل داس باند یو پدھائے” اور ڈاکٹر جی،ایف ڈیلزنے دریافت کیا۔اس شہر کی آبادی کا اندازہ 35000 نفوس سے زیادہ کا لگایاگیاتھا۔اس کے آثار میں زیادہ تر مٹی کے برتن اور تانبے کے زیورات کا ذخیرہ برآمد ہوا تھا’ ایک بادشاہ کا مجسمہ’ایک رقّاصہ کا دھاتی مجسمہ اور بہت سے منکوں کے ہار بھی برآمدشدہ سامان میں شامل تھے۔
وہاں کے مقبروں کی موجودگی اور ان کی بناوٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے لوگوں کو مصریوں کے بڑے لوگوں سے بھی زیادہ عزت سے دفن کیا جاتا تھا۔پتھروں پر جو زبان لکھی ہوئی پائی گئی ہے ‘خیال ہے کہ وہ کوئی بولی جانے والی زبان نہیں تھی بلکہ اشاروں اور تشبیہات کے ذریعہ ہی تمام باتوں کا اظہار کیا گیا ہے یعنی یہ حروف نہیں ہیں بلکہ صرف سِنبل(Symbols) ہیں۔اس شہر کی کھدائی ١٩٢٢ عیسویں میں شروع ہوئی لیکن زیادہ تر کھدائی ٦٥۔١٩٦٤ عیسویں میں ہوئی تھی۔موہنجو داڑو١٩٠٠سال قبلِ مسیح میں تباہ و برباد ہو گیا تھا’ایسا کیوں ہوا ‘اس پر تاریخ خاموش تماشائی ہے’خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ شاید بیرونی حملہ آوروں کی وجہ سے’یا پھرکسی قدرتی تباہی سے یا دریا کے رُخ بدل جانے سے یہاں کی آبادی نے کسی اور شہر کی طرف ہجرت کرلی ہوگی۔
Mohenjo daro Sindh pakistan
آج بھی اس کی تاریخی حیثیت برقرار ہے اور دنیا بھر سے لوگ جب بھی صوبہ سندھ کی سیر و تفریح کے لئے آتے ہیں تو خاص طور پر اس شہر کا رُخ کرتے ہیں کیونکہ یہ شہر اپنی جدّت کی وجہ سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے کہ آئو مجھے دیکھو میں بھی تاریخ کا پُر شکوہ واقعہ ہوں۔موہن جو داڑو کے میوزیم میں آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے چالیس شو کیس پہلی منزل پر لگایا گیا ہے جس میں موہن جو داڑو سے متعلق نوادرات اور تصویریں مختلف طریقوں سے شائقین کے دید کیلئے رکھے گئے ہیں جس سے لوگ اس شہر کی حیثیت کا پتہ چلا سکتے ہیں کہ یہ کتنا پرانا اور قدیم ہے’ اور اس کی رُوداد کیا ہے تاکہ ہمارے آج کی نسل کو بھی اس سلسلے میں معلومات ہو سکے۔اس شہر میں ایک قابلِ ذکر ایئر پورٹ بھی موجود ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ ائیر پورٹ کا کوڈ (MJD)ہے ۔ یہاں کارَن وے چھ ہزار پانچ سو بارہ فِٹ طویل ہے ‘Elevationایک سو سرسٹھ فٹ ہے’ یہاں کا موسم قدرے گرم رہتا ہے۔جب یہ تحریر کاغذ کے صفحات میں لکھا جا رہا ہے تو اس وقت بھی یہاں کا درجہ حرارت 420ہے۔تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی