قرآن مجید فرقان حمید میں قوموں کے واقعات اللہ تبارک تعالیٰ نے بیان کیے مختلف انبیاء کرام کی قوموں کے واقعات تفصیل سے درج کیے گئے ہیں اس وقت کے انبیاء کی قوم کے لوگ شریعت سے ہٹ کر کوئی کام کرتے تو اللہ کے یہ برگزیدہ بندے انبیاء کرام ان کو منع فرماتے کوئی مال تجارت میں ملاوٹ کرتا کوئی قوم سودی کام کرتی اور کوئی رشوت ستانی کے موذی مرض میں مبتلا ہوتا اگر وقت کے نبی اپنی قوم کو اپنے مال سے کچھ خرچ کرنے کی ترغیب دیتے تو وہ اس کے مخالف ہوجاتے اللہ کے نیک بندوں پر ظلم و ستم اور بربریت کے پہاڑ گرا دیتے آج میرے دیس میری پاک سرزمین میں وہ تمام کام ہورہے ہیں جس سے اسلا م نے منع کرتا ہے بدقسمتی سے ان برے کاموں کو بڑی ڈھٹائی سے سر انجام دیا جاتا ہے اور پھر شرمندگی بھی نہیں ہوتی تو اس میں محسن انسانیت تاجدار یثرب نے فرمایا کہ جو قوم کھلے عام اللہ کے احکام توڑے گی تو انتظار کروزمین پھٹ جائے گی اور اس قوم پر پتھروں کی بارش ہو گی ایسی قوم کی روزی تنگ کردی جائے گی قارئین محترم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی کی طرف بغور توجہ دیں اور اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم کیا کررہے ہیں۔
آج ہم رشوت کو اپنا حق سمجھتے ہیں ذخیرہ اندوزی کو منافع کمانے کا بہترین طریقہ تصور کرتے ہیں جھوٹ اور قسمیں کھا کر اپنا مال فروخت کرتے ہیں کرپشن تو ہماری کٹھی میں شامل ہے حق دار کے حق کھا کر ہم خوشی محسوس کرتے ہیں چور ڈاکوہمیں تحفظ دینے کے دعوے کرتے ہیں تو ایسے حالات میں کہاں زندگی گزارنا آسان ہے گذشتہ دنوں ایک اخبار تحریر پڑھی جس کو پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا پاکستان میں اس وقت کرپشن کی انتہا ہے کہتے ہیں کہ جب قانون کے رکھوالے اور پاسدارہی چوری اور کرپشن میں شریک ہو جائیں اور وہ چوروں ڈکوئوں کو جدید آلات جو انہیں گاڑیوں کی چوری کرنے کے لیے فراہم کیے گئے ہوں تو قارئین محترم آپ ہی بتائیں کیا قانون کے محافظ اور ڈاکوئوں میں فرق رہ جاتا ہے۔
محمد حسن ایک بین الاقوامی کار چوروں کا سرغنہ ہے اور اس وقت وہ پانچویں مرتبہ گرفتار ہوا ہے اور کئی انکشاف کیے محمد حسن کا تعلق ضلع صوابی سے ہے گاڑیوں کی چوری ملوث اس نے بتایا کہ تقریباً 700ٹویوٹالینڈ کرورز، پراڈو، پجیرو، جلسی لگژری گاڑیاں10اسلام آباد اور گردونواح سے چوری کرکے جمیرز کی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے انہیں پشاور اور مردان لے جاتا جہاں ان کی ایک منظم مارکیٹ ہے اور یہ گاڑیاں اثرورسوخ رکھنے والے افرادقانونی طور پر اپنے نام رجسٹرڈ کروالیتے ہیں محمد حسن نے بتایا کہ اس میں سیاستدان، بیورکریٹس، سینئر بینکرز اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں ملزم محمد حسن نے بتایا کہ جیمرز حاصل کرنے کے لیے ہم کو 90ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں جس سے گاڑیوں میں لگے حرکات وسکنات بتانے اور انہیں جام کرنے والے تمام جدید آلات غیر موثر ہوجاتے ہیں اور چوری کی گاڑیوں کو پاکستانی شہروں میں منتقل کیا جاتا ہے۔
