رنگون (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف ملک کے کئی حصوں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور فوج کے خلاف شدید نعرے بازی کی جب کہ 70 بڑے اسپتالوں کے عملے نے احتجاجاً کام بند کردیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق میانمار میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں ایمرجنسی کے نفاذ اور ملک کی حکمراں آنگ سان سوچی کی گرفتاری پر ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ ریلیوں میں زیر حراست 73 سالہ حکمراں سوچی سے اظہار یکجہتی کیا گیا، ریلی میں زیادہ تر نوجوان طلبا نے شرکت کی۔
اس حوالے سے سب بڑی ریلی ملک کے کاوباری شہر رنگون میں نکالی گئی جس میں مظاہرین نے فوج سے واپس بیرکوں میں جانے کا مطالبہ کیا۔ احتجاج کے بعد مظاہرین پُرامن طور پر منشتر ہوگئے۔
میانمار فوج نے اب تک ان ریلیوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی تاہم ماضی میں فوج کی جانب سے جمہوریت کی بحالی کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کرنے کئی مثالیں موجود ہیں۔
دریں اثناء میانمار کے 30 سے زائد ٹاؤنز میں قائم 70 اسپتالوں کے عملے نے ملکی اقتدار پر فوجی قبضے کے خلاف احتجاجاً کام چھوڑ دیا۔ عملے نے فوجی قیادت کے احکامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ کورونا وبا کے ہنگامی دور میں پہلے سے پریشان عوام کے لیے مزید مشکلات کھڑی کردی گئی ہیں اور ان حالات میں بھی فوج صرف اپنے مفادات کے لیے کام کر رہی ہے۔
فوجی بغاوت کے خلاف حال ہی میں قائم ہونے والی سول نافرمانی کی تحریک کے پیچھے بھی چار نوجوان ڈاکٹرز ہیں تاہم ان کی شناخت پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ نامعلوم مقام سے جاری بیان میں ان ڈاکٹرز نے کہا کہ فوج غریب مریضوں کا احترام نہیں کررہی اور اپنے غیر آئینی اقدام کی تعمیل کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔
رواں برس کے آغاز پر میانمار کی فوج نے گزشتہ برس انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔ علاوہ ازیں ملک کی سربراہ آنگ سان سوچی سمیت پارلیمانی ارکان اور حکمراں جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی کے درجنوں رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