بالآخر حکومت اپنے منصوبے میں بظاہر کامیاب ٹھہری،وہ چاہتی بھی یہی تھی کہ منصور اعجاز کسی بھی طرح میمو کمیشن کے سامنے پیش نہ ہوسکے،چنانچہ اس نے اِس منصوبہ بندی پر جس توجہ اور سرعت سے عمل کیا،اس کے الیکڑونک اور پرنٹ میڈیا گواہ ہیں،اگر 16جنوری سے اب تک کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کوئی حربہ نہیں جسے حکومت اور حکومتی ذمہ داران نے منصور اعجاز کی آمد میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے استعمال نہ کیا ہو،محترم وزیر اعظم ،وزیر داخلہ اورسابق سینئر وزیر پنجاب سے لے کرپیپلز پارٹی کے عام کارکن تک کھل کر اِس عدالتی معاملے پر اثر انداز ہوتے رہے،وزیر اعظم صاحب نے تو صاف کہہ دیا کہ منصور اعجاز کوئی وائسرائے یا امریکی صدر سے بڑی شخصیت تو نہیں،جس کیلئے اربوں روپئے خرچ کیے جائیں یا فوج کی سیکورٹی مہیا کی جائے،میمو لکھنے والے کو فوج کا پروٹوکول دینا درست نہیں،حکومت آئین اورقانون کے تحت ایسا نہیں کرسکتی،منصور اعجاز کی سیکورٹی کی ذمہ دار صرف وزارت داخلہ ہے،ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی فرمادیا کہ منصور اعجاز پاکستان سے کبھی بھی مخلص نہیں رہا،ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ،حکومتوں اورپاکستان کے خلاف زہر اگلتا رہا،اسے کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہوناچاہیے۔ مگر کیسے اِس کا جواب نہیں دیا گیا،وزیر داخلہ صاحب فرماتے ہیں کہ اگر پارلیمانی کمیٹی نے کہا تو منصور اعجاز کا نام ای سی ایل میں ڈالا جاسکتا ہے،اسے بے نظیر حکومت گرانے کے الزام میں گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے، اب وزیر داخلہ صاحب کہتے ہیں کہ منصوراعجازایکسپوز ہوگیاہے،اس کی عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش ناکام ہو گئی اور جھوٹ پر مبنی ڈرامے کا ڈراپ سین ہو گیا ہے،سابق وزیر قانون اور حکومتی وکیل کہتے ہیں کہ منصور اعجاز کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے،اس کی شرائط صریحا بلیک میلنگ ہے اوراس کی افسانہ نگاری کا ایک اور باب بند ہو گیا،انہوں نے کہا کہ اگر منصور اعجاز سچا ہوتا تو پاکستان آتا،ساتھ ہی انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ دفعہ 182 کے تحت جھوٹا الزام لگانے والے شخص کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔ چت بھی میری اور پٹ بھی میری،حکومت کا یہ وہ طرز عمل ہے جو صاف ظاہر کرتا ہے کہ اس کے عزائم اور ادارے کیا ہیں اور وہ کیا چاہتی ہے،اِن دھمکی آمیز بیانات کو منصور اعجاز کی وکالت سے ہٹ کر ایک غیر جانبدار انہ تناظر میں دیکھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ منصور اعجاز نے پاکستان آکر کمیشن کا سامنے پیش ہونے سے کیوں انکار کیا۔؟ جس طرح سے حکومتی ذمہ داران کی طرف سے منصور اعجاز کو خوفزدہ کیا جاتا رہا،کیا ایسی صورت میں کوئی بھی شخص پاکستان آکر خود کو سیاسی دبا کے زیر اثر رہنے والی پاکستانی پولیس اور سیکورٹی حکام کے رحم وکرم پر چھوڑ سکتا ہے۔؟