موہن داس کرمچند گاندھی (گجراتی:؛ 2 اکتوبر 1869 تا 30 جنوری 1948) بھارت کے سیاسی اور روحانی رہنماء اور آزادی کی تحریک کے اہم ترین کردار تھے۔ انہوں نے ستیہ گرہ کو اپنا ہتیار بنایا۔ ستیہ گرہ، ظلم کے خلاف عوامی سطح پر منظم سول نافرمانی ہے جو عدم تشدد پر مبنی ہے۔ یہ طریقئہ کار ہنددستان کی آزاد کی وجہ بنی۔ اور ساری دنیا کے لئے حقوق انسانی، اور آزادی کے تحاریک کےلئے روح رواں ثابت ہوئ۔ بھارت میں انھیں احترام سے مہاتما گاندھی اور باپو جی کہا جاتا ہے۔ انہیں بھارت سرکار کی طرف سے بابائے قوم(راشٹر پتا) کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ گاندھی کی یوم پیدائش (گاندھی جینتی) بھارت میں قومی تعطیل کا درجہ رکھتا ہے ور دنیا بھر میں یوم عدم تشدد کی طور پر منایا جاتا ہے۔ 30 جنوری 1948 کو ایک ہندو قوم پرست ناتھو رام گوڈسے نے انکا قتل کر دیا۔ جنوبی افریقہ میں وکالت کے دوران، رہائشی ہندوستانی فرقہ کے شہری حقوق کی جدوجہد کے لئے سول نافرمانی کا استعمال پہلی بار کیا۔ 1915ء میں ہندوستان واپسی کے بعد، انہنوں نے کسانوں اور شہری مزدوردں کے ساتھ بےتحاشہ زمین کی چنگی اور تعصب کے خلاف احتجاج کی۔ 1921ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت سنبھالنے کے بعد، گاندھی ملک سے غربت کم کرنے ، خواتین کے حقوق کو بڑھانے ، مذہبی اور نسلی خیرسگالی، چھواچھوت کے خاتمہ اور معاشی خود انحصاری کا درس بڑھانے کی مہم کی قیادت کی. انہوں نے سوراج یا غیر ملکی تسلّط سے بھارت کی آزادی حاصل کرنے کا عظم کیا۔ گاندھی نے مشہور عدم تعاون تحریک کی قیادت کی۔ جو کہ 1930ء میں مارچ سے برطانوی حکومت کی طرف سے عائد نمک چنگی کی مخالفت میں 400 کلومیٹر (240 میل) لمبی دانڈی نمک احتجاج سے شروع ہوئ۔ اس کے بعد ، 1942 میں ، انہوں نے بھارت چھوڑو سول نافرمانی تحریک کا آغاز فوری طور پر آزادی کا مطالبہ کے ساتھ کیا. گاندھی دونوں جگہ جنوبی افریقہ اور بھارت میں کئی سال جیل میں گزارے. عدم تشدد کے پیشوا طور پر ، گاندھی سچ بولنے کی قسم کھائی تھی اور دوسروں سے ایسا ہی کرنے کی وکالت کی. وہ سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ سابرمتی آشرم میں رہتے، کپڑے کی طور پر روایتی ہندوستانی دھوتی اور شال کا استعمال کرتے، جو وہ خود سے چرخے پر بنتے۔ وہ سادہ اور سبز کھانا کھاتے، وہ روحانی پاکیزگی اور سماجی احتجاج کے لئے لمبے اپواس(روزہ) رکھتے۔
ابتدائ زندگی اور پس منظر گاندھی گجرات، بھارت کے ساحلی شہر پوربندر (جو اس وقت بمبئ پریسیڈینسی, برطانوی ہندوستان کی حصّہ تھا) میں دو اکتوبر 1869 میں پیدا ہوۓ۔ انکے والد کرمچند گاندھی(1822-1885) ہندو مودھ فرقہ سے تھے اور ریاست پوربندر کے دیوان تھے۔ انکی ماں کا نام پتلی بائ تھا جو ہندو پرنامی ویشنو فرقہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ کرمچند کی چوتھی بیوی تھی۔ غالبا پہلی تین بیویوں کا فوت زچگی کے دوران ہوگیا۔ ان کے والد کرمچند گاندھی ہندو مودھ برادری سے تعلق رکھتے تھے اور انگریزوں کے زیر تسلط والے بھارت کے امییواڑ ایجنسی میں ایک چھوٹی سی ریاست پوربندر صوبے کے دیوان یعنی وزیر اعظم تھے.[1] انکے دادا کا نام اتّمچند گاندھی تھا جو اتّا گاندھی سے بھی مشہور تھے۔ پرنامی ویشنو ہندو برادری کی ان کی ماں پتلی بائ کرمچند کی چوتھی بیوی تھی ، ان کی پہلی تین بیویاں زچگی کے وقت مر گئی تھیں.[2] عقیدت کرنے والی ماں کی دیکھ بھال اور اس علاقے کی جین بردری کی وجہ سے نوجوان موہن داس پر ابتدائی اثرات جلد ہی پڑ گئے جو ان کی زندگی میں اہم کردار ادا کرنے والے تھے. ان اثرات میں کمزوروں میں جوش کا جذبہ ، سبزی خوری زندگی ، روح کی پاکیزگی کے لئے بپوبس اور مختلف ذاتوں کے لوگوں کے درمیان رواداری شامل تھیں. مئی 1883 میں جب وہ 13 سال کے تھے تب ان کا شادی 14 سال کی کستوربا ماکھنجی سے کر دیا گیا جن کا پہلا نام چھوٹا کرکے کستوربا تھا اور اسے لوگ پیار سے با کہتے تھے. یہ شادی ایک منظم بال شادی تھا جو اس وقت اس علاقے میں عام لیکن ، اس علاقے میں وہاں یہی ریتي تھی کہ نابالغ دلہن کو اپنے ماں باّپ کے گھر اور اپنے شوہر سے الگ زیادہ وقت تک رہنا پڑتا تھا.1885 میں ، جب گاندھی جی 15 سال کے تھے تب ان کی پہلی اولاد کی پیدائش ہوئی لیکن وہ صرف کچھ دن ہی زندہ رہیں اور اسی سال کے شروعات میں گاندھی جی کے والد کرمچند گاھن بھی چل بسے. موہن داس اور کستوربا کے چار اولاد ہوئیں جو تمام بیٹے تھے – ہری لال 1888 میں، منی لال 1892 میں، رام داس ، 1897 میں، اور دیوداس 1900 میں پیدا ہوۓ۔ پوربندرمیں ان کے مڈل اسکول اور راجکوٹ میں ان کے ہائی اسکول دونوں میں ہی تعلیمی سطح پر گاندھی جی ایک اوسط طالب علم رہے. انہوں نے اپنی مٹرک کا امتحان بداؤنگر گجرات کے سملداس کالج سے کچھ پریشانیوں کے ساتھ پاس کی اور جب تک وہ وہاں رہے ناخوش ہی رہے کیونکہ ان کا خاندان انہیں برسٹر بنانا چاہتا تھا۔
