اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انسان کو ایک مُقرَّرہ وَقت کیلئے خاص مقصد کے تحت اِس دنیا میں بھیجا ہے۔
Khana Kaaba (Subhanallah)
چُنانچِہ پارہ 18سورة المُؤمِنُون آیت نمبر115میں ارشاد ہوتا ہے:
ترجمۂ کنزالایمان : تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بے کار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں
خزائنُ العرفان” میں اس آیتِ مقدّسہ کے تحت لکھا ہے: اور (کیا تمہیں) آخِرت میں جزا کیلئے اٹھنا نہیں بلکہ تمہیں عبادت کیلئے پیدا کیا کہ تم پر عبادت لازم کریں اور آخِرت میں تم ہماری طرف لوٹ کر آئو تو تمہیں تمھارے اعمال کی جزا دیں۔
موت و حیات کی پیدائش کا سبب بیان کرتے ہوئے پارہ 29 سورة الملک آیت نمبر 2میں ارشاد ہوتا ہے:
ترجَمۂ کنزالایمان : وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے۔
زندگی کاوَقت تھوڑا ہے
PLANET Earth
مذکورہ دو آیات کے علاوہ بھی قراٰنِ پاک میں دیگر مقامات پر تخلیقِ انسانی یعنی انسان کی پیدائش کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ انسان کو اس دنیا میں بَہُت مُختصر سے وقت کیلئے رہنا ہے اوراس وَقفے میں اسے قبر و حشر کے طویل ترین معاملات کیلئے تیاری کرنی ہے لہٰذا انسان کا وقت بے حد قیمتی ہے۔ وَقت ایک تیز رفتار گاڑی کی طرح فَرّاٹے بھرتا ہوا جارہا ہے نہ روکے رُکتا ہے نہ پکڑنے سے ہاتھ آتا ہے، جو سانس ایک بار لے لیا وہ پلٹ کر نہیں آتا۔ چُنانچِہ
سانس کی مالا
حضرت سیِّدُنا حسنِ بصری رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ۔جلدی کرو! جلدی کرو!!تمہاری زندگی کیا ہے ؟ یہی سانس تو ہیں کہ اگر رُک جائیں تو تمہارے ان اعمال کا سلسلہ بھی منقطع ہوجائے جن سے تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کا قرب حاصل کرتے ہو۔اللہ عَزَّوَجَلَّ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے اپنا جائزہ لیا اور اپنے گناہوں پر چند آنسو بہائے ۔یہ کہنے کے بعد آپ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے پارہ 16سورة مریم کی آیت نمبر 84 تلاوت فرمائی:
ترجَمۂ کنزا لایمان:اور ہم تو ان کی گنتی پوری کرتے ہیں۔
حُجَّةُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمدبن محمد غزالی علیہ رحمة اللہ الوالی فرماتے ہیں:یہاں گنتی سے سانسوں کی گنتی مُراد ہے۔
(اِحْیائُ الْعُلُوم ج٤ ص ٢٠٥ دارصادر بیروت)
”دن”کا اعلان
حضرتِ سیِّدُنا امام بیہقی علیہ ر حمة اللّٰہِ القوی ”شُعَبُ الایمان”میں نقل کرتے ہیں: تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: روزانہ صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اُس وقت ”دن” یہ اعلان کرتا ہے: اگر آج کوئی اچّھا کام کرنا ہے تو کر لو کہ آج کے بعد میں کبھی پلٹ کر نہیں آئوں گا۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! زندگی کاجو دن نصیب ہو گیا اسی کو غنیمت جان کر جتنا ہوسکے اس میں اچھے اچھے کام کرلئے جائیں تو بہتر ہے کہ ”کل” نہ جانے ہمیں لوگ ”جناب” کہہ کے پکارتے ہیں یا ”مرحوم” کہہ کر۔ ہمیں اس بات کا احساس ہویا نہ ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم اپنی موت کی منزل کی طرف نہایت تیزی کے ساتھ رَواں دَواں ہیں۔ چُنانچِہ پارہ 30 سورة اِنشِقاق کی آیت نمبر6 میں ارشاد ہوتا ہے:
رجَمۂ کنزالایمان: اے آدمی! بے شک تجھے اپنے رب (عزوجل) کی طرف ضرور دوڑنا ہے پھر اس سے ملنا۔
اچانک موت آجاتی ہے
اپنے وقت کو فُضولیات میں برباد کرنے والو! غور کرو زندگی کس قَدَر تیز رفتاری کے ساتھ گزرتی جارہی ہے۔ بارہا آپ نے دیکھا ہوگا کہ اچّھا بھلا ڈَیل ڈَول والا انسان اچانک موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے، اب قَبْر میں اُس پر کیا بِیت رہی ہے اس کا اندازہ ہم نہیں کرسکتے البتّہ خوداُس پر زندگی کا حال کھل چکا ہوگا کہ
کتنی بے اعتبار ہے دنیا موت کا انتظار ہے دنیا گرچِہ ظاہِر میں صورتِ گُل ہے پر حقیقت میں خار ہے دنیا
اے دنیا کے مال کے متوالو! جمعِ مال ہی کو اپنی زندگی کا مقصد ِوَ حید سمجھنے والو ! جلدی جلدی اپنی آخِرت کی تیّاری کرلو۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ رات بھلے چنگے سونے کے باوُجُود صبح تمہیں اندھیری قبر میں ڈال دیا جائے۔ لِلّٰہ! غفلت کی نیند سے بیدار ہوجائو! اللہ عَزَّوَجَلَّ پارہ 17سورة الانبِیائکی پہلی آیت میں ارشاد فرماتا ہے : ترجَمۂ کنزالایمان: لوگوں کا حساب نزدیک اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہیں۔
جنَّت میں بھی افسوس!