یقیناکوئی بھی شخص اتنا کم عقل ہر گزنہیں ہوسکتا کہ جان بوجھ کر اپنی زندگی خطرے میں ڈالے،چنانچہ منصور اعجاز نے بھی وہی کیا جو حالات و واقعات کا تقاضہ تھا،اب اسے جھوٹا قرار دینا اور یہ کہنا کہ منصور اعجاز ایکسپوز ہو گیا،سوائے اپنے منہ میاں مٹھو بننے کے اور کچھ نہیں،کیونکہ جس طرح حکومتی ذمہ داران نے منصور اعجاز کو ڈرانے،دھمکانے اور اس کے آنے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کیلئے جو کچھ کیا اس سے کون ایکسپوز ہوا اور کون جھوٹا ثابت ہوا،یہ کہنے کی ضرورت نہیں،اِس تمام قضیئے میں سب زیادہ تعجب خیز امر یہ ہے کہ ایک امریکی شہری کا نام ای سی ایل لسٹ میں ڈالنے کی دھمکی وہ حکومت دے رہی ہے جس نے خود تین بے گناہ پاکستانیوں کے قاتل امریکی جاسوس ریمنڈڈیوس کو بڑے اہتمام کے ساتھ امریکہ کے حوالے کیا تھا،آج وزیر اعظم صاحب منصور اعجاز کو کسی وائسرائے سے تشبیہ د یتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب وائسرائے کا دور تو ختم ہو گیا،لیکن وہ کیا یہ نہیں جانتے کہ ان کی حکومت کے نزدیک امریکہ کا ایک معمولی ایلچی بھی کسی وائسرائے سے کم نہیں ہے،اپنی سیکورٹی پر اربوں روپئے خرچ کرنے والے وزیر اعظم صاحب آج منصور اعجاز کی سیکورٹی پر رقم خرچ کرنے کو اِس لیے تیار نہیں کہ اِس سے ان کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ لیکن کیاانہیں معلوم نہیں کہ منصور اعجاز سپریم کورٹ کے حکم کے تحت اپنا جواب داخل کرانے کیلئے اسلام آباد آرہا تھا،دوسرے یہ کہ حکومت میمو کو کاغذ کا ایک ٹکڑا سمجھتی ہے تو پھر اِس معاملے کو اِس قدر غیرمعمولی اہمیت دینا کیا معنی رکھتا ہے،اگر منصور اعجاز کو خطرہ نہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حسین حقانی کو کیا خطرات لاحق ہیں جو انہیں وزیر اعظم ہاس کے اندر خصوصی سکیورٹی میں رکھا گیا ہے،کیوں ان کی آزادانہ نقل و حرکت محدود کی گئی ہے اور کیوں وہ اپنی سلامتی کے خدشات کا بار بار ذکر کرتے ہیں،کیا یہ عدالتی کام میں مداخلت نہیں کہ جو شخص کمیشن کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہو اور جس کی گواہی کے بغیر تحقیقات آگے نہ بڑھ سکیں اسے گرفتاری اور واپس نہ جانے کی دھمکیاں دی جائیں،جس وزیر داخلہ نے دھمکی آمیز بیانات کے ذریعے منصور اعجاز کو پاکستان آنے سے روکنے کی شعوری کوشش کی،حکومت نے جان بوجھ کر منصور اعجاز کی سیکورٹی کی ذمہ داری اسی کی وزارت داخلہ کے حوالے کردی،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت گرانے کے ایک کردار کو ٹارگٹ بنائے بیٹھے وزیر داخلہ کیا یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ نواز شریف کی دو حکومتیں گرانے میں کس کس نے سازش کی تھی؟