والدین کی اطاعت

Hadees mubarka

Hadees mubarka

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گناہ کبیرہ کا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ کیساتھ کسی کو شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، خودکشی کر کے اپنے آپ کو ہلاک کر لینا، جان بوجھ کر جھوٹ بولنا یا جھوٹی قسم کھانا۔

اس حدیث سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ گناہ کبیرہ صرف چار باتیں ہیں، علمائے کرام نے کبیرہ گناہوں کے متعلق مستقل کتابیں لکھی ہیں۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کی اور اسکا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اور گناہگاروں کی مدد کرنیوالا کوئی نہیں۔

اس آیت مبارکہ سے یہ واضح ہو گیا کہ مشرک کی بخشش ہی نہیں ہو گی۔ غور کریں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے حق کیبعد والدین کا حق بیان فرمایا ہے۔ کیونکہ مربی حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور مربی مجازی والدین ہیں۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہاری ماں کی نافرمانی حرام فرما دی۔
اس حدیث سے کسی کو اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ صرف ماں کی نافرمانی حرام ہے اور باپ کی جائز، بلکہ دونوں کی نافرمانی ہی ناجائز ہے۔ مگر جس بات میں خدائی نافرمانی ہوتی ہو اس میں ماں باپ کی اطاعت کو شریعت نے منع کر دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی رضا باپ کی رضا پر موقوف ہے۔ اس حدیث کے دو جز ہیں۔
پہلا جس میں والدین کی مطیع اور فرمانبردار اولاد کو اللہ کی رضا کی بشارت کا مژدہ سنایا گیا ہے اور دوسرے حصے میں اللہ کی ناراضی سے ڈرایا گیا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین کی نافرمان اولاد کے حق میں یوں بددعا فرمائی۔ ” اس شخص کی ناک خاک اولاد ہو(یعنی وہ ذلیل و خوار ہو تباہ و برباد ہو)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، کون یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کے ماں باپ یا دونوں میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچے ( اور وہ انکی اطاعت و خدمت کر کے ) جنت کے حصول کی کوشش نہ کرے۔

غور کیجیے کہ کس ہستی کی والدین کے نافرمانوں کے حق میں بددعا ہے؟ ایسا شخص بدقسمت ہی ہو گا۔ والدین کو ناخوش کرنیوالی اولاد کیلئے دوزخ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ والدین کا نافرمان ہے تو اسکیلئے دوزخ کے دروازے کھلے ہوتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک زندہ ہو اور اس نے نافرمانی کی حالت میں صبح کی تو اسکیلئے دوزخ کا ایک درواز کھلا ہوتا ہے۔

waldain ke liye khasoosi dua

waldain ke liye khasoosi dua

علامہ زمحشری نے ” تفسیر کشاف” میں لکھا ہے کہ ایک نوجوان نے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اپنے باپ کی شکایت کی کہ میرا باپ میرا روپیہ پیسہ مجھ سے زبردستی لے لیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکے باپ کو بلایا، وہ شخص اتنا بوڑھا ہو چکا تھا کہ لکڑی کا سہارا لیے خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے اسکے بیٹے کی شکایت کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے عرض کیا: حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا یہ بیٹا ایک زمانے ( بچپن) میں ضعیف تھا اور میں قوی، یہ فقیر تھا اور میں غنی، میں نے اسے اس زمانے میں کوئی چیز لینے سے نہیں روکا۔ آج میں ضعیف ( بوڑھا) ہو گیا ہوں اور یہ قوی، تن درست و توانا ہے۔ یہ غنی ہے اور میں فقیر۔ اب یہ اپنا مال مجھ سے بچاتا ہے اور بخل سے کام لیتا ہے۔
اس بوڑھے آدمی کی باتیں سن کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رونا آ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر یہ باتیں پتھر سن لے تو اسے بھی رونا آ جائے۔ اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکے بیٹے سے ارشاد فرمایا: تو بھی اور تیرا مال بھی تیرے باپ کا ہے۔

اسی طرح ایک اور واقعہ لکھا ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی والدہ کی شکایت کی کہ میری ماں بدمزاج ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس زمانے میں وہ تجھے نو ماہ تک پیٹ میں لیے پھرتی رہی کیا اسوقت بھی وہ بدمزاج تھی؟

اس نے پھر یہی کہا کہ میری ماں بدمزاج ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب وہ تیرے لیے ساری ساری رات جاگتی تھی اور راتوں کو اٹھ کر تجھے دودھ پلاتی تھی تو اسوقت بدمزاج نہیں تھی؟
اسکے بعد وہ کہنے لگا کہ میں اسکی محنت و مشقت کا بدلا اتار چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تو نے کیسے بدلا اتار دیا؟
اس نے جواب دیا میں نے اسے اپنے کاندھوں پر بٹھا کر حج کروایا ہے۔

maan

maan

یہ سن کر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تو اپنی ماں کو اس تکلیف کا بدلا بھی دے سکتا ہے جو اس نے درد زہ کی صورت میں برداشت کی تھی؟

گویا انسان اپنے ماں باپ کی چاہے کتنی ہی خدمت کر لے مگر وہ انکا بدلہ اتار ہی نہیں سکتا۔ سعادت مندی کی بات یہ ہے کہ اولاد والدین کی خدمت کرتی رہے اور اسے اپنی خوش قسمتی اور سعادت سمجھے اور اللہ کا شکر ادا کرتی رہے۔

جو اولاد ایسی ہو کہ والدین کے حقوق کا خیال نہ کرے اور انکے ساتھ بے ادبی اور گستاخی سے پیش آئے، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایسی اولاد کیلئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اسے جنت میں داخلہ نصیب نہ ہو گا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: احسان جتانے والا اور والدین کو ستانے والا اور شراب کا عادی جنت میں داخل نہیں ہونگے۔

معلوم ہوا کہ جن باتوں میں اللہ کی نافرمانی ہوتی ہو، ان میں والدین کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے۔ باقی تمام صورتوں میں ماں اور باپ دونوں کی اطاعت لازم ہے۔