اپالو 10اور 11کے ذریعے ناسا نے چاند کی جو تصویر لی ہے اس سے صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ زمانہ ماضی میں چاند دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا۔ یہ تصویر ناسا کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود ہے اور تاحال تحقیق کامرکز بنی ہوئی ہے۔ ناسا ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے۔ اس تصویر میں راکی بیلٹ کے مقام پر چاند دو حصوں میں تقسیم ہوا نظر آتاہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں مصر کے ماہر ارضیات ڈاکٹر زغلول النجار سے میزبان نے اس آیت کریمہ کے متعلق پوچھا:
ترجمہ:۔ ”قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ پہلے سے چلا آتا ہوا جادو ہے۔انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور ہر کام ٹھہرے ہوئے وقت پر مقرر ہے۔“۔( القمر، 1-3)
(ڈاکٹر زغلول النجار یونیورسٹی جدہ میں ماہر ارضیات کے پروفیسر ہیں۔ قرآن مجید میں سائنسی حقائق کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ اور مصر کی سپریم کونسل آف اسلامی امور کی کمیٹی کے بھی سربراہ ہیں)۔ انہوں نے میزبان سے کہا کہ اس آیت کریمہ کی وضاحت کے لیے میرے پاس ایک واقعہ موجود ہے۔ انہوں نے اس واقعہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ میں برطانیہ کے مغرب میں واقع کارڈف یونیورسٹی میں ایک لیکچر دے رہا تھا۔ جس کو سننے کے لیے مسلم اور غیر مسلم طلباء کی کثیر تعداد موجود تھی۔ قرآن میں بیان کردہ سائنسی حقائق پر جامع انداز میں گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک نو مسلم نوجوان کھڑ ا ہوا اور مجھے اسی آیت کریمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سر کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور فرمایا ہے، کیا یہ قرآن میں بیان کردہ ایک سائنسی حقیقت نہیں ہے۔ ڈاکٹر زغلول النجار نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں! کیونکہ سائنس کی دریافت کردہ حیران کن اشیاء یا واقعات کی تشریح سائنس کے ذریعے کی جاسکتی ہے مگر معجزہ ایک مافوق الفطرت شے ہے ، جس کو ہم سائنسی اصولوں سے ثابت نہیں کرسکتے۔ چاند کا دو ٹکڑے ہونا ایک معجزہ تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے نبوت محمدی ﷺ کی سچائی کے لیے بطور دلیل دکھایا۔ حقیقی معجزات ان لوگوں کے لیے قطعی طورپر سچائی کی دلیل ہوتے ہیں جو ان کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ہم اس کو اس لیے معجزہ تسلیم کرتے ہیں کیونکہ اس کا ذکر قرآن وحدیث میں موجود ہے۔
اگر یہ ذکر قرآن وحدیث میں موجود نہ ہوتا تو ہم اس زمانے کے لوگ اس کو معجزہ تسلیم نہ کرتے۔ علاوہ ازیں ہمارا اس پر بھی ایمان ہے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ پھر انہوں نے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ احادیث کے مطابق ہجرت سے 5سال قبل قریش کے کچھ لوگ حضور ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ اگر آپ واقعی اللہ کے سچے نبی ہیں تو ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں۔ حضور ﷺ نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ انہوں نے ناممکن کام کا خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس چاند کے دو ٹکڑے کر دو۔ چناچہ حضور ﷺ نے چاند کی طرف اشارہ کیا اور چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے حتٰی کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا یعنی اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اور ایک ٹکڑا اس طرف ہو گیا۔ ابن مسعودی فرماتے ہیں سب لوگوں نے اسے بخوبی دیکھا اور آپ ﷺنے فرمایا دیکھو ،یاد رکھنا اور گواہ رہنا۔ کفار مکہ نے یہ دیکھ کر کہا کہ یہ ابن ابی کبشہ یعنی رسول اللہ ﷺ کا جادو ہے۔ کچھ اہل دانش لوگوں کا خیال تھا کہ جادو کا اثر صرف حاضر لوگوں پر ہوتاہے۔ اس کا اثر ساری دنیا پر تو نہیں ہو سکتا۔ چناچہ انہوں نے طے کیا کہ اب جو لوگ سفر سے واپس آئیں ان سے پوچھو کہ کیا انہوں نے بھی اس رات چاند کو دو ٹکڑے دیکھا تھا۔
