میڈیکل کی ڈگری لڑکیوں کی شادی کیلیے اسٹیٹس سمبل بن گئی۔ قوم کے لاکھوں روپے اور پروفیشنل تعلیمی اداروں میں موجود محدود سیٹیوں کے ضیاع سے مستقبل میں طب کے شعبہ میں بحرانی کیفیت کا خدشہ منڈلانے لگا۔ رواں سال پنجاب کے سرکاری میڈیکل کالجز میں ہونے والے داخلوں میں لڑکیوں کی تعداد تریسٹھ فیصد، جبکہ لڑکوں کی تعداد صرف سینتس فیصد ہے ۔لڑکیاں میڈیکل کی ڈگری تو حاصل کر لیتی ہیں لیکن ڈاکٹر بننے کے بعد عملی طور پر خدمات سرانجام نہیں دے پاتیں ۔ اور شعبے کو چھوڑ دیتی ہیں۔
میڈیکل کالجز کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے صدر کا کہنا ہے کہ اب صحت کا شعبہ صوبوں کے پاس آچکا ہے اور یہ وقت کی ضرورت ہے کہ اس پر قانون سازی کی جائے۔ شعبہ چھوڑ دینے والی لیڈی ڈاکٹرز کے بارے عام تاثر ہے کہ وہ میڈیکل کی ڈگری کو شادی کے لیے بطور اسٹیٹس سیمبل استعمال کرتی ہیں۔
بعض حلقے اس مسئلے کے حل کیلئے میڈیکل میں داخلے کیلئے کوٹہ سسٹم کو ناگزیر قرار دیتے ہیں ۔ رہے سہے محکمہ صحت کو اگر بچانا ہے تو حکومت کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ جن طالبات پر عوام کے ٹیکس کے لاکھوں روپے لگائے جاتے ہیں وہ بطور ڈاکٹر ان کی خدمت بھی کریں۔