سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں وزیراعظم کو تیرہ فروری کو طلب کرلیا۔ این آراو فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔ جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ وزیر اعظم کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا وزارت قانون نے وزیراعظم کو خط نہ لکھنے کی سمری دی تھی۔ جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیئے وزیر اعظم کو سمری مسترد کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا وزارت قانون نے فیصلے پرعمل کی سمری بھیجی جس پر صرف اٹارنی جنرل انور منصور نے اختلاف کیا تھا۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا انور منصور کیعلاوہ سیکریٹری قانون نے بھی اعتراض کرتے ہوئے استعفے دیئے۔ انہوں نے کہا خطوط کی نقل ظاہر کرتی ہے وزارت قانون خط لکھنے کے حق میں تھی۔ اعتزازاحسن نے کہا یہ خطوط نیب نے لکھے، سیکرٹری خارجہ نے انہیں روک دیا۔ وزیراعظم کو معاملے کا علم نہیں تھا۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا اس معاملے پر تین افراد مستعفی ہوئے پھر بھی وزیراعظم بیخبر تھے۔ جسٹس آصف سعید نے کہا پانچ جولائی کو تسلیم کیا گیا عدالت کی ہدایت پرعمل نہیں ہوا۔ اعتزازاحسن نے کہا وزیراعظم نے دوسری سمری پر تئیس ستمبردوہزار دس کو دستخط کیے۔ جسٹس آصف نے ریمارکس دیئے چوبیس ستمبرکوعدالت نے یہ بات دہرائی سمری درست نہیں۔ ستائیس ستمبرکوکہا گیا وزیر اعظم کوغور کیلئے وقت درکارہے اس سے ظاہر ہوتاہے۔ وزیراعظم نظرثانی کیلئے تیار تھے۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ سمری میں استثنی کا ذکرنہیں ، ہرسمری میں لکھاہیسوئس کیس ختم ہوگیا۔ خط کی ضرورت نہیں، اعتزازاحسن نے کہا اس کیس میں استثنی زیربحث ہے ہی نہیں۔ وزیر اعظم کے بیان کو شہادت کا درجہ نہ دیں جسٹس ناصرالملک نے کہا آپ نے اپنے جواب میں بھی استثنی کی بات کی ہے۔ اعتزازاحسن نے کہا عدالت یہ طے کرے وزیر اعظم نے غلط اقدام کیاہے یانہیں۔ وزیر اعظم کی نیت غلط نہیں تھی ۔اعتزاز احسن نے کہاکہ میں آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وزیر اعظم نے خط کیوں نہیں لکھا،جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ پہلے آپ نے استثنی کی بات کی تھی اب آپ دوسری بات کر رہے ہیں، اعتزاز احسن نے کہا کہ میں دلائل دے رہا ہوں عدالت وزیر اعظم کو نیچا دکھانا چاھتی ہے تو میں کچھ نہیں کر سکتا۔