ایک مثل مشہور ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے اور یہ بھی سچ ہے کہ جھوٹ دیر تک قائم نہیں رہتا۔ جیسے ہی جھوٹ سے پردہ اُٹھتا ہے اور اصل حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے تو ایسی صورت میں جھوٹے کو نہ صرف شرمندگی اُٹھانا پڑتی ہے بلکہ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ ایک جھوٹ چھپانے کیلئے کئی جھوٹ بولنا پڑتے ہیں لیکن پھر بھی جھوٹ پکڑا جاتا ہے۔ گزشتہ سال دو مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کی طرف سے بھی کچھ ایسا ہی ڈرامہ رچایا گیا۔ اس ڈرامے کا ایک مقصد دُنیا پر یہ واضح کرنا تھا کہ امریکا بہادر نے اپنے سب سے بڑے دشمن اُسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگا دیا ہے، دوسرا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ القاعدہ اور طالبان کو شکست ہو چکی ہے اور اب امریکا فاتح کی حیثیت سے اس خطہ سے واپس جا رہا ہے، تیسرا مقصد آئندہ صدارتی انتخابات میں بارک اوباما کی جیت کا راستہ ہموار کرنا جبکہ چوتھا اور آخری مقصد پاکستان اور اس کے انٹیلی جنس اداروں کو بدنام کرکے ایٹمی اثاثوں تک رسائی حاصل کرکے انہیں ناکارہ بنانا تھا۔
مغرب میں اُسامہ بن لادن کی دہشت کا جس قدر چرچا تھا اس سے تو یہی لگتا تھا کہ مرنے کے بعد عبرت کے نام پر اسے فرعون کے ساتھ ”ممی” بنا کر رکھا جائے گا مگر بقول امریکا اس کی لاش کو ”اسلامی طریقے” سے سمندر میں بہا دیا گیا ہے۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ سمندر میں لاشوں کو آخری رسومات کے بعد بہانا کس مذہب میں رائج ہے؟ کتنی حیرت کی بات ہے کہ دُنیا کے سب سے زیادہ مطلوب شخص اور مغربی حکمرانوں کے محبوب ہدف کو اتنی خاموشی سے مار دیا گیا کہ نہ گھر والوں (پاکستان) کو پتہ چلا اور نہ انڈر ورلڈ (امریکا/برطانیہ) کے کسی ٹی وی چینل پر اس کی موت کا ٹیلپ دکھایا گیا۔ اُسامہ کی شہادت کی اس اچانک ڈرامائی کارروائی سے رام گوپال ورما کی ڈائریکٹ کی ہوئی سسپنس سے بھرپور کئی فلمیں یاد آ گئیں۔
امریکا کی موجودہ سیاست بھی چونکہ اب ہالی ووڈ اور بالی ووڈ سے زیادہ متاثر لگتی ہے اس لئے یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ کہیں فلمی انداز میں اُسامہ بن لادن کا ڈبل رول موجود نہ ہو اور اصلی اُسامہ بن لادن کی اینٹری ابھی باقی رہتی ہو۔
عام رائے بھی یہی ہے کہ ایبٹ آباد میں اُسامہ کی ہلاکت کا امریکی ڈرامہ بالکل غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ بن لادن بہت پہلے ہی اپنی طبعی موت مر چکے تھے۔امریکا کے ہاتھ باقیات چونکہ بعد میں لگیں اس لیے اس نے آپریشن کا ڈرامہ کرکے اس کی ہلاکت کا اعلان کر دیا۔ امریکا لاش کی تصاویر جاری نہ کرنے اور اس کو دفنانے کے بجائے سمندر میں بہانے کے عمل کو اپنے حق میں دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے جبکہ اُسامہ کی ہلاکت پر شبہات اور افواہوں کو ختم کرنے کیلئے جو ویڈیو جاری کی گئی وہ بھی متنازعہ رہی۔ اُسامہ کی ڈرامائی شہادت کے بعد سے پاکستان کے عام لوگوں میں بالخصوص اور باقی دنیا میں بالعموم یہ سوال گفتگو کا محور ہے کہ جب گوانتاناموبے جیل کے قیدیوں کی تصاویر اور ویڈیو جاری کی جا سکتی ہیں، ابو غریب جیل کی تصاویر افشاء ہو سکتی ہیں، صدام کی گرفتاری اور پھانسی ہر زاویئے سے دکھائی جا سکتی ہے، اُس کے بیٹوں کی لاشوں کی تصاویر ریلیز ہو سکتی ہیں، القاعدہ لیڈر خالد شیخ کی بعد از حراست اور ابومعصب الزرقاوی کی بعد از مرگ تصاوی جاری ہو سکتی ہیںتو پھر امریکا اُسامہ بن لادن کی تصاویر جاری کرنے سے انکاری کیوں ہے۔ یہی وہ راز ہے جسے ایبٹ آباد آپریشن میں حصہ لینے والے امریکی کمانڈوز دستے کے ایک رکن میٹ بیسونیٹ نے اپنی کتاب ”نو ایزی ڈے” میں فاش کیا ہے۔
