نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اپنے مخصوص ایجنڈے پر عمل درآمد کرانے والے برسر اقتدار لوگوں کے تعاون کے حصول میں سرگرم رہتے ہیں۔اس کے لیے وہ ذمہ دار طبقہ سے روابط قائم کرتے ہیں نیز ان کو اپنا ہمنوا بنانے کی سعی و جہد کرتے ہیں۔
یہ بات توصحیح ہے کہ اگر کوئی شخص،ادارہ،گروہ یا ملک اپنے فکر و خیال کو دوسروں میں عام کرنے کے لیے گفتگو، ملاقاتیں، بحث و مباحثہ،ڈائیلاگ،مذاکرے اور سیمنار کے ذریعہ رائے عامہ ہموارکرتا ہے تو یہ مناسب طریقہ ہے۔لیکن اس کے برخلاف اگر کوئی اپنی بات،فکر و خیال اور مقاصد کے حصول کے لیے برسر اقتدار لوگوں کو جائز طریقہ کار کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ استعمال کرتا ہے تو وہ نہ صرف غیر مناسب بلکہ غیر دستوری بھی کہلائے گا۔ اور یہی کچھ آج ہندوستان میں جہاں دنیا کی سب سے بڑی غربت زدہ آبادی پائی جاتی ہے،اس میں کیا جار رہا ہے۔
ایک طرف لوگوں کو کاٹا اور بانٹا جا رہا ہے،ان میں دوریاں بڑھائی جا رہی ہیں، ملک جن لوگوں کے تعاون سے ترقی کرتا ہے ان ہی کا کھلے عام استحصال کیا جا رہا ہے،تو وہیں دوسری طرف باہری لوگوں کو ملک کی سالمیت اور معیشت میں حصہ دار بنایا جا رہا ہے۔یہ حالات کیسے ہندوستان کی ترقی و فلاح میں مدد گار ہو سکتے ہیں؟
امن و امان اور ترقی تو اسی وقت ممکن ہے جبکہ ایسے کرپٹ اور ملک فروش لوگوں پر گرفت کسی جائے۔لیکن یہ کام دوریوںسے نہیں بلکہ نزدیکیوں سے ہوگا۔عوامِ ہند کو سمجھنا چاہیے کہ کچھ قوتیں ان کو تقسیم کرنے کے درپے ہیں۔ضرورت ہے کہ ان کے ایجنڈے کو سمجھا جائے اور ایسے لوگوں کو کسی بھی سطح پر برسر اقتدار نہ آنے دیا جائے جو انسانوں کو مشتعل کرنے والے، غلط فہمیاں فروغ دینے والے،نفرتیں بڑھانے والے اور ملک میں امن و سلامتی کو متاثر کرنے والے رہے ہیں۔
والمارٹ لابیئنگ اور ایس پی بی ایس پی کا ایجنڈا: اس انکشاف کے بعد ملک کی پارلیمنٹ اور اس کے باہر سیاسی طوفان پیدا ہو گیا ہے کہ عالمی ریٹیل کمپنی والمارٹ نے گزشتہ چار سال کے وران امریکی سینیٹرس میں لابینگ کے لیے تقریباً 125کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ اپوزیشن نے راجیہ سبھا میں خوب ہنگامہ کیا ہے اور آئندہ آنے والے دنوں میں اس کے خلاف مورچہ کھولنے کی بات کہی ہے۔بی جے پی، جنتا دل یو اور بائیں بازو کے بشمول اپوزیشن جماعتوں نے اسے ایک سنگین معاملہ قرار دیا ہے نیز وزیر اعظم سے اس بارے میں پارلیمنٹ میں بیان دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ وقفہ صفر کے دوران معاملہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن کے ڈپتی لیڈر روی شنکر پرساد نے بتایا کہ وال مارٹ نے امریکی سینیٹ میں ایک رپورٹ کے ذریعہ انکشاف کیا ہے کہ اس نے ہندوستان میں کھدرے بازار میں داخلہ کے لیے لابیئنگ کی اور اس کے لیے 125کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ میں کافی بحث ہو چکی ہے لیکن امریکی سینیٹ میں پیش کردہ وال مارٹ انکشافاتی رپورٹ ایف ڈی آئی کی پالیسی پر ایک سوال کھڑا کرتی ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے لیکن ملک بھر کے اخبارات نے وال مارٹ کی جانب سے ہندوستان میں کھدرے بازار میں داخلہ کے لیے لابیئنگ کے لیے125کروڑ روپے خرچ کیے جانے کی رپورٹ شائع کی ہے۔کیونکہ ہندوستان میں اس نوعیت کی لابیئنگ غیر قانونی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس خبر کے نتیجہ میں ہنگامہ برپا ہے۔