پاکستان اور امریکہ کے درمیان نیٹو سپلائی کی بحالی کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد یہ امر واضح ہوگیا ہے کہ یہ معاہدہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے? معاہدے کے مطابق نیٹو سپلائی کے ذریعے نہ اسلحہ افغانستان جائے گا اور نہ ہی پاکستان کوئی فیس وصول کرے گا? پاکستان کے راستے افغانستان کے لئے کمرشل کارگو زمینی راستے بذریعہ سڑک اور ریلوے لے جانے کی اجازت ہوگی? چھوٹے بڑے ہتھیار اور اسلحہ سمیت خطرناک مواد لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
کارگو میں غذا، ادویات آلات اور میٹریل پاکستانی قوانین کے مطابق کنٹینر ، ٹرک کے ذریعے لے جائے جاسکیں گے? کارگو روٹس کابھی تعین کر دیا گیا ہے پہلا جنوبی روٹ ہوگا جس سے کارگو کراچی اور بن قاسم پورٹ سے چمن کے راستے افغانستان جائے گا، دوسرا شمالی روٹ ہوگا جس میں کراچی اور بن قاسم پورٹ سے طورخم کے لئے کارگو افغانستان جائے گا? یہ معاہدہ 2015 تک قابل عمل ہوگا جبکہ باہمی مشاورت کے ذریعے اس میں ایک سال کی توسیع کی جا سکے گی۔
معاہدے کے تحت دونوں فریق قوانین اور ضابطوں کے پابند ہوں گے? پاکستان میں اس معاہدے کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا جو شدید ردعمل سامنے آیا ہے اورملک گیر سطح پر پاکستان دفاع کونسل کی طرف سے احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا جو سلسلہ جاری ہے اس سے امریکہ مخالف جذبات کی عکاسی ہوتی ہے اور بالخصوص امریکہ نے بھارت کو افغانستان میں جوکردار سونپنے کی جدوجہد شروع کر رکھی ہے اور اسے افغانستان میں زیادہ سے زیادہ اختیارات سونپنے اور امریکی مفادات کا تحفظ کرنے کے جس پروگرام پر عمل کیا جا رہا ہے اس کے خلاف پاکستان کے تحفظات بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں اور ان تحفظات کا ایک ٹھوس جواز بھی موجود ہے۔
pakistan
پاکستان سے ملحقہ افغان سرحدی شہروں میں بھارت کو 14قونصل خانے کھولنے کی جو اجازت دی گئی ہے اس کے خلاف بھی پاکستان اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے کیونکہ عام تاثر یہ ہے کہ یہ قونصل خانے دہشت گردوں کی تربیت گاہیں ہیں جہاں پر انہیں تربیت دے کر پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں دراندازی کا موقع فراہم کیا جاتا ہے لیکن معروضی صورتحال اور زمینی حقائق کے پیش نظر یک طاقتی عالمی نظام کی موجودگی میں پاکستان اپنے آپ کو عالمی برادری سے الگ تھلگ رکھنے کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا۔
پاکستان نے افغانستان کیخلاف روسی جارحیت کے ارتکاب سے لے کر طالبان حکومت کے خلاف امریکی اقدام اور موجودہ حالات تک فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے بے حد جانی اور مالی نقصان برداشت کیا ہے? پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکا ہے اس کے باوجود ملک کے سب سے بڑے جمہوری اور با اختیار ادارے قومی اسمبلی دوسرے طاقتور اداروں ، عسکری اور سیاسی قیادت نے باہمی مشاورت اور اتفاق ر ائے سے ایک راستہ نکالا ہے لہ?ذا اس مرحلے پر یہ توقع رکھنا بے جا نہ ہوگا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کے مفادات کے تحفظ کا بھی خیال رکھیں گے?اس امر کا احساس امریکہ کے اتحادی ممالک کو بھی ہے اور وہ دو طرفہ بنیادوں پر اس تعاون کو آگے بڑھانے کے لئے پاکستان کے تحفظات کا بھی ازالہ چاہتے ہیں۔
چنانچہ جہاں ایک مرتبہ پھر نیٹو فورسز نے سرحد پار پاکستان سے افغانستان کے علاقوں میں گولہ باری کا شوشہ چھوڑا ہے اور پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ ان حملوں کو روکنے کے لئے افغانستان اور پاکستان سے مل کر کام کرتے رہیں گے وہاں پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے امریکہ پر واضح کیا گیاہے کہ سرحد پار سے حملے روکنا افغانستان کی ذمہ داری ہے اور نیٹو سپلائی کی بحالی کے لئے ہونے والے معاہدے میں پارلیمینٹ کی سفارشات کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے امریکہ کے ساتھ افغان مسئلے پر بھرپور تعاون کے باوجود پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا چنانچہ حال ہی میں برطانوی پارلیمینٹ کے متعدد ارکان کی طرف سے امریکی صدر اوباما کو ایک خط لکھا گیا ہے جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکہ پاکستان میں ڈرون حملے بند کرے کیونکہ ان حملوں میں سینکڑوں بے گناہ قبائلی افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور ان حملوں سے مغرب کے خلاف نفرت پیدا ہو ہی ہے یہ حملے پاکستان کی خود مختاری کیلئے بھی نقصان دہ ہیں جن سے انتہا پسندی میں اضافہ ہور ہا ہے۔
