وطن عزیز کے معرض وجود میں آتے ہی یہ سر زمین پاک عجیب و غریب سیاسی و معاشرتی صورتحال کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ہمارے قائدین جنہوں کی رہنمائی کی سرپرستی میں ہمیں یہ وطن عزیز ملا ان کے بعد کوئی رہنماء ایسا میسر نہ آیا آج آزادی حاصل کرنے کی چھ دہائیوں بعد بھی ہم اپنے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کر پا رہے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا ایمان کمزور پڑ چکا ہے۔ ہم میں وہ جذبہ وہ جوش جو وطن عزیز کو حاصل کرتے وقت ہمارے بزرگوں اور ہمارے قائدین میں تھا وہ آج بالکل بھی نظر نہیں آ رہا۔ ہم نے وطن عزیز کی بنیاد اسلام کے قوانین سے مرتب کی تھی مگر اس وقت اسلامی دنیا اور پاکستان انتہائی خطرناک اور نازک دور سے گزر رہے ہیں یہ سچ ہے کہ ہر مسلمان کا دل اس جزبے سے سرشار ہے کہ وہ اپنی سالمیت کی خاطر کچھ نہ کچھ کر گزرے گا۔
لیکن حققت یہ ہے کہ عالم اسلام میں اختلافات کی خلیج روز بروز گہری ہوتی جا رہی ہے۔ دینی حلقوں میں مذہبی اختلافات اور انتشار بڑھتا چلا جا رہا ہے بعض علماء ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ اچھالنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں سیاستدان اقتدار اور پانے مفاد کی خاطر ملی وقار اور مفاد کو دائو پر لگا دینا معمولی بات سمجھتے ہیں ان کی نظر میں اقتصادی اور معاشی مسائل معاشرتی اور سماجی میلانات کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ جبکہ بعض افراد ہماری نظریاتی بنیاد کو مسمار کرنے کیلئے ہر طرح کے جدید اسلحے سے لیس ہے۔ کبھی وہ قومیت کے نام پر مسلمان کو مسلمان سے لڑاتے ہیں اور کبھی ثقافت کے نام پر ایسے رسول، رواج اور عادات کو معاشرے میں رائج کرانا چاہتے ہیں۔
جس سے ہماری ثقافت اور معاشرے کی بنیاد متزلزل ہوجائے۔ اس سلسلے میں قران سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ اپنی بقاء ، سربلندی اور سرفرازی کیلئے ہمارے پاس صرف اور صرف ایک راستہ ہے کہ ہم اپنے مذہبی علاقائی اور سیاسی اختلافات کو ختم کر کے دشمنوں کے خلاف متحد ومتفق ہو کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اور ان کے عزائم اور ان کی سازشوں کو خاک میں ملا دیں جب ہمارا خدا ایک رسول ایک کتاب ایک اور کعبہ ایک تو ہمارے دل کیوں ایک نہیں ہو سکتے۔ اختلافات و انتشار کی اس خلیج کو بانٹنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ہم قرآن حکیم کو مشعل راہ بنائیں۔