4 ستمبر 1888ء کو اپنی شادی کی 19ویں سالگرہ سے کچھ ماہ قبل، گاندھی جی قانون کی پڑھائی کرنے اور برسٹر بننے کے لئے لندن، برطانیہ کے یونیورسٹی کالج آف لندن گۓ۔ شاہی دارالحکومت لندن میں انکے اوقات، اپنی ماں سے جین بھکشو کے سامنے بھارت چھوڑتے وقت کۓ وعدے، ہندوؤں کی تہذیب کے تحت گوشت ، شراب اور تنگ نظریہ سے پرہیز کرتے گزرا۔ حالانکہ گاندھی جی نے انگریزی ریتي رواج کا تجربہ بھی کیا جیسے مثال کے طور پر- رقص کی کلاس میں جانا- پھر بھی وہ اپنی مکان مالکن سے گوشت اور پتہ گوبھی کو ہضم نہیں کر سکے. اور وہ بھوکا رہنا پسند کیا جب تک لندن میں کچھ خالص سبزی ریستراں نہیں ملے۔ سالٹ سے متاثر ہو کر، انہوں نے سبزخور سماج کی رکنیت اختیار کی۔ اور اس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے لئے انکا انتخاب بھی ہو گیا جہاں انہوں نے ایک مقامی باب کی بنیاد رکھی۔ وہ جن سبزخور لوگوں سے ملے ان میں سے کچھ تھیوسوفکل سوسائٹی کے رکن تھے جس کا قیام 1875ء میں عالمی بھائ چارگی کو مضبوط کرنے کے لئے اور بودھ مت اور ہندو مت کی ادب کے مطالعہ کے لئے وقف کیا گیا تھا. انھوں نے گاندھی کو انکے ساتھ بھگوت گیتا اصل اور ترجمہ دونوں میں پڑھنے کے لئے متاثر کیا۔ جس گاندھی کو پہلے مذاہب میں خاص دلچسپی نہیں تھی، وہ مذہب میں دلچسپی لینے لگے اور ہندو مذہب ، عیسائی مذہب دونوں کے کتابوں کو پڑھنے لگے۔ 10 جون 1810ء میں انکو انگلینڈ اور ویلز بار بلایا گیا۔ اور 12 جون 1892 کو لندن سے، بھارت لوٹ آئے۔ جہاں انہیں اپنی والدہ کی موت کا علم ہوا۔ لیکن ممبئی میں وکالت کرنے میں انہیں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی. بعد میں ایک ہائی اسکول استد کے طور پر جزوقتی کام کے لئے رد کر دئے جانے پر انہوں نے دعوں کے لئے مقدمے لکھنے کے لئے راجکوٹ کو ہی اپنا مقام بنا لیا لیکن ایک انگریز افسر کی حماقت کی وجہ سے اسے یہ کاروبار بھی چھوڑنا پڑا. اپنی آپ بیتی میں ، انہوں نے اس واقعہ کو بیان انہوں نے اپنے بڑے بھائی کی طرف سے پیروی کی ناکام کوشش کے طور پر کیا ہے. یہی وہ وجہ تھی جس وجہ سے انہوں نے 1893ء میں ایک بھارتی فرم دادا عبد اللہ اینڈ کمپنی کی یک سالہ قرار پر نیٹال، جنوبی افریقہ جو اس وقت انگریزی سلطنت کا حصہ ہوتا تھا، جانا قبول لیا تھا.
جنوبی افریقہ میں شہری حقوق تحریک (1893 تا 1914) جنوبی افریقہ میں گاندھی کو ہندوستانیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا. شروع میں اسے پہلی درجہ کوچ کی درست ٹکٹ ہونے کے بعد تیسری درجہ کے ڈبے میں جانے سے انکار کرنے کے لئے پیٹرمارتسبرگ میں ٹرین سے باہر گرایا جا چکا ہے تھا. پائےدان پر باقی سفر کرتے ہوئے ایک یورپی مسافر کے اندر آنے کے لئے اسے ڈرائیور سے پٹائی بھی جیلنی پڑی تھی. انہوں نے اپنی اس سفر میں دیگر دشواریوں کا سامنا کیا جس میں کئی ہوٹلوں میں ان کے لئے پابندی لگا دیا گیا. اسی طرح کی ایک اور واقعہ میں ڈربن کی ایک عدالت کے جج نے گاندھی جی کو اپنی پگڑی اتارنے کے لئے حکم دیا تھا جسے گاندھی جی نے نہیں مانا. یہ ساری واقعات گاندھی جی کی زندگی میں ایک اہم موڑ بن گئی اور سماجی نا انصافی کے فی بیداری کا سبب بنا اور سماجی سرگرمی کے لۓ متاثر کیا۔ جنوبی افریقہ میں پہلی نظر میں ہی ہندوستانیوں پر اور نا انصافی، نسل پرستی اور تعصب کو دیکھتے ہوئے گاندھی نے برطانوی سلطنت کے تحت اپنے لوگوں کے احترام اور ملک میں خود اپنی حالت کے لیے سوال اٹھا دئے۔ گاندھی اپنے جنوبی افریقہ میں رہنے کی اصل مدت کو بھارتیوں کی ایک بل کی مخالفت کر ان کو ووٹ دینے کا حق دلانے میں مدد کرنے کے لۓ توسیع کر دی۔ . حالانہ کہ بل کو منظوری سے روکنے میں ناکام رہے۔ تاہم، اس مہم سے بھارتیوں کی شکایات پر جنوبی افریقہ کی توجہ اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہے تھے. انہوں نے 1894ء میں نیٹال انڈین کانگریس قائم کرنے میں مدد کی اور اس کی تنظیم کے ذریعہ سے، انہوں نے جنوبی افریقہ کے بھارتی کمیونٹی کو ایک متحدہ سیاسی طاقت تبدیل کر دیا. جنوری 1897ء میں جب گاندھی ڈربن میں اترے تو سفید آبادکاروں کے ایک ہجوم نے ان پر حملہ کر دیا تھا اور صرف پولیس سپرنٹنڈنٹ کی بیوی کی کوششوں سے بچ گئے. تاہم ، انہوں نے بھیڑ کے کسی بھی رکن کے خلاف الزامات عائد کرنے سے انکار کیا اور کہا وہ ان کے اصولوں میں سے ایک تھی کہ ذاتی مسئلہ کے ازالے کے لئے عدالت میں نہیں جائيں گے۔ 1906ء میں ٹرانسوال حکومت نے ایک نیا قانون نافذ کر کہ کالونی میں بھارتی آبادی کو رجسٹریشن کے لۓ مجبور کیا. اس سال جوہانسبرگ میں ایک بڑے پیمانے پر احتجاج 11 ستمبر کو منعقد ہوا۔ اجلاس میں گاندھی نے پہلی بار ستیاگرہ (حق کی بارگاہ)، یا عدم تشدد پر مبنی احتجاج کا طریقہ اختیار کی، اور اپنے ساتھی بھارتیوں کو بجائے تشدد کے ذریعے کی مخالفت کے اسی طریقے سے نئے قانون پر عمل نہ کرنے اور سزا بردشت کرنے کہا۔ کمیونٹی نے اس منصوبے کو اپنایا جو سات سال کی جدوجہد ہے جس میں گاندھی سمیت ہزاروں بھارتی جیل میں ڈال دیۓ گۓ ، کوڑے برساۓ گۓ، حتّہ کہ گولی مار دیۓ گۓ۔ انہوں نے رجسٹر سے انکار کیا، اپنی رجسٹریشن کارڈ جلاۓ یا دوسری قسم کی غیر تشدد مزاحمت میں شامل ہوۓ۔ جبکہ حکومت بھارتی مظاہرین کو دبانے میں کامیاب رہا، مگر پرامن بھارتی مظاہرین پر سرکار کی ذیادتی کے خلاف عوام کو سخت دباؤ کا سامنا کرتے بالآخر مجبورا جنوبی افریقہ کے جنرل جان کرسٹین اسمٹس نے جنوبی افریقہ کی حکومت کی طرف سے گاندھی کے ساتھ بات کر معاہدہ کیا. گاندھی کی نظریات اور ستیاگرہ کا تصور اس جدوجہد کے دوران واضح ہوا۔ نسل پرستی اور تنازع گاندھی کے جنوبی افریقہ کی ابتدائی بعض مقالے متنازعہ ہیں. 7 مارچ 1908ء کو انڈین اوپنین میں گاندھی نے جنوبی افریقہ کے جیل میں گزارے وقت کے بارے لکھا: “کافر اصولی طور پر بےادب ہیں-وہ سب سے زیادہ مجرم ہیں۔ وہ شرپسند ، بہت ہی گندی ہیں اور تقریبا جانوروں کی طرح رہتے ہیں.” 1903ء میں ہجرت کے موضوع پر گاندھی نے تبصرہ کیا :”ہم پاکیزگی نسل میں زیادہ سے زیادہ یقین کے طور پر ہم سوچتے ہیں وہ کرتے ہیں… ہم یہ بھی یقین ہے کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام نسل غالب ہونی چاہئے۔” جنوبی افریقہ قیام دوران گاندھی بھارتیوں کی دوجہ بندی سیاہ فام کے ساتھ کرنے کا بارہاں احتجاج کیا۔ جسے وہ “بلاشبہ لامتناہی درجہ کافر سے بہتر” بتایا. اسی قسم کے تبصرے گاندھی پر نسل پرستی کے الزام کے لۓ ذمہ دار بنے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ لفظ کافر ان دنوں میں مختلف معنی میں لیا جا تا تھا۔ تاہم تاریخ کے دو پروفیسر سریندر بھانا، اور غلام واحد ، جو جنوبی افریقہ میں مہارت رکھتے ہیں، نے اپنی عبارت، دی میکنگ آف پالٹیکل ریفارمر: گاندھی ان ساؤتھ افریقہ، 1893 تا 1914 (نئ دہلی: منوہر: 2005) میں اس تنازعہ کی پڑتال کی۔ انہوں نے باب 1- “گاندھی، افریقی اور بھارتی نوآبادیات نیٹال میں” میں “سفید فام راج” کے ماتحت افریقی اور ہندوستانی برادریوں کے درمیان تعلقات اور وہ پالیسیاں جو ان فرقوں کے درمیان تنازعہ کی وجہ بنی کا ذکر کی ہے۔ وہ اس رشتہ حال پر کہتے ہیں “نوجوان گاندھی 1890 کے عشرے میں ان اختلاف پسندوں کے تصورات سے بہت متاثر تھے”. ساتھ ہی انکا کہنا ہے کہ، “ایسا لگتا ہےکہ، جیل میں گاندھی کے تجربات نے ان کو اس حال کے لۓ زیادہ حساس بنا دیا تھا… بعد میں گاندھی نرم پڑے، وہ افریقیوں کے خلاف تعصب ان کے اظہار میں کمی آئ، اور وہ زیادہ تر مشترکہ مددوں پر دھیان دینے لگے۔ جوہانسبرگ جیل میں ان کے منفی خیالات عام افریقہ نہیں بلکہ سخت افریقی قیدیوں کے لیے مخصوص تھے۔ تاہم جب جوہانسبرگ میں گاندھی کی ایک مورتی کو بے نقاب منصوبوں کا اعلان کیا گیا تھا ، ایک ناکام تحریک گاندھی کی “نسل پرستی پر مبنی” بیانات کو وجہ بنا کر اسے روکنے کی کوشش کی. بوئر جنگ میں کردار برطانوی سامراج نے جب جنوبی افریقہ میں مقامی بوئر باشندوں پر جنگ مسلط کی تو مہاتما گاندھی نے استعماری فوجوں کو ہندوستانیوں کی بھرتی کا یقین ان الفاظ میں دلایا[3] اس حقیر پیشکش کا مقصد یہ بارآور کرانے کی کوشش ہے، کہ جنوبی افریقہ کی ملکہ کے دوسرے رعایا کے دوش بدوش، انڈین بھی، اپنی بادشاہت کی میدان جنگ میں خدمت بجا لانے کے لیے تیار ہیں۔ اس پیشکش کا مقصد انڈین کی وفاداری کا بیعانہ ہے۔ —گاندھی 1906ء کے زولو جنگ میں کردار 1906ء میں ، زولو جنوبی افریقہ میں نئے انتخابی چنگی کے لاگو کرنے کے بعد دو انگریز افسروں کو مار ڈالا گیا. بدلے میں انگریزوں نے زولو کے خلاف جنگ چھیڑ دیا. گاندھی جی نے ہندوستانیوں کو بھرتی کرنے کے لئے برطانوی حکام کی حوصلہ افزائی کی. ان کا کہنا تھا اپنی شہریت کے دعوؤں کو قانونی جامہ پہنانے کے لئے بھارتیوں کو جنگی کوششوں میں تعاون کرنا چاہئے. تاہم ، انگریزوں نے اپنی فوج میں ہندوستانیوں کو عہدے دینے سے انکار کر دیا تھا. اس کے باوجود انہوں گاندھی جی کی اس تجویز کو مان لیا کہ ہندوستانی زخمی انگریز فوجیوں کو علاج کے لئے سٹیچر پر لانے اور علاج کا کام کر سکتے ہیں۔ اس ٹکری کی باگ ڈور گاندھی نے تھامی۔ 21 جولائی 1906ء کو گاندھی نے انڈین اوپنین (Indian Opinion)میں لکھا کہ “نیٹال حکومت کے کہنے پر، مقامی لوگوں کے خلاف جنگ کے لۓ 23 بھارتی باشندوں کی ایک کور کا قیام تجرباتی طور پر کیا گیا ہے.گاندھی انڈین اوپینین کے مقالوں کے ذریعہ جنوبی افریقہ میں بھارتی لوگوں سے اس جنگ میں شامل ہونے کے لئے درخواست کی اور کہا ، “اگر حکومت صرف یہی محسوس کرتی ہے کہ ریزرو فورس بیکار ہو رہے ہیں تو اس وقت وہ اس کا استعمال کریں گے اور اصل لڑائی کے لئے بھارتیوں کا ٹریننگ دے کر اس کا موقع دیں گے”. گاندھی کی رائے میں ، 1906ء کا ڈرافٹ آرڈیننس ہندوستانیوں کی حالت مقامی شہری سے نیچے لانے جیسا تھا. اس لئے انہوں نے ستیہ گرہ کی ترز پر کافروں کی مثال دیتے ہوئے ہندوستانیوں سے آرڈیننس کی مخالفت کرنے کا مطالبہ کیا. ان کے الفاظ میں ، “یہاں تک کہ نصف برادری اور کافر ہم سے کم جدید ہیں، انہوں نے بھی حکومت کی مخالفت کی ہے. پاس اصول ان پر بھی لاگو ہوتا ہے لیکن وہ پاس نہیں دکھاتے ہیں۔ 1927ء میں گاندھی نے اس واقعہ کا ذکر یوں کیا: “بوئر جنگ نے مجھے اتنا نہیں ڈرایا،جیسا کہ زولو’ بغاوت ‘نے ڈرایا۔ کیوں کہ یہ کوئی جنگ نہیں تھا بلکہ یہ انسان کا شکار تھا، ایسا صرف میرے ہی نہیں بلکہ کئی انگریز جن سے گفتگو کا موقع ملا، کی رائے بھی ایسی ہی تھی” . بھارت کا یوم آزادی کے لئے جدوجہد (1915 تا 1945)
