ابوظبی میں بسنے والے شعرو سخن کے دلدادوں کیلئے یہ بات انتہائی باعثِ اطمنان ہے کہ ڈاکٹر صباحت عا صم واسطی جیسی ادب نواز شخصیت ابو ظبی میں سکونت پذیر ہے ۔ان کی موجودگی اس بات کی ضمانت ہے کہ شعرو سخن کی محفلیں سجتی اور برپا ہو تی رہیں گی ادب کے نام پر ڈاکٹر صباحت عا صم واسطی کا دل ایسے دھڑکنے لگتا ہے جیسے ادب ان کی روح میںسرائت کر چکا ہو تبھی تو و ہ ا دبی محفلو ں کے انعقاد میں ہمہ وقت پیش پیش رہتے ہیں ان کا دولت کدہ ادب کے ایک نئے مرکز کی حیثیت حاصل کرتا جا رہا ہے جہاں پر شعرو سخن کی محفلوں کا انعقاد معمول کی بات بنتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر صباحت عا صم واسطی کو اگر چہ یو اے میں آئے ہوئے بہت قلیل عرصہ ہوا ہے لیکن انھوں نے اس قلیل مدت میں جسطرح سے شعرو سخن کے شجر کی آبیاری کی ہے اس نے انہیں ہر شخص کی نگاہ میں معتبر بنا دیا ہے۔ کمال یہ ہے کہ وہ اس کی نہ ستائش چاہتے ہیں اور نہ ہی اس کا کو ئی صلہ وہ ادب کے ایک سچے خدمت گار کی طرح اپنا فرض بڑی خوبصورتی سے نبھاتے چلے جاتے ہیں اور اہلِ دانش کی محبتیں سمیٹتے چلے جاتے ہیں۔ فرض سے لگن اور وابستگی کا یہ جذبہ انھیں اپنے عظیم باپ ڈاکٹر شوکت واسطی سے وراثت میں ملا ہے اور وہ اس کے اظہار میں ہمہ وقت پر بے تاب رہتے ہیں ۔ کمال یہ ہے کہ وہ ادبی نشستیں بر پا کرنے کے بعد داستانِ امیر حمزہ شروع نہیں کر دیتے بلکہ انتہائی مختصر اظہارِ خیال پر اکتفا کرتے ہوئے دوسرے شعرا کو بھر پور مواقع مہیا کرتے ہیں اور یوں ان کی سجائی گئی محفلیں محبتوں کی نقیب بن جاتی ہیں ۔خدا نے ڈاکٹر صباحت عا صم واسطی کو عزت، شہرت اور مرتبے سے نواز رکھا ہے لیکن ادب کی محبت کے جس جذبے نے ان کی شخصیت کو پارہ صفت بنا رکھا ہے یو اے ای کے اہلِ ذوق حلقے اس جذبے سے بے پناہ محبت کر تے ہیں۔
تیئس مارچ (یومِ پاکستان) کے حوالے سے ڈاکٹر صباحت عا صم واسطی نے واشنگٹن ڈی سی ا مریکہ سے آئی ہو ئی مشہور شاعرہ مونا شہاب کے اعزاز میں ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا۔ محترمہ موناشہاب جن کے دو شعری مجموعے صدا جب لوٹ کے آئی اور کوئی بات توہے شا ئع ہو چکے ہیں اس ادبی شام کی مہمانِ خصوصی تھیں جب کہ اس نشست کی صدارت معروف ادبی شخصیت سلیم خان کے حصے میں آئی اس شعری محفل میں متحدہ عرب امارات کے ممتاز شعرا، ظہورالاسلام جاوید، یعقوب تصور، مصدق لاکھانی، طارق حسین بٹ، آصف رشیداسجد، ابوعبیدہ، ڈاکٹرثروت زہرہ، سعدیہ روشن صدیقی، حسین سحر، سلمان احمد،صغیرجعفری، صبیحہ صبا، خالد نسیم، جاوید حیات، فقیر سائیں اور نعت گو شاعر مقصود احمد تبسم، سعید پسروری اور دیگرنے شرکت کی مونا شہاب کے اعزاز میں منعقدکی گئی۔
