اسلام آباد: (جیو ڈیسک) سپریم کورٹ میں وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ عدالت نے اعتزاز احسن کو آئندہ بدھ تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔ اعتزاز احسن کہتے ہیں امریکا ریمنڈ ڈیوس جیسے مجرم کو لے گیا۔
اعتزاز احسن نے وزیراعظم کے دفاع میں دلائل دیتے ہوئے کہا یہ کرپشن کا عام کیس ہے اور نہ ہی اس عدالت کی حکم عدولی کا۔ انہوں نے جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں قائم سات رکنی بنچ کے سامنے دلیل دی کہ یہ کیس جس عہدے سے متعلق ہے، اسے بین الاقوامی استثنی حاصل ہے۔ عدالت کا سوئس حکام کو خط لکھنے کا حکم فی الحال قابل عمل نہیں۔ ایک سیشن جج خودکوئی ایف آئی آر درج کرائے تو قانون کے مطابق وہ اس کیس میں جج نہیں ہوسکتا۔ آرٹیکل ٹین اے قانون کی درست عمل داری کا ہے۔
جسٹس آصف کھوسہ نے استفسار کیا ماضی میں کیا ہوتا تھا جس پر اعتزاز نے جواب دیا آرٹیکل ٹین اے سے پہلے شوکاز نوٹس جاری کرنے والا جج سماعت کر سکتا تھا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اعتزاز احسن کہنا چاہتے ہیں کچھ حقوق قانون سے مشروط ہیں اور کچھ غیر مشروط اور آرٹیکل ٹین اے کا حق بھی غیر مشروط ہے۔
اعتزاز نے کہا توہین عدالت کے مقدمہ میں قانون یہ کہتا ہے جج اپنے ہی لگائے گئے الزام میں جج نہیں ہو سکتا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا آپ یہ کہنا چاھتے ہیں فرد جرم جن ججوں نے عائد کی وہ سماعت نہ کریں۔ اعتزاز احسن نے کہا یہاں سوال صرف قانون پرعمل کا ہے۔ جسٹس اطہر سعید نے کہا اس طرح تو تمام ججز کے بارے میں اعتراض کردیا جائے گا یہ ان کا اپنا مقصد ہے۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنا صرف ججوں کا مقصد نہیں ۔ پاکستانی عوام عدلیہ کے فیصلے پر عمل چاہتی ہے۔ اعتزاز نے کہا یہ استثنی کسی فرد کو ہے نہ ہی لامحدود مدت کیلئے ہے۔ دوسرے ممالک اپنے عام لوگوں کو بھی دوسرے ملک کی عدالت پر نہیں چھوڑتے۔ ریمنڈیوس جیسے مجرم کو بھی اٹھا کر لے جاتے ہیں۔کیا اپنے صدر کو سوئس مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر دیں۔ جسٹس تصدق نے کہا وزیر اعظم نے یہ دفاع لیا ہی نہیں۔ وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا آپ نے ریکارڈ نہیں کیا ویز اعظم نے اپنے جواب میں یہ بات کہی ہے۔