1915ء میں گاندھی جنوبی افریقہ سے واپس بھارت میں رہنے کے لئے آئے. وہ انڈین نیشنل کانگریس کے کنونشن میں بات کی تھی ، لیکن بنیادی طور پر بھارتی مسائل، سیاست اور عوام سے تعارف گوپال کرشن گوھلے، تب کہ کانگریس پارٹی کے قابل احترام قائد، نے کرائ۔ پہلی عالمی جنگ میں رول اپریل 1918ء میں، پہلی عالمی جنگ کے اخیر جصّہ کے دورن، وایسراۓ نے دہلی میں جنگ کی کانفرنس میں گاندھی کو مدعو کیا۔ شاید سلطنت کے لئے اپنی حمایت ظاہر کریں اور بھارت کی آزادی کے لئے ان کے معاملے میں مدد کیا جاۓ۔ گاندھی جنگ کی کوششوں کے لئے فعال طور پر بھارتیوں کی بھرتی سے اتفاق کیا۔ 1906ء کے زولو جنگ اور 1914ء کے عالمی جنگ کے برعکس جب انہوں نے ایمبولینس کور کے لۓ رضاکار بھرتی کۓ تھے، اس وقت گاندھی جنگجو رضاکاروں کی بھرتی کی کوشش کی۔ ایک جون 1918ء کے ایک کتابچہ”بھرتی کے لیے اپیل” میں گاندھی نے لکھا “اس طرح کے حالات میں ہمیں اپنے آپ کا دفاع کرنے کی صلاحیت ہونی چاہۓ جو ہتھیار اٹھانے اور انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت ہے… اور اگر ہم ہتھیار کا استعمال کرنا سیکھنا چاہتے ہیں تو فوج میں شامل ہونا ہمارا فرض ہے۔ حالانہ کے انہوں نے وائسراۓ کے ذاتی سکریٹری کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ وہ “ذاتی طور پر کسی کا قتل یا زخمی نہیں کرسکتے خواہ وہ دوست ہو یا دشمن”۔ گاندھی کی جنگی بھرتی مہم انکے عدم تشدد کے استقامت پر سوالیہ نشان لگاتا ہے جیسا کہ انکے اپنے دوست کو چارلی اینڈریوز نے قبولا، ” ذاتی طور پر میں اس انکے اس طرز عمل کو سمجھ نہیں پایا۔ اور یہ ایک ایسا نقاط جہاں میں خود کو دردناک اختلاف میں پاتا ہوں”۔ گاندھی کے ذاتی سیکرٹری نے بھی تسلیم کیا کہ ” “عدم تشدد اور ان کی بھرتی کی مہم کا سوال تب ہی بلکہ ہمیشہ موضوع بحث ہے”۔
چمپارن اور کھیڑا گاندھی کی پہلی بڑی کامیابی 1918ء میں چمپارن تحریک اور کھیڑا ستیہ گرہ میں ملی، کھیڑا میں اپنے گزر بسرکے لئے ضروری خوراکی فصلوں کی بجائے نیل اور نقدی فصلوں کی کھیتی کا معاملہ تھا. زمیںدارز (زیادہ تر انگریز) کی طاقت سے مظالم ہوئے ہندوستانیوں کو براۓ نام محنتانہ دیا جاتا تھا جس سے وہ انتہائی غربت میں رہ رہے تھے. گاؤں میں بری طرح گندی اور شراب خوری تھی۔ اب ایک تباہ کن قحط کی وجہ سے شاہی خزانے کی تلافی کے لیے انگریزوں نے چنگی لگا دیئے جن کا بوجھ دن روزانہ دن بہ دن بڑھتا ہی گیا. یہ صورتحال یرشکن تھی. کھیڑا، گجرات میں بھی یہی مسئلہ تھا. گاندھی جی نے وہاں ایک آشرم بنایا جہاں ان کے بہت سارے حامیوں اور نئے کارکنوں کو منظم کیا گیا. انہوں نے گاؤں کا ایک وسیع مطالعہ اور سروے کیا جس میں لوگوں پر ہوئے ظلم کے خوفناک کانڈوں کا ریکارڈ رکھا گیا اور اس میں لوگوں کی تنزیلی حالت کو بھی شامل کیا گیا تھا. دیہاتوں میں یقین پیدا کرتے ہوئے انہوں نے اپنا کام گاؤں کی صفائی کرنے سے شروع کیا جس کے تحت اسکول اور ہسپتال بنائے گئے اور سماجی برائیوں جیسے چھواچھوت، شراب خوری کو ختم کرنے کے لئے دیہی قیادت کی حوصلہ افزائی کی. لیکن اس کے اصل اثرات اس وقت دیکھنے کو ملے جب انہیں بدامنی پھیلانے کے لئے پولیس نے گرفتار کیا اور انہیں صوبے چھوڑنے کے لئے حکم دیا گیا. ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور جیل ، پولیس اسٹیشن اور عدالتوں کے باہر ریلیاں نکال کر گاندھی کو بغیر شرط رہا کرنے کا مطالبہ کیا. گاندھی نے زمیںدارز کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالوں کی قیادت کی جنہوں نے انگریزی حکومت کی رہنمائی میں اس خطے کے غریب کسانوں کو زیادہ معاوضہ منظور کرنے اور کھیتی پر کنٹرول ، قحط تک چنگی کو منسوخ کرنا والے ایک معاہدے پر دستخط کۓ. اس جدوجہد کے دوران ہی ، گاندھی جی کو عوام نے باپو اور مہاتما (عظیم روح) کے نام سے خطاب کیا. کھیڑا میں سردار پٹیل نے انگریزوں کے ساتھ گفتگو کے لئے کسانوں کی قیادت کی جس میں انگریزوں نے چنگی کو منسوخ کر تمام قیدیوں کو رہا کر دیا. اس کے نتیجے میں ، گاندھی کی شہرت پورے ملک میں پھیل گئی. اور وہ باباۓ قوم کہلاۓ۔ لندن سے وکالت کا امتحان پاس کیا۔ کچھ وقت جنوبی افریقہ میں گزارا اور وہیں سیاست میں آۓ۔ ہندوستان آکر انھوں نے انڈین نیشنل کانگرس کے پلیٹ فارم سے سیاسی اور سماجی بیداری کا آغاز کیا۔ آزادی کے لیۓ عدم تشدد انکا اہم ہتھیار تھا۔ آزادی کے بعد 30 جنوری 1948 کو انہیں نئی دہلی میں قتل کر دیا گیا۔
عدم تعاون گاندھی نے عدم تعاون، عدم تشدد اور پرامن مزاحمت کو برطانوی راج کے خلاف جدوجہد میں “ہتھیار” کے طور پر اپنایا. پنجاب کی جلیانوالہ باغ قتل عام(جسے امرتسر قتل عام سے بھی جانا جاتا ہے) کی وجہ سے عام شہریوں میں کافی غم و غصہ تھا، جس وجہ سے برطانوی فوجیوں کو عوام کے غصے اور تشددی کارروائیوں کا سامنہ کرنا پڑا. گاندھی نے دونوں برطانوی راج کے اقدامات اور بھارت کی جوابی تشدد پر تنقید کی. انہوں نے برطانوی شہریوں کے متاثرین کے لئے تعزیت کی پیشکش اور فسادات کی مذمت کی قرارداد لکھی ، جسے پارٹی میں ابتدائی مخالفت اور گاندھی کی اس اصول کی جذباتی وکالت کہ، تمام تشدد ہی برا ہیں اور ناقال قبول ہیں، کے بعد منظور کر لیا گیا۔ لیکن قتل عام اور اسکے بعد کی تشدد نے گاندھی کی توجہ مکمل خود حکومت اور تمام بھارتی حکومتی ادارے کا کنٹرول حاصل کرنے پر مرکوز کر دیا، جو جلد ہی سوراج یا مکمل ذاتی ، روحانی ، سیاسی آزادی میں بدل گئ .