یہ محفل ایک بڑے مشاعرے کی شکل اختیار کر گئی اور رات گئے اختتام کو پہنچی۔ مشاعرے کی خاص بات اس میں معیاری کلام کے ساتھ ساتھ داد کا وہ عنصر تھا جس نے اس ادبی شام کو انتہائی یادگار بنا دیا۔ مہمان شاعرہ مونا شہاب کے ترنم اور پر وقار شخصیت نے مشاعرے کو دو آ تشہ بنا کر رکھ دیا تھا۔ ان کے خوبصورت کلام اور انداز پر حاضرین نے دل کھول کر داد دی اور انھیں یہ احساس دلا یا کہ وہ دیارِ غیر میں نہیں بلکہ اپنے چاہنے والوں کے درمیان موجود ہیں ادب کی کوئی سرحد نہیں ہو تی اور واقعی شعرو سخن کی یہ شام اس بات کی گواہ تھی کہ ادب سر حدوں سے ماورا ہو تا ہے۔ شعرو ادب کی اس شام امریکہ اور یو اے ای کے مکینوں میں زمان و مکان کی ساری سرحدیں سمٹ کر ادب اور محبت کی آغوش میں گم ہو گئی تھیں۔
مونا شہاب کی ترنم میں سجی ہوئی آواز فراق سے وصال تک کمال ہی کمال ہے اپنے رنگ بکھیر رہی تھی تو ماحول میں عشق و محبت کے سچے جذبوں کی ایک ایسی لہر محسوس ہو رہی تھی جس کا بھر پور عکس محفل میں موجود ہر شخص کے چہرتے پر دیکھا جا سکتا تھا۔کمال کا ترنم تھا، کمال کا انداز تھا، کمال کا نشہ تھا۔ اور اس کمال کا کمال یہ تھا کہ پر ہر فرد اسیرِکمال تھا۔
مہمان شا عرہ مونا شہاب نے اتنی خوبصورت محفل کے انعقاد پر ڈاکٹر صباحت عا صم واسطی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ اتنے مختصر وقت میں یو اے ای کے تمام شعرا کو اپنی رہائش گاہ پر اکٹھا کر لینا ڈاکٹر صباحت عا صم واسطی جیسی ہر دل عزیز شخصیت کا ہی کارنامہ ہو سکتا ہے۔ میرے لئے آج کی محفل کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ یو اے کے دوستوں کی بے لوث محبتیں میرا حقیقی سرمایہ ہیں جو مجھے مزید لکھنے کا حوصلہ عطا کرتی رہیں گی۔میں آج کی محفل میں شریک ہر شخص کی ذاتی طور پر ممنون ہوں کہ انھوں نے میرے اعزاز میں منعقدہ اس محفل میں شرکت کر کے جس طرح میری پذیرئی کی اسے میں کبھی بھی فراموش نہیں کر سکوں گی۔ تقریب کاآغازتلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا۔ نظامت کے فرائض معروف شاعر ظہورالاسلام جاویدنے بخوبی انجام دیئے۔ ظہورالاسلام جاوید کی شخصیت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ یو اے ای میں شعرو سخن کی ساری محفلوں کے روحِ رواں ہوتے ہیں ۔ انھوں نے شعرو سخن سے اپنی سچی لگن، محبت اور خلوص سے سجائی جانے والی تمام تقریبات کو ایک لڑی میں پرو رکھا ہے جہاں پر شعرو سخن کے دلدادہ اپنے ذوق کی پیاس بجھانے کے لئے کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ شعری نشست میں پیش کئے گئے کلام میں سے چندمنتخب اشعارقارئین کے ذوق کی خا طر پیشِ خدمت ہیں تاکہ وہ بھی اس ادبی نشست کی لطافتوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔
(ظہورالاسلام جاوید) سروں کی فصل کٹنے کا یہ موسم تو نہیں لیکن سروں کی فصل کٹنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا۔
(ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی ) وہ یوں ہواکے میرے ہاتھ لگ گیا سورج سیاہ شب میں ستارہ شکار کرتے ہوئے۔
(یعقوب تصور) کشادہ کچھ توبہت میری آستیں بھی ہے یہ اور بات یہ سانپوں کی سرزمیں بھی ہے
( ڈاکٹر ثروت زہرا) پھرآس دے کے آج کوکل کر دیا گیا ہونٹوں کے بیچ بات کوشل کر دیا گیا
(طارق حسین بٹ) صدائے حرفِ تمناہوں مجھے مٹایاجائیگا پھراس کی بزمِ نازسے مجھے اٹھایا جائیگا
(صبیحہ صبا) چاہے جتناطویل ہو جائے عارضی ہر پڑاؤ ہوتا ہے
(صغیر احمد جعفری ) میں سیدھا ہوں سادہ ہوں لیکن زمانے تری دل لگی کو میں پہچانتا ہوں
(سعید پسروری) قدم قدم پہ پڑھو لاالہ الا اللہ نجانے کب تنِ خاکی سے جان نکل جائے
(حسین سحر) میں لہلاتی شاخ کوسمجھاتھازندگی پتا گرا تو درسِ فنا دے گیا مجھے
(مصدق لاکھانی) رسی پہ چل رہاتھاتوازن بچاکے میں پچھلے قدم پہ خوش تھا توا گلے کا ڈر بھی تھا
(مقصود احمد تبسم) یہ ہیں معراجِ محبت کے اشارے شائد ہم نے مکے میں دیکھے ہیں مدینے ہی کے خواب
(فقیر سائیں) جہالتیں بھی رہی ہیں اساسِ یکجائی ہر اتفاق میں برکت نہیں ہوا کرتی
(جاوید حیات) دل کی ہستی پہ اگر وقت کی تاثیر لکھوں دن کو خنجر لکھوں اور رات کو شمشیر لکھوں
(سلمان احمد خان) آج پھر دوستوں کو یاد کیا آج پھر یاد آئے ہیں پتھر
(ابوعبیدہ اعظمی ) حصول چاند میں تم گھر کی شمع نہ بجھا دینا فلک کی آرزو میں یہ زمیں بھی مت گنوا دینا
(آصف رشید اسجد) میں تیری فکر سے آزاد ہوا جاتا ہوں تو میسر نہ ہوا کر مجھے آسانی سے
(خالد نسیم ) اللہ اللہ اب چمن میں ایک بھی تنکا نہیں اپنے پرنوچے ہیں میں نے آشیانے کے لئے
(مہمان شاعرہ مونا شہاب) صدا جب لوٹ کے آئی تو جانا ہمارے درمیاں دیوار بھی ہے
جب تک میری اس سے شناسائی نہیں تھی اس طرح سے گھرگھرمیری رسوائی نہیں تھی
پہلے بھی بہت دھوپ پڑی تھی میرے آنگن میں اس دل کی کلی یوں کبھی مرجھائی نہیں تھی
سچ مچ کوئی آے اتھا دریچے پہ گئی شب مجھ کو یہ یقیں ہے کہ وہ پروا ئی نہیں تھی
مجبور ہوئی ترکِ محبت پہ میں ورنہ اس درجہ تو فطرت میری ہر جائی نہیں تھی
تم اپنے مسائل پہ ذرابات توکرتے اٹھ کہ چلے جاناکوئی دانائی نہیں تھی
ہجرت کا سبب لو میں تمہیں آج بتاؤں اس شہر میں میری کوئی سنوائی نہیں تھی
تقریب کے آغازمیں ظہور الاسلام جا ویدکے بڑے بھائی راحت الرحمن پرویز اور اطہر شاہ جیدی کے بڑے بھائی معروف مصنف ہارون پاشا جو چند روز پیشتر اس جہان فانی سے کوچ کر گئے کی مغفرت کے لیئے فاتحہ خوانی کی گئی۔