اسلام آباد (جیوڈیسک) جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ پانچ سو سال پہلے کا نظریہ تھا کہ بادشاہ کوئی غلطی نہیں کرتا۔ یہ نظریہ اب ختم ہو گیا ہے ہر کوئی جوابدہ ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ وزیراعظم کسی عدالت کوجوابدہ نہیں.جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ این آراونظرثانی اپیل کی سماعت کررہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے بینچ پراعتراض کرتے ہوئے کہا کہ 12 جولائی کے حکم نامے کے خلاف نظر ثانی کو 17 رکنی بینچ کو بھیجا جائے۔ سپریم کورٹ کے قواعد کے مطابق جس بینچ نے حکم دیا ہو وہی نظر ثانی سنتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نظرثانی کیس کی سماعت عید کے بعد رکھی جائے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ہم اس نظر ثانی کو سن سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس حکم نامے کے باعث وزیراعظم کو توہین عدالت کا نوٹس ملا۔نظرثانی کو بھی وزیراعظم کے مقدمے کے ساتھ سنا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ این آر او عمل درآمد کیس میں جتنے بھی حکم نامے آئے وہ آئین کی مسلسل خلاف ورزی ہیں۔ وزیراعظم اور نظر ثانی کے مقدمات کے لیے لاجر بینچ بنایا جائے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے صرف 12 جولائی کا حکم نامہ چیلنج کیا ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عمل درآمد سے متعلق تمام حکم نامے ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ آپ نے حکم میں لکھا کہ وزیر اعظم کسی سمری اور رائے کے بغیر خط لکھیں۔ میرا اعتراض ہے کہ عدالت کو ایسے الفاظ میں ہدایت دینے کا اختیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو آئین کے آرٹیکل 248 کی ذیلی شق 1 کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ کوئی عدالت وزیراعظم کو عمل درآمد کی ہدایت نہیں دے سکتی۔ آئین کے مطابق وزیراعظم کو کسی بھی مقدمے میں فریق نہیں بنایا جا سکتا اورنہ وزیراعظم کسی عدالت کو جوابدہ ہیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم گیلانی کے مقدمے میں اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ وہ آرٹیکل 248 کا سہارا نہیں لیں گے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت ان کے موقف پر غور کرے تا کہ ملک کو جمود سے نکالا جا سکے۔ وزیراعظم آئین سے بالاترنہیں ہیں لیکن واضح رہے کہ عدالت آئین نہیں ہوتیں۔ وزیراعظم صرف آئین کے پابند ہیں،عدالت کے نہیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیے کہ کیا آرٹیکل 248 کا مطلب ہے کہ وزیراعظم عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کریں۔ اب آئین کی تشریح وزیراعظم کریں گے یا ہم۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ بہت منفرد نکات اٹھا رہے ہیں،ہم ان نکات کا جواب دینے کے لیے فیصلہ لکھیں گے۔ اٹارنی جنرل نیکہا کہ آپ پرسنل ہو جاتے ہیں۔
جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس دیے کہ عدالت کوئی تشریح کرے تو کون فیصلہ کرے گا کہ یہ آئین کے مطابق ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ آئین کرے گا۔ عدالت کہہ دے کہ ملک میں آمریت ہو گی الیکشن نہیں ہوں گے تو آئین بتائے گا کہ عدالتی فیصلہ غیر آئینی ہے۔ یہ عدالتیں پہلے بھی آمریت کو آئین پر ترجیح دیتی رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو اپنے دفتری امور پر مکمل تحفظ حاصل ہے۔ عدالت وزیر اعظم سے رپورٹ نہیں مانگ سکتی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں وزیر اعظم کے خلاف اسطرح کا مقدمہ نہیں آیا۔عدالتوں کو صرف وہ فیصلے دینے چاہیں جو آئین کے مطابق ہوں۔ گزشتہ 3 سالوں میں آپ کا ذہن بن چکا ہے کہ آپ کا فیصلہ حرف آخر ہوتا ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ آئین کی تشریح صرف عدالت کرسکتی ہے جبکہ وزارت قانون کو بھی یہ اختیار حاصل ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ہم نے 6 آپشن میں دیے تھے تو لکھا تھا کہ آخری ذمہداری وزیر اعظم کی ہو گی۔ حکومت آپشن والے فیصلے پر نظر ثانی کرواتی تو آج ایسی مشکل نہ ہوتی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وزیراعظم 3 مرتبہ صرف عدالتوں کے احترام میں پیش ہوئے ورنہ انہیں بلایا نہیں جا سکتا تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم نے تو اس وقت اعتراض نہیں کیا تھا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ اب اعتراض کر رہے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کہ این آر او فیصلے کا کیا کریں جو حتمی ہے اور کہتا ہے کہ خط لکھو۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ این آر او فیصلہ رہے گا تو بہت مشکل ہو جائے گی۔