دسمبر 1921ء میں انڈین نیشنل کانگریس نے گاندھی کو خصوصی اختیارات کے ساتھ پارٹی کا ذمہ سونپا. ان کی قیادت میں کانگریس کو ایک نۓ آئین اور سوراج کے مقاصد کے ساتھ دوبارہ سے منظم کیا گیا. پارٹی میں رکنیت کے ایک ٹوکن فیس ادا کرنے کے بعد کسی کے لئے کھول دیا گیا تھا. پارٹی کو مخصوص طبقے کی جماعت سے، منظم اور قومی اپیل میں تدیل کرنے کے لۓ کئ درجاتی ذیلی تناظیم قائم کۓ گۓ. گاندھی اپنی عدم تشدد لائحہ عمل میں سودیشی پالیسی(غیر ملکی مال کے بائیکاٹ کی ، خاص طور پر برطانوی کی اشیاء -) کو شامل کر اسے توسیع دی. اس سے منسلک انہوں نے ہر بھارتی کو انگریزی ٹکسٹائل کے بجاۓ کھادی(گھروں میں بنے کپڑے) کے استعمال کی وکالت کی۔ گاندھی بھارت کے مردوں اور عورتوں ، امیر ہو یا غریب کو آزادی کی تحریک کی حمایت میں ہر دن کھادی کی کتائی کے لۓ وقت خرچ کرنے کی نصیحت دی۔ گاندھی نے ایک چھوٹی سی چرخہ بنوائ جو ایک چھوٹی سی ٹائپ رائٹر کے سائز میں موڑا جا سکتا تھا. انہوں نے ایسا لوگوں میں نظم و ضبط، جذبہ، خوداعتمادی میں اضافہ اور منفی خیالات کو دور کرنے، اور عورتوں کو بھی اس تحریک میں شامل کرنے کے لۓ کیا جو کے وقت سوچ کہ، اس طرح کی سرگرمیوں میں عورتوں کے لئے عزت کا مقام نہیں ہے کو بدل دیا۔ برطانوی مصنوعات کے بائیکاٹ کے علاوہ ، گاندھی نے برطانوی تعلیمی اداروں اور قانونی عدالت کی بائیکاٹ پر بھی زور دیا کہ ، حکومت کی ملازمت سے استعفی دے دیں، اور برطانیہ کے القاب اور اعزازات چھوڑنے کے لئے کہا۔ عدم تعاون کو بڑے پیمانے پر اپیل اور کامیابی کا لطف اٹھایا ، بھارتی سماج کے تمام طبقات کی طرف سے حوصلہ افزائی ملی اور شرکت میں اضافہ ہوا. پھر جب تحریک اپنی فراز پر تھا ، اس چوری چورا، اتر پردیش کی ایک بستی میں فروری 1922 ء کے پر تشدد تصادم کے نتیجے میں اچانک ختم ہو گیا. اس ڈر سے کہ تحریک تشدد کی طرف موڑ نہ لے لے، اور سارے کرے کراۓ پر پانی نہ پھر جاۓ۔ گاندھی نے عوامی سول نافرمانی کی مہم کے خاتمے کا اعلان کیا۔ 10 مارچ 1922ء کو گاندھی کو گرفتار کیا گیا، بغاوت کے لئے کوشش کے الزام میں چھ سال قید کی سزا سنائی گئ. انہوں نے 18 مارچ 1922ء اس سزا کی شروعات کی. انہیں ایک پتری کے آپریشن کے لیے 1924 ء فروری میں رہا کر دیا گیا اس طرح انہوں نے صرف 2 سال تک ہی جیل میں رہے۔ گاندھی کی ایسی متحدہ کی شخصیت کے بغیر ، انڈین نیشنل کانگریس ، دو دھڑوں میں بنٹ گئ، ایک چتّا رنجن داس اور موتی لال نہرو کی قیادت میں جو اسمبلی میں پارٹی کی شرکت کے حامی تھے اور دوسرا چکرورتی راج گوپال آچاریہ اور سردار وللببائی پٹیل کی قیادت میں جو اس اقدام کی مخالف تھے. اس کے علاوہ ، ہندو اور مسلمان اتحاد، جو عدم تشدد کی مہم کی بلندی پر مضبوط تھا، ٹوٹ گیا تھا. گاندھی 1924ء کے موسم خزاں میں تین ہفتے کا احتجاجی روزہ کے ذریعے ان اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کی ، لیکن ان کو محدود کامیابی ملی۔
نمک ستیاگرہ (نمک مارچ) گاندھی جی سرگرم سیاست سے دور ہی رہے اور 1920ء کی زیادہ تر مدت تک وہ سوراج پارٹی اور انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان کی خلیج کو پر کرنے میں لگے رہے اور اس کے علاوہ وہ چھواچھوت ، شراب ، جہالت اور غربت کے خلاف تحریک چھیڑتے بھی رہے. وہ 1928ء میں منظر عام پر لوٹے. ایک سال پہلے انگریزی حکومت نے سر جان سائمن کی قیادت میں ایک نئ قانون اصلاحات کمیشن تشکیل دے دیا جس میں ایک بھی رکن ہندوستانی نہیں تھا. اس کا نتیجہ بھارتی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بائیکاٹ نکلا. دسمبر 1928ء میں گاندھی جی نے کلکتہ میں منعقد کانگریس کے ایک اجلاس میں ایک تجویز پیش کی جس میں بھارتی سلطنت کو اقتدار فراہم کرنے کے لئے کہا گیا تھا یا ایسا نہ کرنے کے بدلے اپنے مقصد کے طور پر مکمل ملک کی آزادی کے لئے عدم تعاون تحریک کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہیں. گاندھی جی نے نہ صرف نوجوان طبقے سبھاش چندر بوس اور جواہر لال نہرو جیسے مردوں سے فوری آزادی کا مطالبہ کے خیالات کو معتدل کیا بلکہ اپنی خود کی مانگ کو دو سال کی بجائے ایک سال کر دیا. انگریزوں نے کوئی جواب نہیں دیا. 31 دسمبر 1929ء کو لاہور میں بھارت کا جھنڈا پھیرایا گیا. 26 جنوری 1930ء کا دن لاہور میں بھارتی یوم آزادی کے طور پر انڈین نیشنل کانگریس نے منایا. یہ دن تقریبا ہر ہندوستانی تنظیموں کی طرف سے بھی منایا گیا. اس کے بعد گاندھی جی نے مارچ 1930 میں نمک پر چنگی لگائے جانے کی مخالفت میں نیا ستیہ گرہ چلایا جسے 12 مارچ سے 6 اپریل تک نمک تحریک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں 400 کلومیٹر (248 میل) تک کا سفر احمد آباد سے دازڈی ، گجرات تک چلایا گیا تاکہ خود نمک پیدا کیا جا سکے. سمندر کی طرف کی اس سفر میں ہزاروں کی تعداد میں ہندوستانیوں نے حصہ لیا. بھارت میں انگریزوں کی پکڑ کو کمزور کرنے والا یہ ایک سب سے زیادہ کامیاب تحریک تھا جس میں انگریزوں نے 80،000 سے زیادہ لوگوں کو جیل بھیجا. لارڈ ایڈورڈ اروین (Lord Edward Irwin) کی طرف سے نمائندگی والی حکومت نے گاندھی جی کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کا فیصلہ لیا. یہ اروین گاندھی کی صلح (Gandhi – Irwin Pact) مارچ 1931ء میں دستخط کئے تھے. شہری نافرمانی تحریک کو بند کرنے کے عوض برطانوی حکومت نے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کے لئے اپنی رضامندی دے دی. اس معاہدے کے نتیجے میں گاندھی کو انڈین نیشنل کانگریس کے واحد نمائندے کے طور پر لندن میں منعقد ہونے والے گول میز کانفرنس میں حصہ لینے کے لئے مدعو کیا گیا. یہ کانفرنس گاندھی جی اور قومیت وادیوں کے لئے سخت مایوس کن رہا ، اس کی وجہ اقتدار کا منتقلی کرنے کی بجائے بھارتی راجواڑے اور بھارتی اقلیتوں پر مرکوز ہونا تھا. اس کے علاوہ ، لارڈ اروین کے جانشیں لارڈ ولنگٹن (Lord Willingdon) ، نے قومیت وادیوں کے تحریک کو کنٹرول اور کچلنے کی ایک نئ مہم شروع کردیا. گاندھی پھر سے گرفتار کر لئے گئے اور حکومت نے ان کے عاملین کو ان سے پوری طرح دور رکھتے ہوئے گاندھی جی کی طرف سے متاثر ہونے سے روکنے کی کوشش کی. لیکن ، یہ مشین کامیاب نہیں ہوئ.
