لگتا یہ تھا کہ میمو گیٹ اسکینڈل حکومتِ وقت کو لے ڈوبے گا۔کیونکہ اس کے اِندراجات ملک سے بغاوت کے زمرے میں آتے ہیں ۔جس کے تحت امریکہ کے ذریعے ایک جانب پاکستانی فوج کو ذلیل کرنے کے سامان کئے گئے تو دوسری جانب ہمارے ایٹمی اثاثوں تک دشمن کی رسائی کے انتظامات کئے جاتے رہے ہیں۔حسین حقانی جس کو ہم ہمیشہ امریکہ میں امریکہ کا سفیر کہتے تھے ۔ میمو گیٹ اسکینڈل نے ہماری یہ بات بھی سو فیصد سچ ثابت کر دی ہے۔موصوف کی پاکستان اور پاکستان آرمی مخالف صفت سے ہر ذی شعور واقف ہے اور ان کے بدلتے رہنے والے فظرت سے کون پاکستانی واقف نہیں ہے۔موصوف کو مگر مچھ کے آنسو بھی خوب بہانے آتے ہیں یہ شخص پرویز مشرف اورصدر آصف علی زرداری کا منہ چڑھا رہا ہے۔ اس شخص نے پاکستان کا سفیر ہونے کے باوجود امریکہ کے ہاتھوں جس قدر پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے اتنا تو واجد شمس الحسن نے بھی نہیں پہنچایا۔دھڑا دھڑ امریکی جاسوسوں اور بلیک واٹر کے دہشت گردوں کو بغیر کسی انکوئری اور پوچھ گچھ کے پاکستان کے ویزے جاری کر کے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہرکھی تھی!!!مگر یہ دونوں افردایک( سیر)کلو ہے تو دوسرا سوا( سیر)کلو ہے۔ایک نے صدر زرداری کی لوٹی ہوئی دو لت کا تحفظ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تو دوسرے نے صدر زرداری کے اقتدار کو دوام بخشنے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھی۔ اس کے لئے اُسے چاہے پاکستان کو نقصان ہی کیوں نہ پہنچانا پڑا ہو۔ریمنڈ دیوس جیسے بد معاشوں کا تحفظ بھی ان ہی موصوف کا عظیم کارنامہ ہے۔اس کیبعد ایک پاکستانی نژد امریکی، منصور اعجاز کے ذریعے حسین حقانی نے وہ کارنامہ انجام دینے کی کوشش کی جو را، سی آئی اے اور موساد کی دلی تمنا رہی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ حقانی اور منصور اعجاز کے درمیان پیغامات کا تبادلہ تو ہوا تھا۔معاملہ پاکستانی سفیر اور امریکی شہری کے درمیان ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ اس معاملے میں ابتداء کس نے کی؟دوسری جانب رحمان ملک یہ بھی کہتے ہیں کہ حسین حقانی کے خلاف بغا و ت کے مقدمے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے!!مائک مولن کو لکھوائے جانے والے خط کے بارے میں مائک مولن پہلے کہتے ہیں کہ انہیں ایسا کوئی خط ملا ہی نہیںپھر کہتے سنے گئے کہ خط تو ملا تھا مگر وہ اس کو قابلِ اعتبار نہیں سمجھتے ہیں۔ درحقیقت خط کے مندرجات اس قدرخطر ناک ہیںجو پاکستان کی سا لمیت کا سودا کرنے کے مترادف ہیں۔جس کا ذمہ دار ایک ہائی پروفائل شخصیت کو منصور اعجاز نے ٹہرایا ہے۔حسین حقانی کو بچانے کی ناصرف پیپلز پارٹی کوشش کر رہی ہے بلکہ امریکہ بھی اپنے وعدے کے مطابق پرویز مشرف کی طرح نا صرف حقانی کو بلکہ مشرف کے جانشینوں کو بھی بچانے کی پورپوری کوشش کر رہا ہے۔کیونکہ یہ ان سے بڑے وفا دارہیں۔ امریکہ کو ڈھونڈے سے بھیایسے وفادار نہیں ملیں گے۔ لہٰذ اصدر زرداری کا دفاع خاص طور پر امریکی اور امریکی حکومت ہمنوا ضرور کریں گے!! این آر او فیصلے کو لٹکائے رکھنے کے لئے حکومت نے این آر او کے خلاف فیصلہ آ نے پرایک نظرِ ثانی کی درخواست سپریم کورٹ میں لگادی تھی جس کو دو سال تک بابر اعوان نے مختلف حیلوں بہانوں سے ڈِلے ٹیکٹِس کے تحت کھینچے رکھا ۔26نومبر 2011 کو سپُریم کورٹ نے حکومت کی نظرِ ثانی کی اپیل کو مسترد کر دیا اور حکم دیا کی این آر اوفیصلے پر فوری عمل درآمد کرایا جائے۔عدالتی فیصلے پر سیکڑوں مقدمات جن کو این آر او کا پروٹیکشن حاصل تھاوہ تمام کے تمام آٹو میٹک کھل گئے۔جس پر اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے ایک شخص کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ ایک جانب ملک سے غداری کے معاملات تھے تو دوسری جانب این آر اوکی تلوار نے ایونِ صدر کے دل و دماغ کوارتعاش کا شکار بنا دیا ہے۔ یہ بات ساری دنیا کے علم میں ہے کہ امریکہ اپنے شکست خردہ چہرے پر فتح مندی کے ستارے سجا کر افغانستان سے فرار کے راستو ں کی تلاش میں ہے۔یہ فتح مندی کے ستارے اس کے کالک زدہ چہرے پر صرف حکومتِ پاکستان ہی اپنے لوگوں کو مروا کر سجا سکتی ہے اور صدر زردا ری کی حکومت سے زیادہ بہتر انداز میں یہ کام کوئی اور انجام دے ہی نہیں سکتا ہے۔لہٰذا امریکیوں نے عوام کی توجہ ڈیئورٹ کرنے اور اپنے وفادار کو بچانے کے لئے مہمنڈ ایجنسی کی دو چیک پوسٹوں کو جان بوجھ کر کئی گھنٹوں تک نشانے پر رکھا۔جو ایک جانب پاکستان کے لئے دھمکی ہے تو دوسری جانب پاکستان کے عوام کی دونوں گمبھیر معاملات یعنی این آر او اور میموگیٹ اسکینڈل سے توجہ ہٹانے کی سوچی سمجھی کاروائی ہے۔یہ پاکستانیوں کی توجہ دوسری جانب منتقل کرنے کی کوشش ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ صدر زرداری کے اقتدار پر قابض رہنے کی شکل میں امریکہ اپنے مفادات بغیر کسی رکاوٹ کے آسانی کے ساتھ حاصل کر سکتا ہے۔امریکیوں نے یہ قبیح حرکت کرنے بعد کسی معافی کے مانگنے سے بھی صاف انکار کر دیا ہے ۔ہمارا مطالبہ معافی نہیں بلکہ مجرموں کو سزا دینے کا ہونا چاہیئے۔ مگر لگتا نہیں ہے کہ ہمارے حکمران معافی سے آگے جایئں گے۔ خبریں یہ ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان سید یوصف رضا گیلانی نے امریکہ کی حکومت پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ مہمند ایجنسی میں ہماری سر زمین پر ہمارے سپاہیوں پر اور ایبٹ آباد حملے پر(جس کو وزیر اعظم نے عظیم فتح کا نام دیا تھا)میں یک طرفہ آپریشن کی کاروائی کی صورت میںہماری خود مختاری کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں….وزیر اعظم نے کہا کہ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان امریکہ تعلقات اب پہلے جیسے نہیں ہو پایئں گے۔افغانستان مسئلے کا کوئی ایساحل جو ہمارے مفادات کے خلاف ہو قابل قبول نہیں ہے اور افغانستان پر ہونے والی بون کانفرنس کا بائکاٹ بھی خارج از امکان نہیں ہے!!اس کی وجہ وزیر اعظم نے یہ بتائی کہ ہمیں عزت نہیں مل رہی ہے انکا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام صورت حال کا جائزہ لینے کے بعدپارلیمنٹ کا (غالباََچوتھی بار)مشترکہ اجلاس بلائیں گے۔