امریکہ میں معاشی عدم استحکام کے خلاف وال اسٹریٹ پر قبضے کے نام سے شروع ہونے والا احتجاج جاری ہے اور نیویارک کے علاوہ بہت سے امریکی شہروں تک پہنچ چکا ہے۔ اس احتجاج کو زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی حمایت حاصل ہے۔ جن میں شہری اور سماجی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ امریکہ میں موجود مسلمان تنظیمیں بھی اب اس احتجاج کا حصہ بن رہی ہیں۔اس تحریک کو شروع ہوئے دو مہینے ہونے کو آئے ہیں اور نیو یارک سے لے کر واشنگٹن تک جاری ان احتجاجی ریلیوں میں شرکت کرنے والے کو پولیس سے نمٹنے اور عدم تشدد کے بارے میں بھی معلومات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔ واشنگٹن میں ہونے والے اس مظاہرے میں ایک مقامی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالبعلم پال ایڈلر مظاہرین کو امریکہ میں سماجی حقوق کے لیے چلنے والی تحریکوں کے بارے میں بتا تے ہوئے کہا کہ انیسویں صدی کے اوائل اور بیسویں صدی کے آغاز میں ان میں شدت آئی۔ وہ صنعتی انقلاب اور جدید سرمایہ دارانہ نظام کے آغاز کا وقت تھا، جس کے ساتھ سماجی حقوق کی تحریکوں اور مزاحمت میں بھی تیزی آئی۔جبکہ دوسری طرف نیو یارک میں ان مظاہروں کے نقطہ آغاز ، وال اسٹریٹ کے سامنے شہر کی مسلمان تنظیموں کے نمائندوں کی شرکت کی دیکھی جا رہی ہے ۔ کاونسل آن امریکن اسلامک ریلیشن اور اسلامک لیڈر شپ کاونسل کی جانب سے امریکہ میں جاری اس تحریک کا ساتھ دینے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔لنڈا سارسور ایک اور اسلامک تنظیم عرب امریکن ایسوسی ایشن سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ، نیو یارک کے مسلمان یہاں آکیوپائے وال اسٹریٹ تحریک سے اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے ہیں۔اسلامک لیڈرشپ کونسل کے امام ایوب عبدل باقی نے اپنی تقریر میں محمدۖ کے آخری خطبے کی بنیاد پر انسانوں کے بنیادی سماجی حقوق کی وکالت کی ۔ انھوں نے وال اسٹریٹ کے بینکوں کے بارے میں مبہم انداز سے بات کرتے ہوئے سود اور ربا کے نظام کے بارے میں اسلامی احکامات کا ذکر کیا۔ امریکی آئین میں مذہب کے لئے دیئے گئے آزادی اظہار رائے کے حق کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ کہ امریکی مسلمان اس آزادی سے مستفید نہیں ہو رہے اور انھیں ابھی بھی عصبیت اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ان مظاہروں میں مسلمانوں کے علاوہ امریکہ کی دیگر مقامی اور مزدور تنظیموں کے نمائندے بھی شرکت کر رہے ہیں ۔ بیشتر افراد مصر، تیونس اور لیبیا سے اٹھنے والی تحریکوں سے متاثر ہوکر ان مظاہروں میں شامل ہوئے ہیں۔تیونس سے تعلق رکھنے والے ایک ٹیکسی ڈرائیور عبدناصر شمک کا کہنا تھا کہ وہ تیونس میں انتخابات سے خوش ہیں اور امریکہ میں جاری اس تحریک میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے بقول، اچھی بات یہ ہے کہ تیونس میں بھی اس طرح کی تحریک نوجوانوں نے شروع کی تھی لیکن سب کو اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ امریکیوں کو اس تحریک کا ساتھ دینا چاہیے۔اس تحریک کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا کوئی لیڈر نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ تیزی سے امریکہ کے مختلف شہروں میں پھیلتی جارہی ہے۔ اس تحریک کے مقاصد بھی بدلتے رہے ہیں، جن میں امریکی جنگوں کی مخالفت،دولت مندوں پر ٹیکس لگانے اور معاشی نا اہمواری ختم کرنے کے مطالبات شامل ہیں۔