کیا وزیر داخلہ صاحب قومی میڈیا میں باربار اٹھائے جانے والے اِس سوال کا جواب دینا پسند کریں گے کہ جس وقت محترمہ پر لیاقت باغ میں جان لیوا حملہ ہوا تھا تو دھماکے کے بعد ان کی گاڑی نے کہاں جاکر بریک لگائے تھے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ منصور اعجاز اگر جھوٹا ہے تو اسے ضرور بے نقاب ہونے دینا چاہیے،چنانچہ اِس تناظر میں منصور اعجاز کا یہ عذر معقول ہے کہ اسے وزارت داخلہ کی سیکورٹی پر اعتماد نہیں ہے۔ جہاں تک میمو اسکینڈل کی حقیقت کا تعلق ہے،تو ایک بات بالکل واضح ہے کہ منصور اعجاز اِس میمو کا ایک اہم کردار ہے اور میمو گیٹ اسکینڈل کے ثبوت کا سب سے بڑا انحصار اس کی گواہی پر ہے،اس کے پاس کیا اور کیسے ثبوت ہیں اِس کا علم تو اسی وقت ہوگا،جب یہ ثبوت سامنے آئیں گے،لیکن ایک بات طے ہے کہ منصور اعجاز بیان دینے اور تحقیقات میں معاونت و ثبوت فراہم کرنے سے اب بھی انکاری نہیں ہے،دوسری طرف اِس میمو کی زد میں صدر کے قریبی ساتھی اورحکومت کے سابق سفیر حسین حقانی ہیں، اِس میمو کی ایک مدعی عسکری قیادت بھی ہے،چونکہ اب یہ معاملہ عدالت عظمی میں ہے،ایسے میں ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ حکومت پاکستان حقائق کی تلاش اور الزامات کی جانچ پڑتال،صحیح اور غلط کے تعین کیلئے خود منصور اعجاز کو نہ صرف طلب کرتی بلکہ اس کو ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کرتی،چونکہ الزامات کا کھرا صرف حسین حقانی تک ہی نہیں بلکہ بہت آگے تک جاتاہے،اِس لیے کوشش یہ ہونی چاہیے تھی کہ اِس سازش تک پہنچا جاتاجو ملک کی سلامتی اور مسلح افواج کے خلاف کی جارہی تھی اور جس کے تحت فوجی خود مختاری کو دا پر لگانے کے وعدے وعید کئے جارہے تھے،تاکہ سچ اور جھوٹ کا تعین ہوسکتا اور یہ معلوم ہوسکتا کہ اِس سازش کے پیچھے کون کون سے عناصر شامل ہیں،سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کا بھی یہی مقصد تھا،مگر حیرت انگیز امر یہ ہے کہ حکومت کو اِن درخواستوں کا دائر ہونا بھی پسند نہیں،وہ اِس حوالے سے ہونے والی تحقیقات سے بھی برہم ہے،حکومتی بے چینی اور اضطراب ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی طور یہ نہیں چاہتی کہ یہ تحقیقات آگے بڑھے اور منصور اعجاز پاکستان آئے،جبکہ مناسب تو یہ تھا کہ اِس معاملے میں اگر حکومت کے ہاتھ صاف ہیں،تو اسے منصور اعجاز کی آمد کی پر خوشدلی کا اظہار کرتے ہوئے فول پروف سکیورٹی کے انتظامات کرنے چاہئے تھے،تاکہ اصل حقائق قوم کے سامنے آسکتے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا۔ مگر حکومتی ارکان کا طنز، بے چینی اور حد درجے بڑھا ہوا اضطراب ظاہر کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں،بہت کچھ کالا ہے،جبکہ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ میمو کیس میں شروع دن سے ہی حکومتی طرز عمل نے بہت سے سوالات کھڑے کردیئے ہیں اور اس کے گرد شکوک و شبہات کا دائرہ بنا دیا ہے،رہی سہی کسر اِس معاملے میں حکومتی ذمہ داران کے بیانات اورروڑے اٹکانے کے طرز عمل نے پوری کردی ہے،سوال یہ ہے کہ آخر اسے یہ خوف کیوں لاحق ہے کہ یہ سب کچھ اس کے خلاف ہو رہا ہے،منصور اعجاز نے جو کچھ کہا اگر وہ اس کا ثبوت دینے کیلئے پاکستان آکر میمو کمیشن میں بیان دینا چاہتا ہے تو اس سے حکومت اتنی خائف کیوں ہے،کیوں نہیں چاہتی کہ منصور اعجاز پاکستان آئے اور اپنا بیان اور ثبوت کمیشن کے سامنے پیش کرے،کیوں بار بار وزیر داخلہ یہ دھمکی آمیز بیان دہراتے رہے کہ ہم اس سے پوچھیں گے کہ بینظیر حکومت کس کے کہنے پر گرائی تھی،چنانچہ منصور اعجاز کے وکیل کی توجہ دلانے پراِس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے میمو کمشن کے سربراہ جسٹس فائز عیسی نے اٹارنی جنرل انوارالحق سے کہا ہے کہ آپ بیان حلفی دے چکے ہیں کہ منصور اعجاز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی،پھر وزیراعظم اور وزیر داخلہ کیوں بیانات دے رہے ہیں،انہوں نے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کو طلب کر کے وضاحت بھی مانگی،اِس موقع پر جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ آپ کمیشن کیلئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں اور دھمکی آمیز بیانات دے رہے ہیں،جس پر وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ منصور اعجاز کا نام ای سی ایل پر نہیں ڈالا جائے گا اور انہیں فول پروف سکیورٹی مہیا کی جائے گی،وفاقی وزیر داخلہ نے منصور اعجاز کو گرفتار نہ کرنے سے متعلق بیان حلفی بھی کمیشن میں جمع کرا دیا ہے،چنانچہ میمو کمیشن نے منصور اعجاز کو 9 فروری کو پیش ہونے کیلئے آخری مہلت دیتے ہوئے اپنے حکم میں کہا ہے کہ حکومت پاکستان منصور اعجاز کی پاکستان آمد،قیام خفیہ رکھنے اور ان کی بحفاظت واپسی یقینی بنائے،حکم میں مزید کہا گیا ہے کہ سیکرٹری کمیشن منصور اعجاز کے آنے کی صورت میں ان کے طیارے تک جائیں،انہیں مسلسل اسکارٹ کر کے کمیشن تک لائیں اور ضروری دستاویز طیارے سے ہی اپنی حفاظت میں لے لیں،اِس حوالے سے کمیشن نے ایف آئی اے، سی اے اے اور دیگر متعلقہ اداروں کو بھی ہدایات جاری کر دی ہیں، کمیشن نے یہ حکم بھی جاری کیا ہے کہ میمو کمیشن میں پیش ہونے والے وکلا اخبار نویسوں سے بات چیت نہ کریں،کمیشن کا کہنا ہے کہ منصور اعجاز براہ راست کمیشن کے سامنے پیش ہو سکتے ہیں،ہوٹل میں بیان ریکارڈ کرا سکتے ہیں، چاہیں تو نجی سکیورٹی حاصل کر سکتے ہیں جس سے حکومت کا کوئی تعلق نہ ہو، اب دیکھنا یہ ہے کہ میمو کمیشن کے اقدامات اور حکومتی یقین دہانیوں کے بعد منصور اعجاز کیا پاکستان آکر کمیشن کے سامنے اپنا بیان قلمبند کراتے ہیں اور کس طرح قومی سلامتی سے وابستہ یہ اہم معاملہ اپنے منطقی انجام تک پہنچاتا ہے،ہمارا ماننا ہے کہ اگر میمو کاغذ کا ٹکڑا اور اتنا ہی غیر اہم ہے کہ اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے،تو اِس کا تعین خود کرنے کے بجائے عدالتی کمیشن اور عدالت عظمی کو کرنے دیا جائے،فیصلے سے قبل اِس معاملے پر کسی کو جھوٹا اور ایکسپوز قرار دینا قطعا درست نہیں ہے۔ تحریر : محمد احمد ترازی