تاہم یہ سوال الگ ہے کہ گذشتہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں کی قرار دادوں پر تو آج تک ان کی حکومت نے عمل کیا نہیں ! اب وزیر اعظم ایک مرتبہ پھر پالیمنٹ کو رسوا کرنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟؟؟صدر اور وزیر اعظم کے ماضی کے بیانات ا ور رویوں کاجائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ تمام کے تمام بیانات جھوٹ کا پلندہ اور قوم کو دھوکہ دینے کی سوچی سمجھی کاوشیں تھیں۔ سپُریم کورٹ کا فیصلہ اور میمو گیٹ اسکینڈل حکومت کو لے ڈوبنے کے لئے کافی ہے۔ ملک میںیہ دونوں موضوعات بحث کا عام حصہ بن چکے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ہر جانب سے اٹھتے ہوے طوفانوں کو روکنے کے لئے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت زرداری حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ اور عوامی مطالبات کو دبانے کی خاطر این آر او کے خالق اورموجودہ حکومت کے خالق اور َان داتاامریکہ نے زرداری گیلانی وفاداریوں کو مدِ نظر رکھتے ہوے اپنے منصوبے کے مطابق مہمند ایجنسی کی دو پاکستانی چیک پوسٹوں کو کئی گھنٹوں تک جی بھر کے نشانہ بناتے رہے جس میں جنگی ہوئی جہازوں کے ساتھ ہیلی کوپٹروں نے بھی حصہ لیا۔ اور پاکستان کی خود مختاری کو رعونت کے ساتھ اپنے پیروں کے نیچے مسلتے رہے اور ہمارے ادارے گونگے بہرے بنے انہیں 2،اکتوبر کی طرح من مانی کرنے دیتے رہے!!! اس حملے کے بعد بھی حکومتی دورخی پالیسی واضح انداز میں سامنے آرہی ہے۔وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ہمنے شمسی ایئر بیس کو خالی کرانے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔متحدہ عرب امارات کے لوگوں نے یہ جگہ اپنی عیاشیوکے لئے شکار کے نام پر حاصل کی ہوئی ہے جو وہ پاکستان کی تباہی کے لئے اپنے آقا کو دے کر ہمارے لوگوں کے بہتے لہو سے انجوائے کرتے رہے ہیں۔وزیر اعظم نے صرف یہ ایک ایئربیس بند کرانے کا حتمی فیصلہ کر کے قوم پر کوئی احسان نہیں کیاہے۔ جیکب آباد ایئر بیس جس پر دنیا کی جدید ترین مشنری امریکہ نے نصب کر رکھی اور دالبندین ایئر بیس کیوں بند نہیں کرائے گئے ہیں؟؟؟ وزیراعظم صاحب قوم کی آنکھوں میں دھول مت جھونکئے!!!آپ اپنے بیانات سے قوم کو پانچویں مرتبہ بیوقوف بنا رہے ہیں۔کیونکہ میمو گیٹ اسکینڈل اور این آر اوکی ہڈی اب آپ لوگوں کے گلے میں پھنس چکی ہے۔ ہم ایک بار پھر وزیر اعظم کو بتادیں یہ معاملہ معافی تلافیوں سے ٹلنے والا ہرگزنہیں ہے۔امریکہ سے پوری شدت کے ساتھ امریکی اور نیٹو دہشت گردوں کی سزائوں کا مطالبہ کرنا ہوگا۔جنہوں نے آپ لوگوںکے اقتدارکو بچانے کیلئے مہمند ایجنسی پر حملے کر کے ہمارے فوجی جوانوں کی قیمتی جانوں سے کھیلینے کی جراء ت کی ہے اور اس میں انُ افسروں کی سزائوں کا مطالبہ بھی شامل ہونا چاہئے جن کے حکم پر یہ بہیمانہ کاروائی کی گئی تھی!!!مگر پسِ دیوار ہمیں نظر آرہا ہے کہ اس وقت حکمرانوں کی سانسیں پھولی ہوئی ہیںوہ کبھی بھی کوئی ایسا مطالبہ نہ کریں گے جس سے اُن کا آقا ناراض ہوجائے۔اس کو ہم پاکستانی قوم کی بد نصیبی ہی کہہ سکتے ہیں۔پروفیسرڈاکٹر شبیر احمد خورشیدshabbir4khurshid@gmail.com