چناچہ جب وہ آئے ان سے پوچھا ، انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ ہاں فلاں شب ہم نے چاند کے دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔ کفار کے مجمع نے یہ طے کیا تھا کہ اگر باہر کے لوگ آ کر یہی کہیں تو حضور ﷺ کی سچائی میں کوئی شک نہیں۔ اب جو باہر سے آیا ، جب کبھی آیا ، جس طرف سے آیا ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھاہے۔ اس شہادت کے باوجود کچھ لوگوں نے اس معجزے کا یقین کر لیا مگر کفار کی اکثریت پھر بھی انکار پر اَڑی رہی۔
Al Quran
اسی دوران ایک برطانوی مسلم نوجوان کھڑا ہوا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میرا نام داود موسیٰ پیٹ کاک ہے۔ میں اسلامی پارٹی برطانیہ کا صدر ہوں۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا کہ سر ! اگر آ پ اجازت دیں تو اس موضوع کے متعلق میں بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے کہا کہ ٹھیک ہے تم بات کرسکتے ہو! اس نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے جب میں مختلف مذاہب کی تحقیق کر رہا تھا، ایک مسلمان دوست نے مجھے قرآن شریف کی انگلش تفسیر پیش کی۔ مَیں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اسے گھر لے آیا۔ گھر آکر جب میں نے قرآن کو کھولا تو سب سے پہلے میری نظر جس صفحے پر پڑی وہ یہی سورة القمر کی ابتدائی آیات تھیں۔ ان آیات کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کے بعد میں نے اپنے آپ سے کہا کہ کیا اس بات میں کوئی منطق ہے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوں اور پھر آپس میں دوبارہ جڑ جائیں۔ وہ کونسی طاقت تھی کہ جس نے ایسا کیا ؟ ان آیات کریمہ نے مجھے اس بات پر آمادہ کیا کہ میں قرآن کا مطالعہ برابر جاری رکھوں۔ کچھ عرصے کے بعد مَیں اپنے گھریلو کاموں میں مصروف ہوگیا مگر میرے اندر سچائی کو جاننے کی تڑپ کا اللہ تعالیٰ کو خوب علم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کا کرنا ایک دن ایسا ہوا کہ میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ ٹی وی پر ایک باہمی مذاکرے کا پروگرام چل رہاتھا۔ جس میں ایک میزبان کے ساتھ تین امریکی ماہرین فلکیات بیٹھے ہوئے تھے۔ ٹی وی شو کا میزبان سائنسدانوں پر الزامات لگا رہا تھا کہ اس وقت جب کہ زمین پر بھوک ، افلاس ، بیماری اور جہالت نے ڈھیرے ڈھالے ہوئے ہیں ، آپ لوگ بے مقصد خلا میں دورے کرتے پھر رہے ہیں۔ جتنا روپیہ آپ ان کاموں پر خرچ کر رہے ہیں وہ اگر زمین پر خرچ کیا جائے تو کچھ اچھے منصوبے بنا کر لوگوں کی حالت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
بحث میں حصہ لیتے ہوئے اور اپنے کام کا دفاع کرتے ہوئے ان تینوں سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ خلائی ٹیکنالوجی زندگی کے مختلف شعبوں ادویات ، صنعت اور زراعت کو وسیع پیمانے پر ترقی دینے میں استعمال ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سرمائے کو ضائع نہیں کر رہے بلکہ اس سے انتہائی جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دینے میں مدد مل رہی ہے۔ جب انہوں نے بتایا کہ چاند کے سفر پر آنے جانے کے انتظامات پر ایک کھرب ڈالر خرچ آتا ہے تو ٹی وی میزبان نے چیختے ہوئے کہا کہ یہ کیسا فضول پن ہے ؟ ایک امریکی جھنڈے کو چاند پر لگانے کے لیے ایک کھرب ڈالر خرچ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ سائنسدانوں نے جوابا ً کہا کہ نہیں ! ہم چاند پر اس لیے نہیں گئے کہ ہم وہاں جھنڈا گاڑ سکیں بلکہ ہمارا مقصد چاند کی بناوٹ کا جائزہ لیناتھا۔ دراصل ہم نے چاند پر ایک ایسی دریافت کی ہے کہ جس کا لوگوں کو یقین دلانے کے لیے ہمیں اس سے دوگنی رقم بھی خرچ کرنا پڑسکتی ہے۔ مگر تاحال لوگ اس بات کو نہ مانتے ہیں اور نہ کبھی مانیں گے۔ میزبان نے پوچھا کہ وہ دریافت کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک دن چاند کے دو ٹکڑے ہوئے تھے اور پھر یہ دوبارہ آپس میں مل گئے۔ میزبان نے پوچھا کہ آپ نے یہ چیز کس طرح محسوس کی ؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے تبدیل شدہ چٹانوں کی ایک ایسی پٹی وہاں دیکھی ہے کہ جس نے چاند کو اس کی سطح سے مرکز تک اور پھر مرکز سے اس کی دوسری سطح تک، کو کاٹا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اس بات کا تذکرہ ارضیاتی ماہرین سے بھی کیا ہے۔ ان کی رائے کے مطابق ایسا ہرگز اس وقت تک نہیں ہوسکتا کہ کسی دن چاند کے دو ٹکڑے ہوئے ہوں اور پھر دوبارہ آپس میں جڑ بھی گئے ہوں۔ برطانوی مسلم نوجوان نے بتایا کہ جب مَیں نے یہ گفتگو سنی تو اپنی کرسی اچھل پڑا اوربے ساختہ میرے منہ سے نکلا کہ اللہ نے امریکیوں کو اس کام کے لیے تیا رکیا کہ وہ کھربوں ڈالر لگا کر مسلمانوں کے معجزے کو ثابت کریں ، وہ معجزہ کہ جس کا ظہور آج سے 14سو سال قبل مسلمانوں کے پیغمبر ﷺکے ہاتھوں ہوا۔ مَیں نے سوچا کہ اس مذہب کو ضرور سچا ہونا چاہیے۔ میں نے قرآن کو کھولا اور سورة القمر کو پھر پڑھا۔ درحقیقت یہی سورة میرے اسلام میں داخلے کا سبب بنی۔
علاوہ ازیں انڈیا کے جنوب مغرب میں واقع مالابار کے لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ مالابار کے ایک بادشاہ چکراوتی فارمس نے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ ضرور زمین پر کچھ ایسا ہوا ہے کہ جس کے نتیجے میں یہ واقعہ رونما ہوا۔ چنانچہ اس نے اس واقعے کی تحقیق کے لیے اپنے کارندے دوڑائے تو اسے خبر ملی کہ یہ معجزہ مکہ میں کسی نبی کے ہاتھوں رونما ہوا ہے۔ اس نبی کی آمد کی پیشین گوئی عرب میں پہلے سے ہی پائی جاتی تھی۔ چناچہ اس نے نبیﷺ سے ملاقات کا پروگرام بنایا اور اپنے بیٹے کو اپنا قائم مقام بنا کر عرب کی طرف سفر پر روانہ ہوا۔ وہاں اس نے نبی رحمت ﷺ کی بارگاہ میں حاضری دی اور مشرف بااسلام ہوا۔ نبی کریم ﷺ کی ہدایت کے مطابق جب وہ واپسی سفر پر گامزن ہوا تو یمن کے ظفر ساحل پر اس نے وفات پائی۔ یمن میں اب بھی اس کا مقبرہ موجود ہے۔ جس کو ”ہندوستانی راجہ کا مقبرہ“ کہا جاتا ہے اور لوگ اس کو دیکھنے کے لیے وہاں کا سفر بھی کرتے ہیں۔ اسی معجزے کے رونما ہونے کی وجہ سے اور راجہ کے مسلمان ہونے کے سبب مالابار کے لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ اس طرح انڈیا میں سب سے پہلے اسی علاقے کے لوگ مسلمان ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے عربوں کے ساتھ اپنی تجارت کو بڑھایا۔ نبی کریم ﷺ کی بعثت سے قبل عرب کے لوگ اسی علاقے کے ساحلوں سے گزر کر تجارت کی غرض سے چین جاتے تھے۔ یہ تمام واقعہ اور مزید تفصیلات لندن میں واقع ”انڈین آفس لائبیریری“ کے پرانے مخطوطوں میں ملتاہے۔جس کاحوالہ نمبر (Arabic, 2807,152-173) ہے۔ اس واقعہ کا ذکر محمد حمید اللہ نے پنی کتاب ”محمد رسول اللہ“ میں کیا تھا۔
ناسا کی یہ تصویر اور سائنسدانوں کے بیانات سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم نے جس واقعہ کا ذکر آج سے 14سو سال پہلے کیا تھا وہ بالکل برحق ہے۔ یہ نہ صرف قرآن مجید کی سچائی کی ایک عظیم الشان دلیل ہے بلکہ یہ ہمارے پیارے نبی ،امام الانبیا ءکی رسالت کی بھی لاریب گواہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کو اکمل و کامل کرے اور ہمیں قرآن وحدیث کے مطابق اپنے عملوں کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