اسلام آباد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے کے بعد پاکستان نے اپنے ہاں بالخصوص وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ایک بھرپور فوجی مہم شروع کی مگر اس کے ردعمل میں عسکریت پسندوں نے بھی ریاستی و شہری اہداف کے خلاف دہشت گرد حملوں اور خودکش بم دھماکوں کا نہ رکنے والے سلسلہ شروع کردیا۔
سرکاری اندازوں کے مطابق انسداد دہشت گردی کی اس مہم میں اب تک چالیس ہزار سے زائد پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ گنوا بیٹھے ہیں جبکہ قومی معیشت کو بھی تقریبا 80 ارب ڈالر کا بظاہر ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
غیر جانبدار مبصرین کے جائزوں کے مطابق گزشتہ دس سالوں کے دوران شمال سے جنوب تک پاکستان کا 35 فیصد حصہ کسی نہ کسی شکل میں سلامتی کے بحران سے دوچار ہوا ہے جو زیادہ تر دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے کا ردعمل ہے۔
دہشت گردی کا خلاف جنگ نے سب سے زیادہ فاٹا کے علاقوں کو متاثر کیا جہاں اس وقت بھی پاکستانی فوج کالعدم تحریک طالبان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ خاص طور پر شمالی وزیرستان میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف ڈرون طیاروں سے مبینہ امریکی میزائل حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پارلیمان میں اس قبائلی علاقے کی نمائندگی کرنے والے کامران خان وزیر نے گفتگو میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ قبائلیوں کی زندگی پر گیارہ سال سے جاری اس جنگ کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
پاکستانی فوج قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے