فرمان علی گھریلو زندگی سے بڑا تنگ تھا روز روز کی چخ چخ سے اسقدر دلبرداشتہ تھا کہ وہ سوچتا کہ خودکشی کر لے اسکی شادی شدہ زندگی میں کوئی دن بھی سکھ کا نہیں گزرا تھا۔ ہر روز ایک جھگڑا ہوتا تھا اور وہ سوچتا کہ کاش وہ شادی نہ کرتا اور ساری عمر کنوارا ہی رہتا۔ اسکی شادی کو ہوئے کچھ بہت زیادہ عرصہ بھی نہیں ہوا تھا بس یہی لگ بھگ پونے دو سال کا ہی عرصہ گزرا تھا۔ شادی کے تیسرے دن ہی پہلا جھگڑا کھڑا ہو گیا تھا اور وہ بھی اس بات پہ کہ اس نے سلامی کے پیسے خرچ کر دیے تھے جو اسکی بیوی نے مانگے تو اس نے بتایا کہ اس نے تو وہ خرچ کر دیے ہیں تو زاہدہ نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا لیکن بچت ہوئی کہ وہ بیڈ روم تک ہی محدود رہے۔ پھر تو جیسے روزانہ کا معمول ہی بن گیا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا کھڑا ہو جاتا تھا۔ کبھی وہ کسی محلے کی لڑکی سے ہنس کر بات کر لیتا تب جھگڑا کبھی کسی غریب کی مدد کر دیتا تب جھگڑا کبھی اپنی ماں کیلئے کچھ لے آتا تب جھگڑا۔ یہ فرمان علی کی زندگی کا نقشہ بن چکا تھا یوں تو وہ اچھا خاصہ کماتا تھا مگر بیوی کی خواہشوں اور فرمائشوں سے اکثر مہینے کے آخر میں تنگی کا شکار ہو جایا کرتا۔ اب تو اتنا تنگ ہو جاتا تھا کہ ماں کو بھی پیسے کم ہی دیا کرتا تھا۔ شادی کے چھ ماہ بعد ہی بیوی نے شور مچا دیا کہ وہ الگ رہے گی لہٰذا ماں باپ کے کہنے پہ ہی وہ الگ گھر لے کر رہنے لگا۔ یہاں بھی اسکا کوئی لمحہ سکون سے نہیں گزرتا تھا۔ زاہدہ کی شادی اپنی مرضی کیخلاف ہوئی تھی اور فرمان علی اسکو پہلے دن سے ہی برا لگا تھا وہ کبھی بھی اس سے ایڈجسٹ نہ کر پائی اور یہی غصہ تھا جو وہ شوہر پہ نکالتی تھی۔ ماں باپ سے بدلہ لینے کیلئے اس نے شوہر کو تنگ کر رکھا تھا۔ فرمان علی بھی شریف انسان تھا کبھی شکوہ شکایت اس نے اپنے سسرال والوں سے نہیں کی تھی۔ ہمیشہ اچھی طرح ملا کرتا تھا۔
Smiling man talking on telephone
زاہدہ کی گڈی آجکل بہت چڑھی ہوئی تھی کیونکہ ریاض اسکا پرانا عاشق اس سے دوبارہ آن ملا تھا۔ فرمان علی کے دفتر چلے جانے کیبعد وہ اکثر اس سے فون پر گھنٹوں باتیں کیا کرتا اور وہ بھی سارا سارا دن اس سے گپ شپ میں مصروف رہتی۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ نہ وہ کھانا پکاتی نہ صفائی ستھرائی کا خیال رکھتی اور فرمان علی بازار سے ہی اکثر کھانا لایا کرتا اور کھایا کرتا۔ ایک شام وہ گھر آیا تو کافی پریشان تھا۔ زاہدہ نے اکھڑے لہجے میں پوچھا کیا ہوا آج کیا موت پڑ گئی جو یوں منہ بنایا ہوا ہے۔ فرمان علی نے ایک حسرت بھری نگاہ اس پر ڈالی اور سوچا کبھی تو اچھے لفظ بول لیا کر مگر منہ سے کچھ نہ بولا۔ ایک لمبا سانس لیا اور گویا ہوا ڈاکٹر کے پاس گیا تھا۔ میرا بلڈ پریشر بہت ہائی ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر نے بازار کا کھانا منع کیا ہے اور نمک بھی کھانے سے منع کیا ہے۔ فرمان علی کے لہجے سے مایوسیت صاف ٹپک رہی تھی کہ جیسے اسے معلوم ہو کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے اس عورت کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی اور وہی ہوا۔ زاہدہ بولی تو اچھا ہے ناں گھر پر ہی پکا لیا کرو میری تو طبیعت ہی بڑی خراب رہتی ہے۔ کیا کروں مجھ سے نہیں پکتا کھانا وانا۔ فرمان علی کو پہلے ہی معلوم تھا کہ یہی جواب ملیگا۔ بس چپ کر کے سونے کیلئے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ وہ سوتا بھی دوسرے کمرے میں تھا کیونکہ اسکی بیوی کو رات کو نیند نہیں آتی تھی اگر وہ اس کیساتھ سویا ہوتا اسکا کہنا تھا کہ تم رات بھر اتنے زور سے خراٹے لیتے ہو کہ میں سو ہی نہیں سکتی۔
salt
