مہلت

TARIQ BUTT

TARIQ BUTT

حکومت اور عدلیہ میں برتری کی جنگ جاری ہے اور عوام حیران و پریشان مبہوت کھڑے ہیں اور انھیں بالکل سمجھ نہیں آرہی کہ برتری کی یہ جنگ ملک کو کہاں لے جا کر ڈبو ئے گی؟ عوام نے آزاد عدلیہ کیلئے اس لئے جدو جہد نہیں کی تھی کہ وہ ایک مخصوص جماعت کو اپنے انصاف کے نشانے پر رکھے اور دوسری طرف سے آنکھیں بند کر لے۔ یہ سچ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے انتہائی اہم راہنما اور صوبائی وزیرِ قانون رانا ثنااللہ چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کے چچیرے بھائی ہیں لیکن انصاف کی دنیا میں کو ئی بھائی وائی نہیں ہو تا بلکہ قانون ہو تا ہے جس کی عمل داری کو یقینی بنا نا ہو تا ہے اور قانوں کی نظر میں سب برابر ہو تے ہیں۔

لہذا رشتے ناتوں کی انصاف کی دنیا میں کو ئی اہمیت نہیں ہو نی چا ئیے لیکن لگتا ہے کہ پاکستان میں قانون کی نہیں بلکہ ذاتی رشتوں کی مضبوطی اور انا کی تسکین کی جنگ جاری ہے جس کی وجہ سے ایک مخصوص جماعت عدلیہ کی بے رحم شمشیر کی زد میں ہے۔سید یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی یہ دکھانے کیلئے کافی تھی کہ اگلا وار اس سے بھی شدید تر ہو گا ۔ لاہور ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کی روح سے آصف علی زرداری کو ٥ ستمر تک مہلت دی گئی ہے کہ وہ صدر ِ پاکستان اور پارٹی عہدہ (شریک چیرمین پی پی پی ) میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں اور اگر انھوں نے ٥ ستمبر تک ایسا نہ کیا تو پھر ان کے خلاف توہینِ عدالت کی کاروائی ہو گی اور صدرِ مملکت کو بھی سید یوسف رضا گیلانی کی طرح نا اہل قرار دے کر ایوانِ صدر سے کسی اچھوت کی طرح اٹھا کر باہر پھینک دیا جائیگا۔

High Court

High Court

عدلیہ کا احترام اور وقار اسی لئے ہو تا ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو تی ہے لیکن اگر وہ کسی ایک فریق کو دبانے کی راہ پر نکل پڑے تو اپنا احترام کھو دیتی ہے اور اس کے تقدس پر انگلیاں اٹھنی شروع ہو جاتی ہیں جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ دو تہائی ووٹوں سے منتخب صدر کی اوقات یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک معزز جج صدرِ پاکستان کو ان کے عہدے سے بر طرف کرنے کی سعی کر رہا ہے جس کا آئین کی شق ٢٤٨ کی موجودگی میں اسے بالکل اختیار نہیں ہے ۔ آئین کی کیا خوبصورت تشریح ہے جس کی ذمہ داری آج کل عدلیہ نے اپنے مضبوط کندھوں پر اٹھا ئی ہو ئی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کاایک معزز جج صدرِ پاکستان کو بر خاست کر سکتا ہے یقین تو نہیں آتا لیکن جس ملک میں سپریم کورٹ متفقہ وزیرِ اعظم کو گھر بھیج سکتی ہے وہاں پر صدرِ مملکت کو ہائی کورٹ کا جج تو کیا کسی ماتحت عدالت کا ایک مجسٹریٹ بھی گھر بھیج سکتا ہے کیونکہ عدلیہ میں آ ج کل یہی انداز دیکھنے میں آ رہا ہے۔ عدلیہ اس وقت جارحانہ موڈ میں ہے اوراس میں ذاتی مفادات کیلئے ہوا بھرنے کا فریضہ اپوزیشن جماعتیں سر انجام دے رہی ہیں۔ مقامِ فکر ہے کہ ملک کے صدر کو جب ایک جج کی ذاتی خوا ہش کی بھینٹ چڑھا دیا جائیگا تو پھر ایسے آئین کو کون مانے گا اور ایسی عدلیہ کا احترام کون کریگا؟ لوگ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر جانبداری کا چو غہ پہن کر عوام کی شہ رگ پر انگوٹھا رکھ دے تو پھر عوام اپنی جان بچانے کیلئے ہاتھ پائوں تو ماریں گئے اور اپنی عافیت کیلئے کسی ممکنہ راہ کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گئے ۔اضطرار ی حالت میں حرام چیزوں کے کھانے کی اجازت تو ربِ کا ئنات نے بھی مرحمت فرما رکھی ہے لہذا عدلیہ کے پھندوں میں پھڑ پھڑاتے عوامی راہنماا گر اپنے عہدے کے دفاع میں تندو تیز جملوں کا استعمال کرتے ہوئے پائے جائیں تو اسے عوامی ردِ عمل سمجھ کر در گزر کیا جانا ضروری ہے ۔۔

