آنے والا ہر دن ملک کو ایک نئے بحران سے دوچار کررہا ہے اور ہمارے سیاستدان گذشتہ ساڑھے چار سالوں سے آپس میں نورہ کُشتی کا عجب کھیل کھیل رہے ہیں موجود ہ حکمران اپنی سیاسی مدت جسے وہ آئینی مدت کہتے ہیں پوری ہونے کے زعم میں مبتلا ہیں ایسا لگتا ہے حکمران اپنی آئینی مدت کے ساتھ ساتھ ماضی کے تمام ریکارڈتوڑنے پر بضد ہیں چاہے وہ کرپشن کا ریکارڈ ہو حکومتی بد عنوانیوں کا ریکارڈ ہو یا پھر بیرونی قرضوں کا ریکارڈ ہو سارے ریکارڈ موجودہ حکمرانوں نے اسی دور میں توڑنے اور بنانے ہیں کیونکہ ایک ساتھ اتنے ریکارڈ بنانے پر عوام اِنھیں پھر یہ موقع دے یانہ دے ۔دوسری طرف نورہ کشتی کی چمپیئن حزبِ اختلاف میں بیٹھی مسلم لیگ ن بھی عوام کے مفادات کے حصول کو پسِ پشت ڈال کر صرف و صرف اپنے مفادات کے حصول کی پالیسی پر گامزن نظر آتی ہے۔
آج پاکستان جس مقام پر کھڑا ہے اسے یہاں تک پہنچانے میںحکمرانوں کے ساتھ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کا پورا پورا ہاتھ ہے میاں صاحب نے جمہوریت کی آڑمیں اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کا جو خواب دیکھا تھا وہ پورا ہوگا یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اس سارے معاملے میں میاں صاحب ملک وقوم کا بیڑا غرق کر وا بیٹھے ہیں جس کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے وہ سندھ میں بھی اسی طرزِ سیاست کو اپناتے ہوئے جمہوری دروازے کھٹکھٹانے کے بجائے انہی ذہنی آمروں کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں جن سے انکے مفاد وابستہ ہیں۔ میاں صاحب شایدوہ دور بھول گئے جب مشرف کی چَکا چوند کردینے والی طرزِ حکمرانی نے اُنھیں یہ کہنے پر مجبور کر دیا تھا کہ ماضی میں ہم سے غلطیا ں ہوئی ہیں اور اب ہم ان غلطیوں کو دہرائیں گے نہیں لیکن میاں صاحب تو سونامی خان کے لاہور والے ایک ہی دائو سے چاروں شانے چت ہوگئے اور واپس اسی طرزِ سیاست پر اتر آئے جس کی وجہ سے وہ جدہ جانے پر مجبور ہوئے تھے۔
میاں صاحب کو اچانک مشرف کے بنائے ہوئے کریکٹر اتنے پسند آنے لگے کہ وہ اپنی جماعت کے اصلی کریکٹروں کو پسِ پشت ڈالنے پر مجبور ہوگئے آخر کیوں میاں صاحب چوروں کو بھتہ خوروں کو لٹیروں کو وڈیروں کو جو کل تک اُنھیں تعصب بھری نظروں سے دیکھتے تھے آج وہ کیسے ان کے ہمنوا ہوگئے ۔پنجاب تقسیم کردینگے لیکن سندھ تقسیم نہیں ہونے دینگے کا نعرہ لگانے والے اب سندھ میں رہنے والی دو بڑی قوموں کے درمیان نفرت و عصبیت کا بیج بو کر انہیں تقسیم کرنے کی شازش کر رہے ہیں ملک میں صوبوں کے نام پر معصوم بھولی بھالی عوام کو بے وقوف بناکر حکومت کے ساتھ اپوزیشن کا ڈرامہ رچاکر نورہ کشتی کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔جب سرحد کا نام پختون خواں رکھاجانے لگا تومیاں صاحب نے اسکی مخالفت کی اور پھر بعد میں اپنی سیاسی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے اس میں خیبر کا لفظ ڈلواکر خیبر پختون خواں پر اتفاق کرلیا جس کے بعد وہا ں رہنے والی ہزارہ قوم میں احساس ِ محرومی نے شدت پکڑی اور ملک میں ایک اور لسانی اکائی نے جنم لیا ۔
Mian nawaz sharif
اس کے بعد سرائیکی صوبے کی سخت مخالفت کے باوجود میاں صاحب نے ایک بار پھر اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے اور اپنی سیاسی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے سرائیکی صوبے کے ساتھ بہاوالپور صوبہ کا بیج بو کر اس پر بھی اتفاق کر لیا ۔سرائیکیوں اور بہاوالپوریوں کا یہ مطالبہ تو شاید اب پورا ہوجائے اورممکن ہے بہت جلد خیبر پختون خواں میں ہزارہ قوم بھی اپنا مطالبہ منوالیں جوکہ بظاہر تو خوش آئند بات لگتی ہے لیکن ان دیرنہ مطالبوں کی تکمیل کے پیچھے جو طوفان کھڑا ہے اور صوبہ سندھ میں جو آتش فشاں پھٹنے جارہا ہے اسکا احساس شاید کسی کو نہیں بلکہ اس نازک اور اہم ایشو پر بھی ہر سیاستدان اپنی سیاست چمکانے میں آگے سے آگے نظر آتے ہیں۔
لیکن اب ان سیا سیت دانوں کو جان لینا چاہیئے وقت بدل چکا ہے لوگوں کی سوچ بدل چکی ہے اب نہ نوے کی دھائی والی سیا ست چل سکتی ہے نہ انداز۔ مشرف دور لوگوں کو بہت کچھ سیکھا گیاہے سمجھا گیا ہے بتاگیا ہے۔ اب عوام بار بار بے وقوف بنے کو تیا رنہیں لہذا مسلم لیگ ن سمیت پاکستان کی تمام سیاسی اور جمہوری جماعتوں کو اپنا طرزِ سیاست تبدیل کرنا ہوگا تمام قوموں کو ساتھ لیکر چلنا ہو گا اور انکے حقوق کا لحاظ رکھنا ہوگا ۔ اگر سیاستدانوں نے اسی طرح نورہ کشتی کی پرانی روش برقرار رکھی تو باری کا انتظار کرنے والے انتظار کرتے رہنگے اور انکی باری کبھی نہیں آئی گی کیونکہ پاکستان کے عوام ان نورہ پہلوانوں سے اب عاجز آچکے ہیں۔ تحریر: عمران احمد راجپوت