اس مقدمے کی آئندہ سماعت بارہ ستمبر کو اسلام آباد میں ہوگی۔
سپریم کورٹ نے وزارت اطلاعات کو خفیہ فنڈز منجمد کرنے کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ حکام سے اس ضمن میں بارہ ستمبر کو جواب طلب کر لیا ہے۔
عدالت نے وزارت اطلاعات کے حکام سے یہ بھی کہا ہے کہ بتایا جائے کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران کن کن افراد کو اس خفیہ فنڈز سے رقم کی ادائیگی کی گئی۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کوئٹہ میں سپریم کورٹ کی رجسٹری برانچ میں نجی ٹی وی چینلز کے مالکان کے اثاثوں کی چھان بین کے لیے کمیشن کی تشکیل سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کی۔
درخواست گزار حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ وزارت اطلاعات میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کو معلومات فراہم کرنے کی بجائے ڈس انفارمیشن پھیلا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزارت اطلاعات و نشریات اخبارت کے قارئین کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے اشتہارات دینے کی بجائے اپنی پسند کے اخباری مالکان کو اشہتارات فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان اشہتارات کے ذریعے میڈیا کے مالکان کو رشوت دی جاتی ہے۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ ایک نجی اشتہاری کمپنی نے پچپن کروڑ روپے کا غبن کیا ہے لیکن اس کے باوجود پنجاب حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے اسے مبینہ طور پر تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ اٹھاون سے زائد ٹی وی چینلز کے مالکان نے اپنے جواب تحریری شکل میں عدالت میں جمع کروا دیے ہیں
بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے وزارت اطلاعات کے ڈپٹی سیکرٹری محمد ندیم سے پوچھا کہ اخبارات کو اشتہارات دینے کا طریقہ کار کیا ہے اور کیا وزارت اطلاعات میں کوئی خفیہ فنڈ بھی ہے۔
سرکاری اہلکار نے بتایا کہ وزارت اطلاعات میں خفیہ فنڈ تو موجود ہے لیکن وہ اس بارے میں عدالت کو معلومات دینے کے پابند نہیں ہیں۔
جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئین کے آرٹیکل انیس اے کے تحت مفاد عامہ کے تحت ایسی اطلاعات دینے کے پابند ہیں۔
بینچ کے سربراہ نے وزارت اطلاعات کے اہلکار سے کہا کہ وہ آئندہ سماعت پر تمام تفصیلات عدالت میں جمع کروائیں کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران اس خفیہ فنڈز کا استعمال کہاں کہاں کیا گیا۔
ان درخواستوں کی مد میں پاکستان الیکٹرانک ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور اٹھاون سے زائد ٹی وی چینلز کے مالکان نے اپنے جواب تحریری شکل میں عدالت میں جمع کروا دیے ہیں۔ اس مقدمے کی آئندہ سماعت بارہ ستمبر کو اسلام آباد میں ہوگی۔