ساری دنیا کو علم ہے کہ موجودہ عدلیہ کے ہو تے ہوئے اس ملک میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف آرمی چیف بھی تھے اور صدرِ مملکت بھی تھے لیکن اس وقت تو عدلیہ کے کسی معزز جج کے اندر اتنی جرات پیدا نہ ہو سکی کہ وہ آئین کی بالادستی کیلئے آمروں کو ایک عہدہ رکھنے پر مجبور کرتے اور ان کے خلاف صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی طرح کا کو ئی اچھوتا فیصلہ صادر کرکے انھیں ایوانِ صدر سے نکال باہر پھینکتے ۔ اس وقت تو عدالتیں ما ر شل لائوں کو جائز بھی قرار دے رہی تھیں اور آمروں کو آئین میں تبد یلی کا اختیار بھی عطا کر رہی تھیں۔ غلام اسحاق خان ایوانِ صدر میں بیٹھ کر کیا کیاساز شیں نہیں کیا کرتے تھے اور کیا کیا گل نہیں کھلا یا کرتے تھے لیکن کسی معزز جج نے انکا محاسبہ نہیں کیا اور نہ ہی انھیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا۔

Pakistan Peoples Party

Pakistan Peoples Party

یہی آئین تھا یہی عدلیہ تھی لیکن ہر سو خا موشی تھی لیکن جیسے ہی پی پی پی اقتدار میں آتی ہے آئین پر عملداری کا جذبہ بھی جوان ہوجا تا ہے اور آئین کے تقدس کا جنون بھی جوان ہو جاتا ہے اور پی پی پی کی منتخب حکومت کے خاتمے کا بیڑہ بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ اس بات کا فیصلہ ہو جا نا ضروری ہے کہ پی پی پی کے ساتھ کچھ قوتوں کو خدا واسطے کا بیر کیوں ہے اور وہ اس جماعت کے پیچھے ہاتھ دھو کر کیوں پڑ جاتے ہیں ؟ ارے بھئی پی پی پی کسی مارشل لائی قانون کے تحت اقتدار میں نہیں آئی بلکہ پاکستانی عوام نے اسے پانچ سال کیلئے حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے لہذ ا اسی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہو ئے اس کے خلاف سازشوں کو بند ہو جا نا چائیے اور عدالتی مارشل لائی سوچ کو دھیما ہو جاناچا ئیے۔

یہ سچ ہے کہ پی پی پی کی لیڈر شپ کا تعلق پنجاب سے نہیں ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پنجاب پی پی پی کا مضبوط قلعہ ہے اور پنجاب کے لوگ ذولفقار علی بھٹو کی جماعت سے محبت کرتے ہیں اور اس پر اپنے ووٹوں اور نو ٹوں کی بارش کرتے ہیں جو پنجاب کے سیاسی ادا کاروں اور لوٹوں کو بالکل پسند نہیں آتا لہذا پی پی پی کے خلاف سازشیں جنم لینا شروع ہو جا تی ہیں۔ارے خدا کا خوف کھا ئیے اگر آئین کو نہ ماننے کا سوال ایک دفعہ اٹھ گیا تو پھر اسے سنبھالا نہیں جا سکے گا ۔ خدا را اس ملک کی سالمیت سے مت کھیلئے ۔ عوامی نمائندوں کا احترام کرنا سیکھئے، پارلیمنٹ کو آزادی سے کام کرنے دیجئے اور وفاقِ پاکستان کو انصاف کے نام پر ذبح مت کیجئے ۔۔