1932ء میں ، دلت رہنما بھیم راؤ امبیڈکر (BR Ambedkar)کے انتخابی مہم کے ذریعے، حکومت نے اچھوتوں کو ایک نئے آئین کے تحت الگ سے انتخاب کو منظور کر دیا. اس فیصلے کی مخالفت میں گاندھی جی نے ستمبر 1932ء میں چھ دن کے احتجاجی روزہ رکھا جس کی کامیابی کہ باعث عوامی اجتحاج نے طول پکڑا۔ اس کے اثر سے حکومت نے دلت کرکٹر سے سیاسی لیڈر بنے پلوانکر بالو کی ثالثی میں ایک یکساں نظام کو اپنانے پر زور دیا. اس واقعہ نے اچھوتوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے گاندھی جی کی طرف سے مہم کی شروعات کی. گاندھی جی نے ان اچھوتوں کو ہریجن کا نام دیا جنہیں وہ خدا کی اولاد سمجھتے تھے. 8 مئی 1933ء کو گاندھی جی نے ہریجن تحریک میں مدد کرنے کے لئے اور خود پاکیزگی کے لۓ 21 دن تک کا روزہ رکھا. یہ نئی مہم دلتوں کو پسند نہیں آئ تاہم وہ ایک اہم رہنما بنے رہے. بی آر امبیڈکر (BR Ambedkar) نے گاندھی جی سے ہریجن لفظ کا استعمال کرنے کی مذمت کی کہ دلت سماجی طور پر نادان ہیں اور اونچے ذات والے ہندوستانی انکے ساتھ پدری کردار ادا کیا ہے. امبیڈکر اور اس کی اتحادی جماعتوں کو بھی محسوس ہوا کہ گاندھی جی دلتوں کے سیاسی حقوق کو ہلکا لے رہے ہیں. حالانکہ گاندھی جی ایک ویشو ذات میں پیدا ہوئے پھر بھی انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ امبیڈکر جیسے دلت کارکن کے ہوتے ہوئے بھی وہ دلتوں کے لئے آواز اٹھا سکتا ہے. 1934ء کی گرمیوں میں ، ان کی جان لینے کے لیے ان پر تین ناکام کوشش کئے گئے تھے جب کانگریس پارٹی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا اور وفاقی منصوبہ کے تحت اقتدار قبول کی تو گاندھی جی نے پارٹی کی رکنیت سے استعفی دینے کا فیصلہ کر لیا. وہ پارٹی کے اس قدم سے متفق نہیں تھے لیکن محسوس کرتے تھے کہ اگر وہ استعفی دیتے ہیں تب ہندوستانیوں کے ساتھ اس کی مقبولیت پارٹی کی رکنیت کو مضبوط کرنے میں آسانی فراہم کرے گی جو اب تک کمیونسٹوں ، ماوعوادیوں ، کاروباری مئوز ، طلبہ ، مذہبی رہنماؤں سے لے کر کاروبار مئوز اور مختلف آواز جو انکے درمیان موجود تھی. اس سے ان تمام کو اپنی اپنی باتوں کے سن جانے کا موقع حاصل ہوگا. گاندھی راج کے لئے کسی پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے مہم سے کوئی ایسا ہدف ثابت نہیں کرنا چاہتے تھے جسے راج کے ساتھ عارضی طور پر سیاسی نظام کے طور پر قبول کر لیا ہو۔ گاندھی جی نہرو کی صدارت اور کانگریس کے لاہور اجلاس کے ساتھ ہی 1936ء میں فعّال سیاست میں لوٹ آئے. حالانکہ گاندھی کی مکمل خواہش تھی کہ وہ آزادی حاصل کرنے پر اپنا مکمل توجہ مرکوز کریں نہ کہ بھارت کے مستقبل کے بارے میں نانکلوں پر. اس نے کانگریس کو سماجواد کو اپنے مقصد کے طور پر اپنانے سے نہیں روکا. 1938ء میں صدر کے عہدے کے لئے منتخب سبھاش چندر بوس کے ساتھ گاندھی جی کے اختلافات تھے. بوس کے ساتھ اختلافات میں گاندھی کے اہم نقطہ بوس کی جمہوریت میں عزم کی کمی اور عدم تشدد میں یقین کی کمی تھی. بوس نے گاندھی جی کی تنقید کے باوجود بھی دوسری بار کامیابی حاصل کی لیکن کانگریس کو اس وقت چھوڑ دیا جب تمام ہندوستانی رہنماؤں نے گاندھی کے لاگو کئے گئے تمام اصولوں کو نظر انداز کرنے پر احتجاجی طور پر متحدہ استعفا دے دیا۔
دوسری عالمی جنگ اور بھارت چھوڑو نازی جرمنی کے پولینڈ پر حملہ سے دوسری عالمی جنگ 1939ء میں پھوٹ پڑا. ابتدا میں گاندھی نے برطانوی کوشش کی “غیر متشدد اخلاقی حمایت” کی پیشکش کی، لیکن کانگریس کے دوسرے رہنما عوام کے منتخب نمائندے کی مشاورت کے بغیر بھارت کو جنگ میں یک طرفہ شامل کئے جانے سے ناراض تھے ،. سب کانگریس کے دفتر سے استعفی دے دیا۔ طویل بحث کے بعد، گاندھی نے اعلان کیا ہے کہ بھارت ایک ظاہر طور جمہوری آزادی کے لئے لڑے جا رہا ہے جنگ کی پارٹی نہیں بنے گی، جبکہ خود بھارت کو آزادی سے محروم رکھا جا رہا ہے. جنگ بڑھنے کے ساتھ، گاندھی نے آزادی کے لئے ان کی مانگ کو تیز کر دیا۔ ایک قرارداد تیار کر برطانوی حکومت سے بھارت چھوڑو کی مانگ کی گئ. یہ گاندھی اور کانگریس پارٹی کی طرف سے، بھارت سے برطانوی اخراج کو یقینی بنانے کے مقصد سے کی گئ سب سے زیادہ واح بغاوت تھی۔
دونوں برطانوی حامی اور مخالف، کچھ کانگریس پارٹی کے اراکین اور دیگر بھارتی سیاسی گروپ نے گاندھی کے اس قدم کی تنقید کی. بعض نے محسوس کیا کہ نازی جرمنی کے خلاف جدوجہد میں برطانیہ کی حمایت نہیں کرنا غیر اخلاقی تھا. دیگر نے محسوس کیا کہ بھارت کا جنگ میں حصہ لینے گاندھی سے انکار ناکافی تھا اور زیادہ براہ راست حزب اختلاف کی کارروائی کی جانی چاہئے تھی ، جبکہ برطانیہ جو ابھی تک نازیوں کے خلاف لڑ ہی رہی تھی بھارت کو آزادی دینے سے انکار کر کے تردید جاری رکھا. بھارت چھوڑو جدوجہد بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور بے اندازہ تشدد کے ساتھ تاریخ کی سب سے زیادہ مضبوط تحریک بن گی۔ ہزاروں مجاہد آزادی پولس کے گولیوں سے قتل یا زخمی ہوۓ، اور ہزاروں کو گرفتار کیا گیا. گاندھی اور ان کے حامیوں نے یہ واضح کیا کہ وہ جنگ کی کوشش کی حمایت نہیں کرتے جب تک کہ بھارت کو فوری طور پر آزادی دی جاتی ہے. اس نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس وقت تحریک کو تشدد کے انفرادی کارروائیوں کی بنا پر بند نہیں کیا جاۓ گا، انہوں نے کہا کہ “حکم دیا اراجکتا” انکے گرد کے “اصلی انتشار سے بھی بڑھ کر.” ہے۔ انہوں نے تمام کانگریس اور بھارتیوں پر عدم تشدد کے ذریعہ نظم و نسق بناۓ رکھنے اور آزادی کے لۓ کرو یا مرو پر زور دیا۔ برطانوی حکومت نے 9 اگست 1942ء میں گاندھی اور پوری کانگریس ورکنگ کمیٹی گرفتار کر لیا گیا. گاندھی کو پونے میں آغا خان محل میں دو سال کے لئے مقید کیا گیا. یہاں گاندھی کو ذاتی زندگی میں دو خوفناک حادثے کا سامنا کرنا پڑا. اس کے 50 سالہ سیکرٹری مہادیو دسائی کا دل کا دورہ سے اور 6 دن بعد ان کی بیوی کستوربا 18 ماہ قید کی سزا کے بعد 22 فروری 1944ء کو فوت کر گۓ۔ چھ ہفتوں کے بعد میں گاندھی کو ایک سخت ملیریا کے حملے کا سامنا کرنا پڑا. انہیں جنگ کے اختتام سے پہلے 6 مئی 1944ء کو گرتی صحت اور ضروری سرجری کی وجہ سے رہا کر دیا گیا۔ ، راج جیل میں انکی موت کی وجہ سے متحدہ قوم نہیں چاہتا تھا. اگرچہ بھارت چھوڑو تحریک اس مقصد میں معتدل کامیابی ملی تھی ، اس تحریک کی شدّت نے 1943ء کے آخر تک بھارت کے لئے آزادی کا پیغام لایا تھا. جنگ کے اختتام پر برطانوی حکومت نے اقتدار کو بھارتی ہاتھ منتقل کرنے کا واضح اشارہ دیا. اس وقت گاندھی نے جدوجہد کی اختتام کا اعلان کیا۔ اورکانگریس کی قیادت سمیت تقریبا 100،000 سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔
تقسیم ہند جب انڈین نیشنل کانگریس اور گاندھی برطانیہ پر بھارت چھوڑنے کا دباؤ بنا رہے تھے ، 1943ء میں مسلم لیگ ملک کو تقسیم کرنے اور چھوڑ نے کا قرارداد منظور کریا، مانا جاتا ہے کہ مہاتما گاندھی aلک کو تقسیم کرنے کی مخالفت تھے. اور مشورہ دیا کہ ایک معاہدہ کے تحت کانگریس اور مسلم لیگ کی تعاون سے ایک عارضی حکومت کے تحت آزادی حاصل کر لیا جاۓ۔ اس کے بعد، تقسیم کے سوال پر مسلم اکثریت کے اضلاع میں ایک رائے شماری کے ذریعے حل ہو سکتا ہے۔ پر محمد علی جناح براہ راست کارروائی کے حق میں تھے۔ 16 اگست 1946ء کو گاندھی مشتعل تھے اور فسادات زدہ علاقوں کا دورہ کر قتل عام کو روکنے کی ذاتی طور پر کوشش کی۔ انہوں نے بھارتی ہندو، مسلمان اور عیسائی کی اتحاد کی مضبوط کوشش کی۔ اور ہندو سماج میں “اچھوت” کی آزادی کے لئے جدوجہد کی. 14 اور 15 اگست، 1947ء کو برطانوی انڈین سلطنت نے بھارتی آزادی ایکٹ پاس کر دیا، جو قتل عام اور 12.5 لاکھ لوگوں کے منتقلی اور کروڑوں کے نقصان کی گواہ بنی. ممتاز نارویجن تاریخ داں جینس اروپ سیپ کے متابق گاندھی کی تعلیمات، اس کے پیروکاروں کی کوشش، اور انکی اپنی موجودگی تقسیم کے دوران نقصانات کو کم تر کرنے میں کامیاب رہی۔ اسٹینلے والپرٹ تقسیم پر گاندھی کے کردار اور خیالات کا خلاصہ ان الفاظوں میں کیا ہے: ” برطانوی ہند کو باٹنے کا منصوبہ گاندھی کو کبھی منظور نہیں تھا۔ تاہم انہیں احساس ہو چکا تھا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ ان کے ساتھیوں اور حواریوں کو اصول سے زیادہ اقتدار میں دلچسپی ہے، اور انکی اپنی اس بھرم سے گھری رہی کہ بھارت کی آزادی کی جدوجہد جس کی قیادت انہوں نے کی وہ ایک بے تشدد تھا۔
شہادت 30 جنوری 1948ء کو ایک عبادتی خطبے کے لۓ چبترے کی طرف جاتے وقت گاندھی کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ قاتل ناتھو رام گوڈسے ایک ہندو قوم پرست اور ہندو انتہاپسند تنظیم ہندو مہاسبھا سے وابسطہ تھا جو گاندھی کو پاکستان کو ادایئگی کے لۓ مجبور کرنے اور کمزور کرنے کے لۓ ذمہ دار سمجھتی تھی۔ گوڈسے اور اسکا ساتھی سازش کار نارایئن آپٹے کو بعد میں سنوائ کے بعد مجرم قرار دیا گیا اور 15 نومبر 1949ء کو ان دونوں کو پھانسی دے دی گئ۔ گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ نئ دہلی میں ہے۔ جس پر بڑے حروف میں ہے رام () یعنی یا خدا لکھا ہے۔ عموما یہ گاندھی کے آخری الفاظ مانے جاتے ہیں حالانکہ یہ متنازع ہے۔ جواہر لعل نہرو نے ریڈیو سے قوم کو خطاب کرتے ہوۓ کہا: ” دوستوں اور ساتھیوں کو، روشنی ہماری زندگی سے نکل گئی ہے، اور ہر جگہ تاریکی ہے، اور میں واقعی نہیں جانتا کہ آپ کو کیا بتاؤں اور کس طرح بتاؤں۔ کہ ہمارے محبوب قائد، باپو جیسا کہ ہم انکو کہتے تھے، باباۓ قوم، اب نہیں رہے. شاید میں کہتا ہوں کہ میں غلط ہوں، پھر بھی، ہم انہیں پھر نہیں دیکھ سکیں گے جیسا کہ ہم نے ان کو کئی سالوں سے دیکھا ہے، ہم مشورہ کے لئے اس کے پاس نہ جا سکیں گے نا ان سے سکون حاصل کر پائيں گے، اور یہ کہ ایک سخت دھچکا ہے، نہ صرف میرے لئے، لیکن اس ملک کے لاکھوں لاکھ لوگوں کے لئے. “ گاندھی کی راکھ کلشوں میں ڈال کر پورے بھارت میں یادگار کی طور پر بھیجا گیا. زیادہ تر کا الہ آباد کی سنگم پر 12 فروری 1948 ء میں ڈوبو دۓ گئے، لیکن کچھ چھپا کر دور لے جایا گیا 1997 ء میں تشار گاندھی ایک کلش کا مواد، ایک بینک کے والٹ میں پایا اور عدالتوں کے ذریعے حاصل کر الہ آباد میں سنگم میں ڈوبو دۓ۔ مہاتما کے راکھ کا کچھ حصہ یوگنڈا کے قریب دریائے نیل کے منبع پر منتشر کۓ گئے۔ 30 جنوری 2008 ایک کلش کا مواد اس کے خاندان کی طرف سے گرگوام چوپاٹی میں ڈوب گیا جو دبئی کے ایک تاجر ممبئی کے ایک میوزیم کو بھیج دیا تھا. ایک اور کلش آغا خان کی ایک محل میں پونے ہے (جہاں انہیں 1942 سے 1944 قید کر رکھا گیا تھا) اور دوسرا سیلف ریالایئز فیلوشپ جھیل (Self-Realization Fellowship Lake shrine) لاس اینجلس میں ہے. خاندان کے علم ہے کہ ان راکھ کا سیاسی مقاصد کے لئے غلط استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن ان علامات کو توڑ کر ہٹانا نہیں چاہتے۔
اصول عمل، اور عقائد حق گاندھی نے اپنی زندگی کو سچّائ کی تلاش (حق) کے لۓ نذر کر دیا۔ انہوں نے اسے اپنی غلطیوں اور تجربات سے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی سوانح عمری کو “سچائ کے ساتھ میرے تجربات کی کہانی” (The Story of My Experiment with Truth) کا عنوان دیا. گاندھی نے کہا کہ انہوں نے سب سے اہم جنگ اپنی نفسیاتی خوف اور عدم تحفظ پر قابو پانے کے لئے لڑی. گاندھی اپنے عقائد کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا، “خدا حق ہے”۔ انہوں نے اس بیان کو بعد میں “حق خدا ہے” سے تبدیل کردیا۔ اس طرح، گاندھی کے فلسفہ میں حق (ستیا) “خدا” ہے. عدم تشدد اگرچہ مہاتما گاندھی عدم تشدد کے اصول کے موجد تو نہیں تھے مگر، انہوں نے بڑے پیمانے پر اس کا سیاسی میدان میں استعمال پہلی بار کیا تھا۔ اہنسا (عدم تشدد) کا تصور بھارتی مذہبوں میں ایک طویل تاریخ ہے. ہندو، بدھ، جین، یہودی اور عیسائی مذاہب میں اسکا اعادہ ہے. گاندھی اپنی سوانح عمری “حق کے ساتھ میرے تجربات کی کہانی” میں اس فلسفہ اور زندگی کی راہ بتاتے ہیں.ذیل اقتباس انکے سوانح عمری سے ماخوذ ہیں۔
” جب میں مایوس ہوتا، ممں یاد کرتا کہ پوری تاریخ میں سچ اور محبت کے راستہ ہمیشہ جیت ہوئ ہے۔ دنیا میں بڑے سے بڑے قاتل اور ظالم ہوۓ ہیں جو ایک وقت ناقابل شکست لگے، لیکن آخر میں وہ ہارے- اس کے بارے میں سوچنا، ہمیشہ. “ ” “آنکھ کے لئے ایک آنکھ پورے دنیا کو اندھا بنا دیتا ہے.” “ ” “بہت سی وجوہات ہیں جن کے لۓ میں مرنے کے لئے تیار ہوں، لیکن کوئی وجہ نہیں جن کے لۓ میں قتل کرنے کے لئے تیار ہوں.” “ سبزہ خوری نوجوان گاندھی نے تجسس میں گوشتخوری کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہ اپنے علاقے کے ہندو اور جین سے متاثر ہو کر ہمیشہ سبز خور رہے۔ اور سن بلوغ کو پہنچتے ہی پکّا سبز خور بن چکے تھے۔ انہوں نے اپنے لندن کے دنوں میں اس پر ایک کئ مقالے بھی لکھے جو لندن کے رسالہ “دی وجیٹیرین”(The Vegeterian) میں شائع بھی ہوۓ۔ انہوں نے اس پر ایک کتاب “سبزہ خوری کے اخلاقی اصول” بھی تصنیف کی۔ اپنے کامیاب برہم آچاری ہونے کی وجہ بھی سبزہ خوری کو بتاتے۔ جس کا ذکر انہوں نے اپنے سوانح عمری میں کیا ہے۔ گاندھی نے پھل خوری کا بھی تجربہ کیا۔ اپنے سوانح عمری میں اسکا ذکر کرتے گاندھی نے کہا، “”میں صرف پھل کھا کر زندہ کرنے کا فیصلہ کیا، اور وہ بھی سب سے سستا پھلوں سے … مونگپھلی، کیلے، کھجور، نیبو اور زیتون کے تیل پر مشتمل کھانا”۔ حالانکہ طبیبوں کے صلاح پر اس اصول کو توڑا اور اخیر دنوں میں بکری کا دودھ استعمال کرتے تھے۔ نئی تعلیم، بنیادی تعلیم نئ تعلیم ایک روحانی اصول ہے جس کے مطابق علم کام سے جدا نہیں ہے۔ گاندھی نے اسی اصول پر “نئ تعلیم” کے نام سے ایک نۓ تعلیمی نصاب کو فروغ دیا۔ گاندھی کے درس کے تین ستون یوں ہیں: علم ایک کل زندگی مرحلہ ہے علم کا سماجی کردار اور علم ایک مکمل حکمت عملی ہے۔ برہم آچاری جب گاندھی کی عمر 16 سال تھی انکے والد سخت بیمار پڑ گۓ تھے گاندھی ایک فرماںبردار اولاد کی طرح اپنے والد کی خدمت میں دن رات لگے رہتے تھے۔ ایک ربت انکے چاچا خود ذمہ دری لیکر انہیں آرام کرنے بھیج دیا۔ گاندھی اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے کہ نفسیاتی خواہش میں آکر اپنی اہلیہ کے ساتھ ہمبستر ہو گۓ۔ تھوڑے ہی دیر میں نوکر نے انہیں انکے والد کے موت کی خبر دی۔ گاندھی اپنے آپ پر شرمندگی محسوس کرنے لگے اور کبھی اپنے آپ کو اس کے لۓ معاف نہیں کر پاۓ۔ بعد میں گاندھی نے اسے دوہری شرمندگی کا نام دیا۔ اس کے نتیجہ میں گاندھی نے 36 سال کی عمر میں ہی خود کو جسمانی تعلقات سے دور کر لیا حالانکہ وہ شادی شدہ ہی رہے۔ یہ فیصلہ برہم آچاری کے فلسفہ سے بہت متاثر تھا۔ گاندھی کو برہم آچاری خود کو خدا کے قریب تر کر لینے اور خود آشنائ سمجھتے تھے۔ اپنے سوانح عمری میں اسکا ذکر کرتے ہوۓ گاندھی نے کہا کہ انکا خود کو نفسیاتی ضروریات سے روک لینے کا فیصلہ ہوس کے بجاۓ محبت کو سیکھنا تھا۔ گاندھی کے مطبق برہم آچاری ” اپنے سوچ، الفاظ اور عمل پر قابو” ہے۔ زندگی کے اخیٖر مراحل تک یہ بات عام ہو گئ تھی کے گاندھی رات کو مختلف جوان عورتوں کے ساتھ سوتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا وہ ایسا جسمانی گرمی کو محسوس کرنےکے لۓ کرتے ہیں اور اسے “فطرتی علاج” کہا۔ گاندھی نے اپنے نفس پر قابو کو پرکھنے کے لۓ اپنے اخری دنوں میں کئ تجربات کۓ۔ برلہ کے نام اپریل 1945ء کا ایک خط میں انہوں نے ‘کئ عورتوں اور لڑکیوں کا انکے ساتھ برہنہ ہونے’ کا ذکر کیا ہے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انکے ان تجربات میں کئ عورت شامل تھیں۔ انہوں نے برہم آچاری پر عمل پیراں ہونے پر پانچ اداریہ لکھے۔ اپنے اس تجربے کے لۓ وہ پہلے اپنے عورت کارکنوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں دور دور سوۓ پھر ایک ساتھ سوۓ اور آخر میں برہنہ سوۓ۔ اور یہ تجربہ کئ عورتوں کے ساتھ کیا جیسے 16 سالہ آبھا (جو انکے بھتیجے کے بیٹا کنو گاندھی کی بیوی تھی)، بھتیجے جۓ سکھ لال کی 19 سالہ بیٹی منو گاندھی (جسکا ذکر گاندھی نے اسکے والد سے خود خط میں کیا کہ میں اسکے سونے کی عادتوں کو درست کرنے ساتھ سوتے ہیں)، گاندھی خود کو انکی ماں مانتے تھے اور انہیں اپنی بیساکھی بتاتے تھے۔ گاندھی سرلا دیوی کو اپنی روحانی بیوی بتاتے تھے جو خود شادی شدہ اور با اولاد تھیں۔ گاندھی نے خلاصہ کیا کہ وہ دونوں اتنے قریب ہو گۓ تھے کہ جسمانی تعلقات بنا بیٹھتے۔ ان تجربات کی وجہ سے گاندھی کی فضیحت بھی ہوئ۔ انکے اسٹونوگرافر آر پی پرسو رام گاندھی کو منو کے ساتھ برہنہ سوتے دیکھ استعفٰی دے دیا۔ گاندھی نے کہا کہ وہ انکے ساتھ سوتے کبھی نفسیاتی خواہش نہیں ہوئ۔ انہوں نے پرسو رام سے کہا کہ مجھے افسوس ہے تاہم اگر تم جانا چاہو توجا سکتے ہو۔ گاندھی کے ساتھی نرمل کمار بوس اور دتتاتیریا بالکرشنا کیلکر نے بھی کچھ اس قسم کے واقعات بتاۓ تاہم انہوں نے اسے ان کے ساتھ گاندھی کی ممتا بتایا۔