مسلمان کا اچھی، بری تقدیر پر یقین رکھنا اور ہر اچھے اور برے وقت میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنی پیشانی خالق کائنات کے سامنے سجدوں میں جھکائے رکھنے کواس کے سچے مسلمان ہونے کی دلیل کہا جا سکتا ہے ۔صحابہ اکرام جب تقدیر کے معاملے میں جھگڑتے تو سرکار دوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے بہت خفا ہوجاتے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے ۔حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم مسئلہ تقدیر میں جھگڑ رہے تھے ”توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلال میں تشریف لے آئے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا گویا کہ رخساروں میں انار کے دانے نچوڑدئے گیے ہوں ”پھر ارشاد فرمایا کیا تمہیں اس کا حکم دیا گیا ہے ”یامیں اسی کے ساتھ تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں ”تم سے پہلے لوگوں نے جب اس مسئلے میں جھگڑے کیے توہلاک ہی ہوگئے ”میں تم پر لازم کرتا ہوں’میں تم پر لازم کرتا ہوں کہ اس مسئلے میں جھگڑا مت کرو::تقدیر جیسی بھی ہو تقدیر بنانے اور بدلنے کی قدرت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔اس لیے ہمیں تقدیرکو دوش دینے کی بجائے اپنے اعمال درست کرنے چاہیے ۔موجودہ دور میں جب ہم ایک ہی وقت میں بہت سی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔
PakiBlast
جن میں سب سے بڑی مشکل ملک میں پھیلی ہوئی دہشتگردی ہے ۔بے شک دہشتگردی کا یہ تحفہ ہمیں امریکی جنگ میں حصہ دار بننے کی وجہ سے ملا ہے ۔پہلی بات تو یہ تھی کہ پاکستان کو اس جنگ میںحصہ لینا ہی نہیں چاہیے تھا ۔ لیکن اب اور وقت ضائع کیے بغیر اس جنگ سے باہر نکل آناچاہیے ۔وہ اس لیے کہ تاریخ گواہ ہے جنگیں کبھی بھی کسی بھی مسئلے کاحل نہیں بنیں، بلکہ جنگوں میں اورزیادہ مسائل جنم لیتے ہیں ۔جس کی جیتی جاگتی مثال اس وقت آج ہمارے آنگن میں پھیلی دہشتگردی ہے ۔اور اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ ہم لوگ دہشتگردی کا نشانہ بننے والے اپنے بہن بھایئوں کی کوئی مدد کرنے کی بجائے ان کی جیبوں سے ان کے پرس ”کلائیوں سے ان گھڑیاں’چوڑیاں اور دیگر قیمتی چیزیں چوری کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔میرے نزدیک جو لوگ دہشتگردی کی واردات کرتے ہیں اور جو لوگ زخمی انسانوں کی مدد کرنے کی بجائے چوریاں کرتے ہیں ۔ان میں کوئی خاص فرق نہیں ہے ۔میرے خیال میں دونوں طرف کے لوگ کسی دوسرے سے نہیں اپنے آپ سے دشمنی کررہے ہیں ۔ حضرت واصف علی واصف صاحب کا پنجابی شعر پیش خدمت ہے ۔
میرے سر تے امبر ڈگیا ،میں تارے چن دی جاں میں اپنے آپ نوں ڈنگیا ،میں سپاں دی وی ماں
ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ شعور وعقل کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لانا ہوں گیں ۔سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے اپنی اصلاح کرنا ہوگی کیونکہ کسی دوسرے کی نسبت انسان اپنے آپ کو زیادہ قریب سے جانتا ہے اس لیے اگر ہم خود اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کریں تو کامیابی کے امکان بہت زیادہ ہونگے ۔ زاویہ نگا ہ بدلنے سے منظر بدل جایا کرتے ہیں۔اسی طرح طرز فکر میں تبدیلی سے زندگیاں بدل جایا کرتیں ہیں ۔شعور انسانی جیسے جیسے بیداری کی منازل طے کرتا ہے ”زندگی کی راہیں آسان ہو تی چلی جاتی ہیں ۔مثبت طرز فکر ہمیشہ امن ترقی کی راہیں کھولتا ہے۔جولوگ مسائل میں الجھے بغیر دستیاب وسائل کا بہتر طریقے سے استعمال سیکھ لیتے ہیںزندگی کی راہیں ان کے لیے آسان ہوجایا کرتی ہیں ۔