محمد حسن نے راولپنڈی اسلام آباد پولیس کے کئی افسران اور اہلکاروں کے نام بھی بتائے ہیں جو اس گروہ کی رشوت کے عوض مدد کرتے ہیں اس نے انکشاف کیا کہ چار ماہ قبل اس ایک گروہ ایک ٹویوٹا کرولا اسلام آباد سے چوری کرکے ایبٹ آباد لے جارہا تھا کہ راستے میں انہیں ACLCکے سب انسپکٹر نے روکا اور7روپے لیکر چوری کی گاڑی کو جانے دیا ملزم نے بتایاکہ بعد میں اسلام آباد کی50فیصد چوری کی گاڑیاں پولیس والے دوسرے شہروں میں منتقل کردیتے ہیں اور ہمارے معاون ثابت ہوتے ہیں حسن نے بتایا کہ اس کے ساتھ پشاور میںایکسائز اینڈ ٹیکنیشن افسران(E.T.O) بھی شامل ہیں جنہیں2010ء میں تقریباً700سو چوری کی گاڑیوں کو ساڑھے تین لاکھ سے چار لاکھ روپے لے کر جعلی کاغذات بنائے جس کے لیے ان گاڑیوں کے انجن جیسز نمبر پشاور شوبا مارکیٹ ان نہایت ہی مہارت ویلڈنگ کرکے تبدیل کردیا جاتا ہے جس کے بعد فوسینک سائنس لیبارٹری FCLکے اہلکار انجن اور چیسز نمبر تبدیل کی ہوئی گاڑیوں کی40ہزار سے ایک لاکھ روپے فی گاڑی رشوت لے کر لیبارٹری کلیئرنس رپورٹ جاری کردیتے ہیں اور اس کے علاوہFSLکے اہلکار گروہ کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔
تاکہ ان گاڑیوں پر چوری کا کوئی سعبہ نہ رہے جس کے بعد ان گاڑیوں کو مارکیٹ قیمتوں پر فروخت کیا جاسکتا ہے جبکہ وہ گاڑیاں جن کے انجن اور چیسزنمبر تبدیل نہیں کیے جاتے انہیں کھول کر اسپیئر پارٹس فروخت کردیئے جاتے ہیں گروہ کے سرغنہ محمدحسن نے ایک اور دلچسپ انکشاف کیا کہ انہیں مارکیٹ ڈیمانڈ پر لگژری گاڑیوں کے چوری کے ایڈوانس رقم دے کر آرڈر ز بھی دیئے جاتے ہیں ملزم نے بتایا کہ اسلام آباد کے بلیوایریا کے بڑے خریدار نے اسے ایڈوانس رقم دے کر100گاڑیاں فراہم کرنے کا آرڈر دیا تھا ملزم حسن نے مزید بتایا کہ گاڑیوں کی چوری کے سلسلے میں رشوت کی رقم اینٹی کارلفٹنگ سیل فورسینک لیبارٹری اسلام آبادکے راستے میں پولیس چوکیوں کے اہلکاروں میں تقسیم کرکے سگنل ملنے کے بعدگاڑیاں اٹھائی جاتی ہیں اور یہ کاروبار بڑے دھڑلے سے جاری و ساری ہے۔
قارئین محترم آپ ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کے سوچیں کہ میرے ملک میں یہ کیا ہورہا ہے ملزم حسن کون ہے اور کتنے عرصے سے کام کررہا ہے پانچ مرتبہ گرفتار ہوا مگر پھر اس کو چھوڑ دیا گیا۔
قارئین محترم جناب کسی ملک کے تحفظ دینے والے چور اور ڈاکوئوں سے چند ٹکے لے کر اس کو راہ فرار کا موقع دے دیتے ہیں جب کسی ملک کے سیاستدان چور اور ڈاکوئوں سے چوری کا مال سستے داموں خرید کر عیاشی پر لگاتے ہیں تو اس ملک کا خدا حافظ ہے۔