آم اور عوام دونوں میں بہت ھی مماثلت ہے۔کیونکہ دونوں چیزیں ھی چوسنے کے کام آتی ہیںآم بھی اور عوام بھی۔حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے کہ ان میں سے جتنا رس نکالا جا سکتا ہے نکال ہی لیا جائے۔آم تو پھر بھی کچھ اہمیت رکھتے ہیں جب کہ عوام کا تو مطلب ھی عام ہے یعنی یہ بچارے کسی کھاتے میں نہیں آتے۔عوام کی بے شمار خوبیوں میں سے چند قابل ذکر ہیں آپ ان کو باآسانی بیوقوف بنا سکتے ہیں۔آپ ان کو وعدوں سے بہلا سکتے ہیں اور تو اور معاشی گٹھڑیوں کے بوجھ ان کی ناتواں کمر پر لاد کے ان کی ریڑھ کی ہڈی کو نہ صرف جھکا بلکہ چٹخا بھی سکتے ہیں گویا عوام ایک ایسا تختہ مشق ہے جسے اپ بلا توقف مشق ستم بنا سکتے ہیں مجال ہے جو بیچاری اف بھی کر جائے۔عوام اور حکومت میں دیکھا جائے تو ازلی بیر ہے ہاں کبھی کبھی اس کی رگ حمیت جاگ اٹھتی ہے اور وہ جوش میں آ کر سر اٹھاتی ہے مگر حکومت کے پاس اس کا آزمودہ نسخہ ہے کہ ان کی بنیادی ضرورتیں چھین کر انہی کی فکر میں غرق کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے مسائل میں اکجھی رہے ۔ھر شخص عوام کی حمایت میں کمر بستہ نظر آتا ہے مگر آئیے آج ہم حکومت کے طرف دار ہو کے سوچتے ہیں اور دیکھتے ہیں کیا صورتحا ل سامنے آتی ہے۔
عوام نے بلا وجہ حکومت کی عطا کردہ ،،نعمتوں ؛؛ کو مسائل کا نام دے دیا ھے اور اس کو ہی تورائی کا پہاڑ بنانا کہتے ہیں۔عوام کے بنیادی مسائل بجلی ،گیس ،مکان ،نوکری اور صاف پانی۔لو جی ، بھلا اس میں تردد یا پریشانی کیسی ؟دل کو مضبوط کریں اور ایک ہی نعرہ لگائیں۔all is well ،زرا ماڈرن ھو کے سوچیں نا لائیٹ نہیں تو کیا ہوا؟موم بتیاں کس دن کا م میں آئینگی ،how is romentic country ،جب ہر جگہ کینڈل لائٹ ڈنر ہو گا۔ صاف پانی نہیں تو کیا ہوا منرل واٹر کب کام آئیگا یار بندہ مہذب لگتا ہے ناں روزی روٹی نہیں تو کیا ہوا ؟ ڈبل روٹی کب کام آئیگی؟ اکبر الہ آبادی نے یوں ہی تو نہیں کہ دیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چار دن کی زندگی کوفت سے کیا فائدہ کھا ڈبل روٹی کلرکی کر خوشی سے پھول جا۔ اب اس بات سے ہی اندازہ لگائیں کہ ڈبل روٹی کی قدروقیمت اس دور میں بھی کتنی زیادہ تھی۔اب اعتراض ہوتا ہے کہ پاکستان میں گیس کی کمی ہے لیکن اس بات کے قطع نظر جائزہ لیں کہ گیس کتنی مضر صحت چیز ہے آئے دن خبریں اخباروں کی زینت بنتی ہیں کہ فلاں جگہ گیس کا سلنڈر پھٹ گیا۔ساس نے بہو کو جلا دیا۔غور کریں حکومت ہماری کتنی خیر خواہ ہے ؟اور ہم اتنے بیوقوف ہیں کہ ایک مضر صحت چیز طلب کرتے ہیں تبھی تو ہماری صحتیں قابل زکر ہیں کہ ایک مضر صحت چیز اپنے لئیے طلب کرتے ہیں اب محکمہ صحت والے بچارے کیا کریں۔
ھم صاف شفاف پانی کا رونا روتے ہیں اگر وہی پانی ہم جمع کر لیں تو اس میں پائی جانے والی مچھلیوں کے ننھے ننھے بچے کبھی تو بڑے ہوں گے ناں اور ہمیں کھانے کو آئیوڈین سے بھرپور خوراک ملے گی۔حق ہاہ ۔کتنی ناعاقبت اندیش قوم ہے ؟ھم کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ٹرینوں کا نظام منجمد ہے۔مگر سوچیں کیا دور تھا جب لوگ پیدل سفر کیا کرتے تھے اور قابل رشک صحت کے مالک تھے۔ میں تو کہتی ہوں ایک وقت ایسا آئیگا جب لوگ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانے کے لئیے بھی سواری استعمال کریں گئے۔سفر کے فاصلے کی افادیت بھی سن لیں کہ اگر اپ اپنی فیملی کے ساتھ لاہور سے کراچی جاتے ہیں اور وہ بھی پیدل تو یقیننا کراچی جانے تک آپ کے ننھے منے بچے لڑکپن کی حدود میں داخل ہو جائیں گے۔آپ کے اخراجات کی بھی بچت اور آپ راستے میں لوگوں کی مہمان نوازی سے بھی لطف اندوز ہوں گے۔
Government Pakistan
بس جی۔کیا کریں حکومت تو ہر اقدام ہماری بہتری کے لئے کر رہی ہے ہماری کم عقلی اور نااہلی ہے کہ ھم اس کے خلوص کا جلوس نکالنے پے تلے ہیں۔حکومت مہنگائی میں اضافہ کر رہی ھے تو اس میں بھلارونے پیٹنے اور واویلا مچانے کی کیا بات ھے۔کم کھائو کم سوئو اور کم پیئو لمبی عمر پائو۔اگر تعلیم کی کمی ھے تو کیا ہوا ہمارے پاس کون سا روزگار کے ڈھیر لگے ہیں جتنے پڑھے لکھے زیادہ ہونگے جاب ھی مانگیں گے نا تو بہتر ہے ا ن کا پہلے سے تدارک کر لیا جائے۔پاکستانی قوم من موجی قوم ہے لہذا حکومت کو فکر کی ضرورت نہیں،یہ شور ضرور کرتی ہے مگر جلد ہی کمپرومائیز کا دانہ چگ لیتی ہے حکومت کو کان دھرنے کی ضرورت نہیں آئیں مل کے نعرہ لگائیں۔all is well. all is well.