پرساد نے اس معاملہ کی تحقیقات کروانے اور اس کے بعد ہی پالیسی کو روبہ عمل لانے کا مطالبہ کیا ہے۔نائب صدر نشین پی جے کورین نے اس پر کہا کہ اگر ارکان یہ مسئلہ اٹھانا چاہتے ہیں تو انھیں اس کے لیے ایک نوٹس دینا چاہیے۔ سی پی آئی ایم کے سیتا رام یچوری نے رپورٹ پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ صدر ایوان کی حیثیت سے آپ خود اس اہم مسئلہ پر جواب دینے کے لیے حکومت سے کہہ سکتے ہیں۔ڈاکٹر کورین نے جواب دیا کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ تو وہ جواب دے گی، میں اسے مجبور نہیں کر سکتا۔ساتھ ہی ایوان کی صورتحال سامنے رکھتے ہوئے وزیر پارلیمانی امور راجیو شکلا نے کہا کہ وہ متعلقہ وزیر کے علم میں یہ بات لائیں گے اور حکومت اس معاملہ کو دیکھے گی۔
والمارٹ ہی نہیں 15کمپنیوں ملوث ہیں: پہلے معاملہ والمارٹ کا تھا۔گفتگو کا انحصار بھی اسی حد تک محدود تھا لیکن اب واشنگٹن(ایجنسیاں) کی رپورٹ کے مطابق والمارٹ سمیت کم از کم 15امریکی کمپنیوں نے2012میں اپنے ہندوستانی تجارتی مفادات و دیگر ایشوز پر لابنگ کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔
لابنگ کے انکشاف سے متعلق پارلیمانی ریکارڈ کے مطابق اس طرح کی لابنگ کرنے والی کمپنیوں میں دوا کمپنی فائزر، کمپیوٹر کمپنی ڈیل، ایچ پی، ٹیلی مواصلاتی کمپنی کوال کام والکا ٹیل لوسینٹ، مالی خدمات فراہم کرنے والی مورگن اسٹینلی اور پروڈنشیل فائنانشل اور الائنس آف آٹو موبائل مینو فیکچرس اور ایرواسپیس انڈسٹریز ایسوایشن آف امریکہ شامل ہیں۔اسی سال امریکی ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ لابنگ کرنے والوں میں لابی گروپ فنانس ایگزیکٹیو انٹر نیشنل بزنس رائونڈ ٹیبل، بزنس سافٹ وئیر الائنس اور فنانشیل سرویز فورم، اشیاء بنانے والی کارگل کولگیٹ پامولیو کے نام ہیں۔ریکارڈ کے مطابق بوئنگ، ایل ڈی اینڈ ٹی، اسٹار بکس، لاک ہیڈ مارٹن، ایلی للی اور جی ای نے ہندوستان سے وابستہ خصوصی لابنگ کے ایشو پر امریکی ممبران پارلیمنٹ سے لابنگ کی۔
اس موضوع میں بازار کو کھولنے سے وابستہ پہل اور ملک میں اپنی فروخت اور تجارت کے مواقع کو حمایت شامل ہے۔ امریکی پارلیمنٹ کے ایوان سنیٹ و ایوان نمائندگان میں پیش لابنگ کی وضاحت کی رپورٹ کے مطابق کم از کم 3اداروں فائنانشل سرویز فورم، بزنس رائونڈ ٹیبل اور فائنانشل ایگزیکٹیو انٹر نیشنل نے ٹیکس اور مالیاتی بل کی دیگر تجاویز کے سلسلے میں لابنگ کی تھی۔ اس بل کو اسی سال پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا۔
ایوان بالا اور ملک کا حقیقی منظر نامہ: گزشتہ جمعہ7دسمبر2012 ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں اس مسئلے پر حکمران جماعت اور اپوزیشن کی طرف سے زبردست بحث دیکھنے کو ملی اور پھر ووٹ ڈالے گئے تھے۔ جس میںاپوزیشن جماعتوں کی تحریک کے حق میں ایک سو نو جبکہ حکومت کے حق میں ایک سو تیئس ووٹ پڑے اور اپوزیشن ناکام ہو گئی تھی۔