پی پی پی سے جن حلقوں کی ذاتی پر خاش ہے وہ کسی دوسرے انداز سے اپنا حساب بیباق کر لیں جس کیلئے بڑے طریقے ہیں لیکن وفاق کی علامت جماعت (پی پی پی ) کے شریک چیرمین اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو ایک صوبے کی عدالت سے برخاست کروا کے اسے نقصان پہنچانے کی کوششوں کو روکنے کی سبیل کیجئے ۔

عدلیہ کے فیصلوں کے ذریعے حکومتوں کی برخاستگی کے فیصلوں کا اجراء ایک بڑا خطرناک کھیل ہے خدا را اس سے باز آ جا ئیے۔ اس سے ملکی سالمیت پارہ پارہ ہو جائیگی لہذا اس کی سالمیت کا خیال کیجئے اور اس طرح کے غیر جمہوری اور گھنائونے افعال سے باز آجا ئیے ۔ شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ بھی اسی طرح کا کھل کھیلا گیا تھا اور اگر تلہ سازش کیس کے تحت اسے جیل میں ڈال دیا گیا تھا جس نے بنگالیوں کو آتشِ پا کر دیا تھا لہذا چھوٹے صوبوں کی قیادت کو اس جانب مت دھکیلئے کہ پاکستان کی وحدت پر انگلیاں اٹھنی شروع ہو جائیں۔

mian brothers

mian brothers

میاں برادران اقتدار کیلئے عقل و شعور سے کام نہیں لے رہے اور انھیں اپنے مفادات کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ۔ پنجاب میں پی پی پی اور مسلم لیگ(ق) کے ممبرانِ اسمبلی پر حملے اسی اقتدار پرستی کے شاخسانے ہیں۔ پاکستان قومی اتحاد کی ١٩٧٧ کی تحریک کے بعد یہ پہلی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ پی پی پی اور اس کی اتحادی جماعتوںکے خلاف میاں برادران اس طرح کی مہم چلا رہے ہیں اور لوگوںکو اس بات پر اکسا رہے ہیںکہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر مخالفین کا صفایا کر دیں۔یہ وفاقِ پاکستان کے خلاف کھلی بغا وت ہے جس کا نوٹس لیا جا ناضر وری ہے ، مفا ہمت ایک اچھی چیز ہے لیکن مفاہمت کے کہیں بھی یہ معنی نہیں ہیں کے مفاہمت کے نام پر کچھ لوگوں کو کھلی چھٹی دے دی جائے کہ وہ مفاہمت کے نام پر اس ملک کا شیرازہ بکھیرنے کی سازشیں کرنے لگ جائیں۔

اگر کچھ ہاتھ دستار کی عظمت طرف بڑھنے لگ جائیں تو پھر ان ہاتھوں کاکاٹا جانا ضروری ہو جا تا ہے ۔ دستار کی حرمت ہر چیز سے مقدم ہو تی ہے۔ انسان اتنے اہم نہیں ہوتے جتنے ملک اہم ہوتے ہیں لہذا اگر کچھ ادارے اور لوگ اس ملک کی قسمت سے کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں تو ان کے خلاف قانون کو حرکت میں لایا جانا ضرور ری ہے اور یہ ذمہ داری حکومت کی ہے کہ ملکی سالمیت کی حفاظت کرے ۔