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمیں اپنے وقت کی قدر پہچاننی ضروری ہے، فالتو وقت گزرنا کتنے بڑے نقصان کی بات ہے وہ اس حدیثِ مبارَک سے سمجھئے چُنانچِہ تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے: ”اہلِ جنّت کوکسی چیز کا بھی افسوس نہیں ہوگا سوائے اُس ساعت (یعنی گھڑی ) کے جو (دنیا میں) اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذِکر کے بِغیر گزرگئی۔” (اَلْمُعْجَمُ الْکَبِیْر ج٢٠ ص٩٣۔٩٤ حدیث ١٧٢ داراحیاء التراث العربی بیروت)
قَلَم کا قَط
حافِظ اِبن عَساکِر ” تَبْیِیْنُ کَذِبِ الْمُفْتَرِی” میں فرماتے ہیں: (پانچویں صدی کے مشہور بزرگ) حضرت سیِّدُنا سلیم رازی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کا قَلَم جب لکھتے لکھتے گھس جاتا تو قَط لگاتے (یعنی نوک تراشتے )ہوئے(اگر چِہ دینی تحریر کیلئے یہ بھی ثواب کا کام ہے مگر ایک پنتھ دو کاج کے مِصداق) ذکرُ اللہ شُروع کردیتے تاکہ یہ وَقت صِرف قَط لگاتے ہوئے ہی صَرف نہ ہو!
جنَّت میں دَرَخت لگوائیے!
وَقت کی اَھَمِّیَّت کا اس بات سے اندازہ لگائیے کہ اگر آپ چاہیں تو اس دنیا میں رہتے ہوئے صِرف ایک سیکنڈ میں جنَّت کے اندر ایک دَرَخت لگوا سکتے ہیں اور جنَّت میں دَرَخت لگوانے کا طریقہ بھی نہایت ہی آسان ہے چُنانچِہ ”ابنِ ماجہ شریف” کی ایک حدیثِ پاک کے مطابِق ان چاروں کلمات میں سے جو بھی کلمہ کہیں جنّت میں ایک دَرَخت لگا دیا جائے گا۔ وہ کلمات یہ ہیں :
(سُنَن ابن ماجہ ج٤ ص٢٥٢حدیث ٣٨٠٧ دارالمعرفة بیروت)
دُرُود شریف کی فضیلت
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! جنّت میںدَرخت لگوانا کس قَدَر آسان ہے! اگر بیان کردہ چاروںکَلِمات میںسے ایک کَلِمہ کہیں تو ایک اور اگر چاروںکہہ لیں گے تو جنّت میں چار دَرَخت لگ جائیں گے۔اب آپ ہی غور فرمایئے کہ وقت کتنا قیمتی ہے کہ زَبان کومعمولی سی حَرَکت دینے سے جنّت میں دَرخت لگ جاتے ہیں تواے کاش!فالتو باتوں کی جگہ سبحٰنَ اللّٰہ سبحٰنَ اللّٰہ کا وِرد کرکے ہم جنّت میں بے شُمار دَرَخت لگوالیا کریں۔ ہم چاہے کھڑے ہوں ، چل رہے ہوں ، بیٹھے ہوں یا لیٹے ہوں یا کوئی کام کاج کررہے ہوں ہماری کوشش یہی ہونی چاہئیے کہ ہم دُرُود شریف پڑھتے رہیں کہ اس کے ثو ا ب کی کوئی انتہا نہیں سرکارِ نامدارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم فرماتے ہیں:جس نے مجھ پر ایک بار دُرُود شریف پڑھا اللہ عَزَّوَجَلَّ اُس پر دس رَحمتیں نازِل فرماتاہے ،دس گناہ مٹاتا ہے ، دس دَرَجات بُلند فرماتا ہے ۔ (سُنَنُ النَّسَائی ص٢٢٢ حدیث ١٢٩٤ دار الکتب العلمیة بیروت)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!کاش !بولنے سے پہلے اِس طرح تولنے کی عادت پڑ جائے کہ یہ بات جو میں کرنا چاہتا ہوں اس میں کوئی دینی یا دُنیوی فائد ہ بھی ہے یا نہیں ؟ اگریہ بات فُضُول محسوس ہو تو بولنے کے بجائے ”دُرُود شریف ” پڑھنا یا” اللہ اللہ ” کہنا نصیب ہو جائے تاکہ ڈھیروں ثواب ہاتھ آئے ۔ یا سُبْحٰنَ اللّٰہ یا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ یا لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ یااَللّٰہُ اَکْبَر کہہ کر جنَّت میں دَرَخت لگوانے کی سعادت مل جایا کرے۔
حُسنِ اسلام