زندگی کے دن اسی طرح گزرتے گئے اور وہ ہائی بلڈ پریشر کامریض بنتا چلا گیا۔ ایک دن جب وہ گھر آیا تو خلاف معمول اسے گھر سے کھانے کی خوشبو آئی۔ بڑی حیرانگی آنکھوں میں لیے اندر داخل ہوا اور بیوی سے پوچھا آج تم نے کھانا بنایا ہے۔ زاہدہ بولی ہاں اب میری طبیعت ٹھیک رہتی ہے اس لیے اب گھر میں ہی پکائوں گی۔ اس نے بڑی حیرانگی سے زاہدہ کیطرف دیکھا اور سوچا یااللہ چودہویں کا چاند آج کدھر سے نکل آیا۔ زاہدہ نے زبردستی اسے کھانا کھلایا کافی مزیدار کھانا بنایا تھا۔ اس نے اور فرمان علی کھانا کھا کر آیا تھا اسکے باوجود اور کھانا کھا لیا۔ اب روزانہ ہی زاہدہ بہت اچھا کھانا اسکے لیے تیار کیا کرتی تھی اور خوب مصالحے ڈال ڈال کر خوش ذائقہ کھانے بناتی تھی۔ فون کی گھنٹی بجی اور زاہدہ نے لپک کر فون اٹھایا۔ حسبِ معمول ریاض کا فون تھا۔ ریاض نے جھٹ سے پوچھا کیا بنا؟ روزانہ کافی کافی مقدار میں دے رہی ہوں اب اگر بہت زیادہ ڈالوں گی تو۔۔۔۔۔۔۔ تو اسے محسوس ہو جائیگا۔ تھوڑا صبر کر کچھ ہی دنوں کی بات ہے پھر معاملہ ہمارے ہاتھ میں ہی ہو گا۔ وہ سمجھانے کے انتظار میں بول رہی تھی۔ جان من اب اور زیادہ انتظار نہیں ہوتا جلدی کرو ایک دفعہ میں ہی سارا دیدو۔ ریاض بڑی بے صبری سے بولا، پاگل نہ بنو اسطرح تو سب کو پتہ چل جائیگا پھر دونوں گہری گہری باتیں کرنے لگے جو مسلسل پانچ چھ گھنٹے تک جاری رہیں اور زاہدہ مسلسل شرمائے جا رہی تھی۔ اتنے میں باہر دروازے پہ بیل ہوئی اور اس نے گھبرا کر جلدی جلدی کہا اب بند کرتی ہوں باہر کوئی آیا اور اس نے فون رکھ دیا اور جا کر دروازہ کھولا۔
man knocking on front door
باہر ایک شخص کھڑا تھا، زاہدہ بولی جی کون ہیں آپ؟ اوہ جی میرا نام راشد ہے مجھے مسز فرمان علی سے بات کرنی ہے اس شخص نے اپنا تعارف کروایا اور آنے کا مدعا بھی بیان کیا۔ زاہدہ بولی جی میں ہی ہوں مسز فرمان علی۔ وہ جی ایک اطلاع آپ کو دینی تھی۔ آپ کو ہم بہت ٹائم سے فون کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر فون بہت بزی تھا اس لیے مجھے خود آنا پڑا ” میں فرمان علی صاحب کے آفس میں کام کرتا ہوں ابھی چار گھنٹے پہلے انہیں برین ہیمرج ہو گیا تھا انہیں ہسپتال لے کر گئے تھے مگر ابھی اطلاع آئی ہے وہ جانبر نہیں ہو سکے اور انتقال کر گئے ہیں۔ راشد نے ایک ہی سانس میں ساری بات کہہ دی ۔ زاہدہ کے چہرے پر ایک رنگ سا آ کر گزر گیا اور اس نے دروازے کو تھام لیا اور پوچھا کون سے ہسپتال میں ہیں؟ وہ جی سنٹرل ہاسپٹل میں ہیں آپ انکو لانے کا بندوبست کریں۔ راشد بولا جی ٹھیک ہے زاہدہ نے جواب دیا اور دروازہ بند کر دیا اور بھاگ کر فون کیطرف لپکی اور جلدی جلدی ریاض کا نمبر ملانے لگی۔ ریاض نے فون اٹھایا اور ہیلو کی آواز آئی۔ زاہدہ کی آواز میں ایک لہر اور شوخی سی ابھر آئی اور چہکتی آواز میں بولی جانو! کام ہو گیا ہے فرمان صاحب اگلے جہاں سدھار گئے۔ریاض کی ایکدم چونکا دینے والی آواز سنائی دی کیا؟؟؟؟ زبردست یہ تو بہت جلدی ہو گیا کام۔ ڈارلنگ تم نے بھی کمال ہی کر دیا، لمبا کام اتنی جلدی کر دیا ویری گڈ اب کوئی بھی تمہیں میرا ہونے سے نہیں روک سکتا۔ ریاض کی آواز میں بھی ایک چہک سے ابھر آئی۔ نہیں جانو یہ میرا کام تو نہیں سارا کام تو اس نمک نے کیا ہے جو میں نے اسے اتنا کھلایا کہ وہ ٹیں ٹیں فش ہو گیا۔ زاہدہ چہکتے ہوئے بولی۔ سب کو اطلاع ہو گئی۔ زاہدہ نے بھی مگر مچھ کے آنسو بہائے۔ فرمان علی کی تدفین بھی ہو گئی۔ تیسرا، ساتواں، چالیسواں سب گزر گئے۔ عدت کے تین مہینے انہوں نے بہت مشکل سے گزارے اور ماں باپ کی مرضی سے زاہدہ اور ریاض کا نکاح ہو گیا۔ اب زاہدہ کے پانچ بچے ہیں اور سب ہی جوان ہو رہے ہیں۔ زاہدہ سمیت سب کو ہائی بلڈ پریشر کی بیماری ہے۔ سب ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں اور نمک سے مکمل پرہیز کرنا پڑتا ہے۔