دہشت گردوں کو اپنی سرگرمیاں بڑھانے کا جواز اور موقع ملتا ہے ان حملوں کی وجہ سے برطانیہ کو بھی دہشت گردی کا خطرہ ہے?12ارکان پارلیمینٹ کی طرف سے لکھے گئے اس خط میں امریکہ پر واضح کیا گیا ہے کہ یہ حملے دہشت گردوں کے لئے ایک جواز پیدا کرتے ہیں ان سے انتہا پسندی کو بھی فروغ ملتا ہے لہ?ذا امریکہ کو یہ حملے فوری طورپر بند کرنے چاہئیں?ہم اس مرحلے پر وسیع تر قومی اور ملکی مفاد کے پیش نظر یہ امر بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کیلئے قومی اسمبلی کی قرارداد میں جو 14نکات شامل ہیں۔
drone attack
ان میں ڈرون حملے بند کرنے کو اولین ترجیح کے طور پر پیش کیا گیا ہے لیکن امریکہ کی طرف سے نیٹو سپلائی کی بحالی کے باوجود واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ وہ ڈرون حملے جاری رکھے گا چنانچہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے اگلے ہی روز شمالی وزیرستان پر امریکی ڈرون حملے میں 22افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے? اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے اگرچہ سلالہ چیک پوسٹ پر ڈرون حملے پاکستان کے شدید احتجاج کے بعد چند دنوں کیلئے رک گئے تھے لیکن چند روز بعد پھر یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔
بعض اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 9سال کے دوران ڈرون حملوں میں ہزاروں بے گناہ قبائلی افراد جاں بحق اور بڑی تعداد میں زخمی ہو چکے ہیں ان میں بڑی تعداد دینی مدارس کے طلبا اساتذہ اور علما کی ہے جہاں تک ان طیاروں کو مار گرانے کا تعلق ہے تو ڈاکٹر عبد القدیر خان واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے پاس اس کی صلاحیت موجود ہے? امریکہ نے افغان جنگ میں پاکستان کی طرف سے فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرنے کے اعتراف کے باوجود ابھی تک پاکستان کے مفادات کو قرار واقعی اہمیت نہیں دی ہے۔
جہاں تک افغانستان میں نیٹو فورسز پرحملوں اورشدید مزاحمت کا تعلق ہے تو اسے پاکستان سے دراندازی کا نام دینا ہرگز درست نہیں بلکہ یہ مزاحمت افغان عوام کے اس مزاج اور قبائلی روایات کی مظہر ہے کہ انہوں نے آج تک کسی غیر ملکی تسلط کو قبول نہیں کیایہ ایک تاریخی حقیقت ہے لہ?ذا اسے پیش نظر رکھتے ہوئے اور افغان عوام کے ہاتھوں روس کی شکست کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرتے ہوئے امریکہ کو وہ کردار ادا کرنا چاہئے جواس خطے میں امن و استحکام کا ذریعہ ثابت ہوسکے۔
america
اب جبکہ پاکستان نے نیٹو سپلائی بحال کر دی ہے اور کسی قسم کی فیس وصول نہ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے تو امریکہ کو پاکستان کے اس بھرپور تعاون اور قربانیوں کا احساس کرتے ہوئے اس کی خود مختاری اور سلامتی کا احترام کرتے ہوئے نہ صرف ڈرون حملے بند کر دینے چاہئیں بلکہ زمینی روٹس کی بحالی سے سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اور ان کی تعمیر و مرمت کے اخراجات برداشت کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے تاکہ زمینی راستے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمد و رفت میں لوگوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے? معاہدے کے تحت ہتھیار اور اسلحہ لے جانے پر پابندی عائد کی گئی ہے اورروٹ سے ہٹ کر ہونے والی سپلائی کو روکا جاسکے گا لہذا امریکہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاہدے کی پابندی کرے اور روٹ سے ہٹ کر سپلائی سے مکمل اجتناب کرے تاکہ معاہدے پر عملدرآمد کو ممکن بنایا جا سکے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کا بھی تحفظ کیا جاسکے۔