اس ناکامی میں اہم کردار بہوجن سماجی پارٹی نے ادا کیا جس نے آخری وقت میں واک آؤٹ کی بجائے ووٹ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔اس کے برخلاف ا یوان زیریں یعنی لوک سبھا میں بہوجن سماج پارٹی نے ایف ڈی آئی کی مخالفت کی تھی اور ووٹ کاسٹ کرنے کے بجائے واک آؤٹ کیا تھا لیکن راجیہ سبھا میں اگر وہ ایسا کرتی تو حکومت مشکل میںآ سکتی تھی۔شاید یہی کردار اس نے اس وقت بھی ادا کیا جبکہ ایک طرف اپوزیشن پارٹیاں وال مارٹ اور لابنگ کے تعلق سے اپنا مظاہر ہ کررہی تھی تو دوسری طرف بہوجن سماج پارٹی سپریمو مایاوتی نے پرموشن میں ریزرویشن سے متعلق آئینی ترمیم بل پراپنے تیور سخت کر لیے اور انتباہ دیا کہ حکومت اگر بل راجیہ سبھا میں پاس نہیں کراپائی تو وہ کوئی بھی سخت فیصلہ لے سکتی ہیں۔
راجیہ سبھا میں پیر کو ایک بل پیش کیے جانے کا امکان تھا، لیکن وال مارٹ کے لابنگ کے ایشوپر ہنگامے کے سبب راجیہ سبھا کی کاروائی ملتوی کر دی گئی۔ایف ڈی آئی پر مایاوتی نے راجیہ سبھا میں حکومت کی مدد کی تھی اور لوک سبھا میں ان کی پارٹی نے واک آئوٹ کیا تھا۔ اسی وقت مایاوتی نے واضح کر دیا تھا کہ وہ مفاد عامہ کے بلوں کے لیے حکومت کی حمایت کر رہی ہیں اور اس میں پروموشن میں ریزرویشن بل مایاوتی کے ایجنڈے میں سب سے اوپر تھا۔ٹھیک اسی وقت جبکہ ایک جانب بی ایس پی اپنے بل پرموشن میں ریزرویشن پر ہنگامہ کررہی تھی سماج وادی پارٹی کے ارکان نے بھی سرکاری ملازمتوں میں ترقیوں میں ایس سی ایس ٹی کے لیے تحفظات بل کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیے۔ایس پی ارکان نریش اگر وال کی قیادت میں ترقی میں تحفظات نہیں چلے گا کے نعرے لگاتے ہوئے ایوان کے وسط میں پہونچ گئے۔معاملہ وال مارٹ کے لیے لابنگ کا تھا لیکن دونوں ہی پارٹیوں ایس پی اور بی ایس پی نے شور و غل کے ذریعہ معاملہ کو دوسرا رخ دے دیا۔ اب نہیں معلوم کہ آیا واقعی یہ ذمہ داران اور ان کے ارکان اپنے ایجنڈے پر زور آزمائی کر رہے تھے یا معاملہ کو پلٹنے اور ٹھنڈا کرنے میں یو پی اے حکومت کا ساتھ دے رہے تھے۔
واقعہ یہ ہے کہ زرعی پیداوار میں ہندوستان دنیا میں دوسرے نمبر ہونے کے باوجود بڑے پیمانے پر بھوک کا سامنا کر رہا ہے ہے۔خوراک کی کمی کے شکار بچوںکا تناسب دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے 47فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیںاور غربا کی تعداد افریقہ کے غریب ترین ممالک سے دوگنی ہوچکی ہے۔ہر سال 21لاکھ بچے 5سال کی عمر کو پہنچنے سے قبل ہی قابل علاج بیماریوں کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ان حالات میں والمارٹ اور دیگر کمپنیوں کاندوستان میں آنا، ان کے لیے لابیئنگ جیسی باتوں کا منظر عام پر آنا،بیرونی سرمایہ کاری میں شامل ہو کر اسمال اسکیل انڈسٹریز کو نقصان پہنچایا جانا۔ اور اس طرح کے دیگراقدامات کیا ملک کے مفاد میں ہوسکتے ہیں؟
اس کے باوجود کہ چین، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ میں خوردہ فروشی کے شعبوں تک راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو صد فی صد رسائی حاصل ہے لیکن وہاں اور یہاں میں فرق شاید یہی ہے کہ ہم بے انتہا گھپلوں اور گھوٹالوں کے ریکارڈ محفوظ رکھتے ہیں جبکہ ان کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ ان حالات میں یہ بات تو صحیح ہے کہ کھدرے بازار میں بیرونی سرمایہ کاری سے ان چھوٹے قسم کے دلالوں و سرمایہ داروں کی گرفت کمزور ہوگی جو بڑے پیمانہ پر استحصال کرتے ہیں لیکن سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ وہ کون لوگ ہوں گے جن کی گرفت مضبوط ہونے کے مزید امکانات بڑھ جائیں گے؟
محمد آصف اقبال (١٧دسمبر ٢٠١٢ئ ، نئی دہلی) maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com