اگر غور سے دیکھا جائے تودنیا میں ہر شے کچھ بنیادی اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے ۔انسان چاہے کسی رنگ ونسل سے تعلق رکھتا ہو۔کوئی سی بھی زبان بولتا ہو۔وہ معاشرے کا اہم حصہ ہوتا ہے ۔انسانی اکائیوں کے مجموعہ کو معاشرہ کہتے ہیں ۔انسانی معاشرہ کو بھی کچھ ایسے اجزاء کا مجموعہ کہا جاسکتا ہے ۔جس میں اگر تمام اجزاء اپنا اپنا کام خوش اسلوبی سے سرانجام دیں تو معاشرے کی گاڑی بڑی کامیابی سے بہتری کے سفر میں رواں دواں رہتی اور کامیابی کی بہت سی منزلیںباآسانی طے کرتی ہے۔آج پاکستان میں بے پناہ قدرتی وسائل دستیاب ہونے کے باوجود پاکستانی عوام فاقہ کشی پر مجبور ہے ۔وسائل سے مالامال پاکستان میں 80 فیصد سے زیادہ لوگ انتہائی غربت کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں ۔
ایسا کیوں ہے ؟کیا ہم نے آزادی کے 65 برس گزار کر بھی اپنے وسائل کوصحیح طرح سے استعمال کرنا نہیں سیکھا ؟کیا پاکستانی عوام آج بھی با شعور نہیں ہے؟کیا ہمیں آج اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے مثبت طرز فکراپنانے کی ضرورت نہیں ہے ؟کیا ہم دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑانے کی بجائے اپنا اپنا کام بہتر طریقے سے سرانجام نہیں دے سکتے ؟میرے عزیز ہم وطنوں ایسے اور بھی بہت سوالات ہیں ۔جو ہمیں خود سے کرنے ہیں نہ کہ کسی دوسرے سے ۔مثال کے طور پر ملک میں غربت میں کمی کیسے ہوگی؟اس سوال سے ہماری قومی ترقی جڑی ہوئی ہے ۔اس لیے یہ سوال بڑی زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔قوموں کے خوش حال مستقبل کا بچت کے ساتھ بہت گہراتعلق ہوتا ہے ۔سمجھدارلوگ اپنا پیٹ کاٹ کر کچھ نہ کچھ وسائل زندگی میں آنے والے برے وقتوں کے لیے جمع رکھتے ہیں ۔تاکہ مشکل وقت میں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہ پڑے ۔
pakistan
غریبوں کے لیے مکان خریدنا ”کسی بیماری کی صورت میں علاج معالج یا بچوں کی شادیاں کرنا دنیا کے مشکل ترین کام ہیں ۔اس لیے غریب لوگ بچوں کے پیدا ہوتے ہی بچوں کے بہتر مستقبل ”تعلیم وتربیت کے لیے بچت کرنا شروع کردیتے ہیں ۔اگر دیکھا جائے تو یہ بھی ایک مثبت طرز فکر ہے ۔اگر ہم بحیثیت قوم بچت کو اپنا شعار بناتے اور مثبت طرز فکر اپناتے تو یقیناآج ہمیں کمرتوڑمہنگائی”بدترین کرپشن”آسمان کو چھوتی ہوئی بدامنی معاشرے میں بڑھتی ہوئی ناانصافی،اقربای پروری ،’تیزرفتاری سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری اورلوڈشیڈنگ کے درد ناک عذاب کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔اگر پاکستانی معاشرے کے تمام اجزاء اپنا اپناکام صحیح طریقے سے کرتے توآج ہم بھی دنیامیں ایک مہذب اور باوقارقوم کی حیثیت سے سراٹھاکرزندگی گزار رہے ہوتے ۔
لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا اور آج ملک میں فیکٹریاں اور کارخانوں کا پہیہ جام ہوچکا ہے ۔بے روزگاری اس قدر بڑھ چکی ہے کہ غریب کا چولہا ٹھنڈا ہوچکا ہے ۔بے بسی کے عالم میں بے روزگاری اور تنگ دستی سے مجبور لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہورہے ہیں ۔اور اپنے ہی معصوم بچوں کو بھوک سے تڑپتا دیکھنے کی بجائے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو موت کے سپرد کررہے ہیں ۔حالات اس قدر خراب ہونے کے باوجود بھی ہم در پیش مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔ایک دوسرے پر الزامات کی چھریاں چلانے کے سوا ہمیں کوئی کام نہیں آتا۔حکمران عوام کو اور عوام حکمرانوں کو پربرا بھلاکہہ کروقت گزار رہے ہیں ۔کسی معاشرے میں حکمران طبقہ اگر ایمانداری اور نیک نیتی سے اپنے فرائض سرانجام دے تو عوام کو مجبورااپنے معاملات ٹھیک کرنے پڑتے ہیں ۔