سید یوسف رضا گیلانی کے بعد اب نئے منتخب وزیرِ اعظم راجا پرویز اشرف کو بھی سوئس حکام کو خط لکھنے کیلئے سپریم کورٹ نے ٢٥ جولائی تک کا وقت دیا ہے۔ اٹارنی جنرل کو حکم دیا گیا ہے ٢٥ جو لائی سے قبل عدا لت کو بتائیں کہ وزیرِ اعظم راجا پرویز اشرف صدر ِ پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف سوئیس حکام کو خط لکھیں گئے کہ نہیں۔عدالت انتہائی عجلت میں ہے اور اس کے احکامات اس با ت کا واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ عدالت پی پی پی حکومت سے چھٹکارا چاہتی ہے۔

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسمبلی کے اندر سے پی پی پی کی موجو دہ حکومت کو کسی بھی طرح سے ہٹا یا نہیں جا سکتا لہذا اس کے دو ہی راستے ہیں یا تو اسے فو جی جنتا کے شب خون سے ہٹا یا جا ئے یا پھر عدالتی مارشل لا کے ذریعے اس کی چھٹی کروائی جا ئے۔ امریکہ سے خراب تعلقا ت ،خراب معیشت،، دھشت گردی کی جنگ ، افغانستان کی بگڑتی ہو ئی صورتِ حال اور ابتر ملکی حالات کے پیشِ نظر فوج اقتدار پر قبضے کے معاملے میں فی ا لحال یک سو نظر نہیں آ رہی لیکن عدالتی رویہ اسے یہ موقعہ شائد فراہم کر دیگا کہ وہ یک سو ہو کر جمہوریت پر وار کر دے ۔ ملک عدمِ استحکام کا شکار ہو تا ہے تو ہونے دیجئے ، نفرتیں بڑ ھتی ہیں تو بڑھنے دیجئے لیکن پی پی پی کو اقتدار سے ہٹا نا ضروری ہے ۔

parwez ashraf and asif ali zardari

parwez ashraf and asif ali zardari

یہ ایک مشن ہے جسے عدلیہ ایجنسیوں ،میڈیا اور اپوزیشن کی مشترکہ حکمتِ عملی کا نام دیا جا سکتا ہے۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم راجا پرویز اشرف کے ہٹ جانے سے بھی اگر وہ مقاصد پو رے نہیں ہو تے تو پھر کیا ہو گا ؟ توہینِ عدالت کی تلوار کیا صوبوں کے وزرائے اعلے پر بھی چلائی جائے گی کیونکہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد صوبوں میں حکومتیں تو ختم نہیں ہو تیں لہذا کچھ ایسا کرنا پڑے گا جس سے وہ مقاصد پورے ہو جائیں جن کیلئے سارا ڈرامہ سٹیج کیا جا رہا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ وفاقی حکومت سے عدلیہ کا مو جود ہ تصادم اور محاز آرائی ملکی سالمیت پر بڑے منفی اثرات پیدا کرے گی جس کا پاکستان اس وقت متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس باہمی تصادم کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہی قوتیں ایک دفعہ پھر اقتدار پر قابض ہو جائیں جن سے قوم نے بڑی مشکلوں سے جان چھڑائی ہے۔خدا را انصاف کے نام پر اس ملک کو اندھیروں کے حوالے مت کیجئے۔ جمہوریت کو چلنے دیجئے کہ اسی میں ملک وقوم کی بقا ہے۔

جمہوریت نہ رہی تو ایسا غدر مچے گا جو پھر کسی سے بھی سنبھا لا نہیں جائیگا۔عدالتیں اور ادارے بے بس ہو جا ئیں گئے ، ہر سو انارکی کا راج ہو گا، کوئی کسی کا پرسانِ حال نہیں ہو گا اور اندھیرے ایک دفعہ پھر قوم کا مقدر بن جائیں گئے جس سے نکلنے کیلئے پھر جانوں کے نذرانے پیش کرنے پڑیں گئے اور اب ہمارے پاس تو کوئی بے نظیر بھی نہیں جو اپنے لہو سے ان اندھیروں کو مٹا کر جمہوریت کی شمع روشن کر سکے۔ تحریر: طارق حسین بٹ