چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ وفاق نے اپنے جواب میں میمو کی حقیقت سے انکارنہیں کیا، آرمی چیف،ڈی جی آئی ایس آئی،وزیراعظم،حسین حقانی کیلئے بھی میموکاوجود ہے۔ سپریم کورٹ میں میمو گیٹ اسکینڈیل کی سماعت کے موقع پر اپنے ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ حسین حقانی بھی تحقیقات کے نتیجے میں سرخروہونا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میموکیس میں وجود صرف کاغذ کے ایک ٹکڑے کا ہے، کاغذ کے ٹکڑے کو بنیاد بناکر الزام لگایا گیا، منصور اعجاز امریکی شہری ہیں،انکی وفاداریاں امریکاکیساتھ ہیں، جسٹس جواد ایس خواجہ نے عاصمہ جہانگیرسے استفسار کیا کہ آرٹیکل 19 اے کی بھی وضاحت کریں،عاصمہ جہانگیر نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 19اے کا مطلب اطلاعات تک رسائی ہے جس پر چیف جسٹس نے عاصمہ جہانگیر سے سوال کیا کہ کوئی تحقیقات کامطالبہ کرے تو عدالت کیا کرے، عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ آپ تو بادشاہ ہیں، تو چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ہم نہیں قانون اور آئین بادشاہ ہیں، عاصمہ جہانگیر نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ عوامی اہمیت اوربنیادی حقوق کی حدود کو متعین کرناہوگا، انہوں ے کہا کہ تحقیقات کے لئے ہم بالکل تیار ہیں، معاملہ سیاسی ہے آئی ایس آئی کے چیف مقدمہ لیکرآئے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں سیاسی و غیرسیاسی کی تفریق واضح کریں، یہ ملکی سالمیت کامعاملہ ہے سیاسی کیسے ہو سکتا ہے، ملکی خودمختاری وسلامتی ہرشخص کابنیادی فرض ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ صدر نے میمو سے متعلق جواب نہیں دیااس کاکیامطلب لیاجائے، عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ایسی بات ہے تو معاملہ صدر کے مواخذے کی طرف لے جایا جا رہا ہے، جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہم صرف میموتک محدود ہیں۔