لیکن اگر حکمران ہی جھوٹ اور ٹال مٹول کی پالیسی پرعمل پیرا ہوجائیں اور عوام کو روٹی کے لالے پڑے ہوں تو پھر مثبت طرزفکر تو دور کی بات ہے مثبت سوچ بھی انسانی ذہن کے قریب سے نہیں گزرتی ۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم کائنات کی بہترین قوم یعنی مسلمان اور آزاد پاکستان کے باسی ہو کر بھی ذلت وروسوائی کی دلدل میں روز بہ روز دھنستے چلے جارہے ہیں ۔آج ہمیں یعنی عوام کو حکمرانواں کو برا بھلا کہنے کی بجائے اپنے اعمال درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔جب تک عوام خود کرپشن کرنا نہیں چھوڑتی تب تک ممکن ہی نہیں کہ حکمران کرپشن نہ کریں ۔میرے عزیز ہم وطنوںاگر آج ہم نیک اور پرہیزگاروں کو بھی اپناحکمران چن لیںلیکن خود کو تبدیل نہ کریں تو نیک اور پرہیزگار لوگ بھی حکومت میں آنے کے بعد بے ایمان اور کرپٹ ہوجائیں گے ،بالکل اس مسلمان ریاست کی طرح جس کے حکمران جب عوام پر ظلم کرتے تو عوام اللہ تعالیٰ سے کہتی کہ یا اللہ حکمران ظالم بن گیا ہے ۔یااللہ اس ظالم حکمران کو بدل کرہمیں نیک اور عوام کا درد رکھنے والا حکمران عطا فرما ۔قوم جب بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی وہ قبول ہوتی اور ان کا بادشاہ اگلا دن آنے سے پہلے ہی مرجاتا اوراس طرح عوام کو نیا حکمران مل جا تا۔ایک موقع ایسا آیا جب حکمران خاندان کے سب ولی عہد اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے ۔اب قوم کو ریاست کے معاملات چلانے کے لیے ایک صاحب علم شخص کی ضرورت محسوس ہوئی اور عوام نے ریاست کے سب سے بڑے عالم دین کو ریاست کا بادشاہ مقرر کردیا ۔عالم دین یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر اس نے عوام پر ظلم کیاتو وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گی جس کے نتیجے میں اس کی موت لازم ہوجائے گی ۔اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ حکومت کے نشے میں حکمران کا مست ہونا فطری بات ہے ۔
اس نے ہمسایہ ریاست جو کہ غیر مسلم تھی سور کی کھال کے مشکیزے بنوائے اور اپنی ریاست کے سب پانی بھرنے والوں کو بلا کر ان سے پرانے مشکیزے واپس لے کر ان کو سور کی کھال کے بنے ہوئے نئے مشکیزے دے دیے اور کچھ عرصہ تک بڑی ایمانداری اور نیک نیتی سے اپنے فرائض سرانجام دیتا رہا ۔اور پھر جب اس نے محسوس کیا کہ عوام کے رگوں میں حرام سرایت کرچکا ہے تو ان عوام پر ظلم ڈھانے شروع کردیے ۔جب بادشاہ کے ظلم حد سے بڑے تو عوام نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنا شروع کردیں لیکن قوم انجانے میں ایک عرصے سے سور کی کھال کی بنی مشکیزے کے ذریعے بھرا پانی پی رہی تھی جو کہ اسلام میں حرام ہے ۔اس لیے اس بار قوم کی دعائیں نہ قبول ہوئیں ۔اس ساری کہانی کو بیان کرنے کا مقصدیہ ہے کہ اگر ایک مسلمان قوم انجانے میں حرام کھاتی ہے جسکا اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے تواس کی دعائیں بارگاہ الہیٰ میں رد ہوجاتیں ہیں ۔توپھر جان بوجھ کرحرام کھانے والوں کی دعائیں کس طرح قبول ہوسکتی ہیں ۔آج ہمیں اپنے گریبان میں جھاکنے کی ضرورت ہے نہ کہ دوسروں کے۔ خود سے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم حرام تو نہیں کھا رہے ۔اور اگرخود سے یہ جواب ملے کہ ہاں ہم حرام کھارہے ہیں تو پھرمزید وقت ضایع کیے بغیر ہمیں اللہ تعالیٰ سے مافی مانگنے اور سچے دل سے توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہلال و حرام کی تمیز کرنے کے ساتھ ساتھ آج ہمیں دوسروں کو برا کہنا چھوڑ کر مثبت طرزفکر اپناتے ہوئے اپنی اپنی اصلاح کرنے ضرورت ہے ۔تاکہ ہم بھی خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان اورخوبصورت مسلمان معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرسکیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ راہ حق پر چلنے کی ہمت عطا کرے ۔آمین