”نو ایزی ڈے” نامی اس کتاب پر میٹ بیسونیٹ کا فرضی نام مارک اوون درج ہے۔ اگست کے اواخر میں تشہیری مہم کیلئے پبلشنگ ہائوس نے اس کتاب کے کچھ حصے جاری کئے تھے جبکہ اب چار ستمبر سے باقاعدہ اس کی پونے چھ لاکھ کاپیاں فروخت کیلئے پیش کر دی گئی ہیں۔ امازون ڈاٹ کام اور بیرنز اینڈ نوبل ڈاٹ کام نے اس کتاب کو ان دس کتابوں میں شامل کرلیا ہے جن کی سب سے زیادہ مانگ ہو سکتی ہے جبکہ دوسری طرف امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کتاب کے مصنف کے خلاف اس بنیاد پر محکمانہ کارروائی کا آغاز کر دیا ہے کہ میٹ بیسونیٹ نے اُس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے کہ جس میں انہوں نے فوجی خفیہ رازوں کو فاش نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ دنیا کے ”ہمدرد” اور سب سے زیادہ ”فکرمند” ملک امریکا کا جھوٹ فاش کرنے والے بحریہ سیل کے اس کمانڈو نے اپنی شناخت تک کو چھپائے رکھا تاہم وہ اپنی کتاب کی تشہیر کیلئے میڈیا کو خفیہ انٹرویو ضرور دیتے رہے مگر میڈیا نے کتاب کے مصنف کی اصل شناخت ظاہر کر دی۔ مسٹر بیسونیٹ نے اپنی کتاب میں اُسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی میں حصہ لینے والے دوسرے نیوی کمانڈوز (سیلز) کے نام بھی تبدیل کر دیئے ہیں۔ اس کی بھی یہی وجہ بیان کی گئی ہے کہ اس طرح حاضر سروس امریکی کمانڈوز کی جانوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
Nine Easy Day
مسٹر میٹ بیسونیٹ ایبٹ آباد آپریشن کے کچھ عرصہ بعد ہی اپنی سروس سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق اُنہوں نے اپنی کتاب میں اُسامہ کی زندگی کے آخری لمحات اور ان کی موت کی کہانی کا جو آنکھوں دیکھا حال لکھا ہے، اسکے مطابق امریکی آپریشن میں اُسامہ کی ہلاکت نہیں ہوئی بلکہ بن لادن اس آپریشن سے قبل ہی مارا جا چکا تھا۔ کمانڈوز جب کمپائونڈ میں داخل ہوئے تو اُسامہ مردہ حالت میں اور غیر مسلح تھا صرف اسکی لاش اُٹھائی گئی جبکہ اُسامہ کی ہلاکت کا مشن جس طرح سے دنیا کے سامنے پیش کیا گیا وہ اسکے برعکس ہے۔ کچھ عرصہ قبل سی آئی اے کے ایک سابق ایجنٹ اور ترکش سیاسی رہنماء یرقان یاشر نے بھی ایبٹ آباد آپریشن میں اُسامہ کی ہلاکت کے امریکی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ 26جون 2006ء کو اُسامہ بن لادن کی فطری موت واقع ہوئی اور انہیں وصیت کے مطابق پاک افغان سرحد پر دفن کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ ذاتی طور پر اُسامہ بن لادن کے ان تین چیچن محافظوں کو جانتے تھے جو آخری وقت تک اُن کے ساتھ رہے اور ان کی فطری موت کے عینی شاہدین تھے لیکن سی آئی اے نے اُسامہ بن لادن کی موت کے اعلان سے قبل اُسامہ کے ایک محافظ کو گرفتار کرلیا تھا جس نے دورانِ تفتیش اس قبر کی نشاندہی کی اور پھر امریکا نے ایک جعلی آپریشن کے دوران اُسامہ کی ہلاکت کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرتے ہوئے اپنی فتح کا اعلان کیا۔
مسٹر میٹ بیسونیٹ اور یرقان یاشر کے انکشافات میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے جبکہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد ایرانی انٹیلی جنس کے وزیر بھی یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ اُن کے پاس ایسی دقیق اور مؤثق اطلاعات ہیں کہ اُسامہ بن لادن بیماری کی وجہ سے بہت عرصہ پہلے ہی مر چکے تھے۔ اس جعلی ڈرامہ کے فوری بعد امریکی اطلاعات میں تضاد کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ بن لادن بہت پہلے ہی مر چکے ہیں۔اُسامہ کی نعش کو ایبٹ آباد سے اُٹھا کر افغانستان لے جایا گیا اور پھر وہاں سے کراچی سے بھی آگے کھلے سمندر میں بہا دیا گیا۔ کیا امریکا کو ایبٹ آباد سے افغانستان تک اور پھر افغانستان سے لے کر کراچی تک کوئی قبرستان نہیں ملا تھا جہاں اس لاش کو اسلامی طریقے سے جنازہ پڑھا کر دفن کیا جاتا؟ ایبٹ آباد ڈرامہ کے ذریعے امریکا جو مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا اُن میں وہ ابھی تک ناکام دکھائی دیتا ہے۔ اس آپریشن کے بعد اوباما کی مقبولیت کا گراف جس تیزی سے اوپر گیا تھا وہ یکدم ہی نیچے آ چکا ہے اور رہی سہی کسر یہ کتاب نکال دے گی کیونکہ اس وقت امریکا اور اوبامہ دونوں کیلئے ”آسان دن نہیں” شاید اسی وجہ سے مصنف نے بھی اپنی کتاب کا نام ”نو ایزی ڈے” رکھا ہے۔