ترمذی شریف میں ہے:سرکارِ دو عالم،نُورِ مُجَسَّم ، شاہِ بنی آدم ، رسولِ مُحتَشَم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کا فرمانِ معظَّم ہے: انسان کے اسلام کی خویبوں میں سے ایک (خوبی)چھوڑ دینا ہے اس (اَمْر)کا جو اسے نفع نہ دے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! زندگی کے ایّام چند گھنٹوں سے اور گھنٹے لمحوں سے عبارَت ہیں ، زندَگی کا ہر سانس انمول ہیراہے ،کاش ! ایک ایک سانس کی قدر نصیب ہو جائے کہ کہیں کوئی سانس بے فائدہ نہ گزر جائے اور کل بروزِ قیامت زندَگی کا خزانہ نیکیوں سے خالی پاکر اشکِ ندامت نہ بہانے پڑ جائیں ! صدکروڑ کاش! ایک ایک لمحے کا حساب کرنے کی عادت پڑ جائے کہ کہاں بسر ہو رہا ہے، زہے مقدر! زندگی کی ہر ہر ساعت مفید کاموں ہی میں صَرف ہو ۔ بَروزِ قِیامت اوقات کوفُضول باتو ں ، خوش گپّیوں میں گزرا ہوا پا کر کہیں کفِ افسوس ملتے نہ رہ جائیں !
Islam is My Way of Life
وقت کے قَدْر دانوں کے ارشادات و مَنقولات
(1)امیرُ الْمُؤمِنِین حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ اللّٰہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں: ”یہ ایّام تمہاری زندگی کے صَفَحات ہیں ان کو اچّھے اَعمال سے زِینت بخشو۔”
(2)حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ ابنِ مسعود رضی اﷲتعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : ”میں اپنی زندَگی کے گزرے ہوئے اس دن کے مقابلے میں کسی چیز پر نادِم نہیں ہوتا جودن میرا نیک اعمال میں اضافے سے خالی ہو”۔
(3)حضرتَ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: روزانہ تمہاری عمر مسلسل کم ہوتی جارہی ہے تو پھر نیکیوں میں کیوں سستی کرتے ہو؟ ایک مرتبہ کسی نے عرض کی: یا امیرَ المومنین ”یہ کام آپ کل پر مُؤَخَّر (مُ۔اَخ۔خَر) کردیجئے ارشاد فرمایا: ” میں روزانہ کا کام ایک دن میں بمشکل مکمل کرپاتا ہوں اگرآج کا کام بھی کل پرچھوڑدوں گا تو پھر دو دن کا کام ایک دن میں کیونکر کر سکوں گا؟”
آج کا کام کل پر مت ڈالو کل دوسرا کام ہوگا
(4)حضرت سیِّدُنا حسنِ بصری رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ۔اے آدمی !تو ایّام ہی کا مجموعہ ہے ، جب ایک روز گزر جائے تو یوں سمجھ کہ تیری زندگی کا ایک حصّہ بھی گزر گیا۔ (الطبقات الکبری للمناوی ج١ ص٢٥٩ دار صادر بیروت)
(5)حضرت سیِّدُنا امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : میں ایک مدت تک اہلُ اللہ کی صحبت سے فیضیاب رہا ان کی صحبت سے مجھے دو اَہَم باتیں سیکھنے کو ملیں۔ (1) وقت تلوار کی طرح ہے تم اس کو (نیک اعمال کے ذریعے) کاٹو ورنہ (فضولیات میں مشغول کرکے) یہ تم کو کاٹ دیگا (2) اپنے نفس کی حفاظت کرو اگر تم نے اس کو اچھے کام میں مشغول نہ رکھا تو یہ تم کو کسی بُرے کام میں مشغول کر دیگا۔
(6) امام رازی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :”خدا عزوجل کی قسم! کھانا کھاتے وَقت عِلمی مَشغلہ (تحریری یا مُطالَعہ) ترک ہوجانے کا مجھے بَہُت افسوس ہوتا ہے کہ وَقت نہایت ہی قیمتی دولت ہے۔”
عجب چیز احساس ہے زندگی کا
(7) آٹھویں صَدی کے مشہور شافِعی عالم سیِّدُنا شمس الدّین اَصبہانی قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی کے بارے میں حافِظ ابنِ حَجَر رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: آپ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ اس خوف سے کھانا کم تناوُل فرما تے تھے کہ زیادہ کھانے سے بَول وبَراز کی ضَرورت بڑھے گی اور بار باربیت الخلاء جاکر وَقت صَرف ہوگا!(الدررالکامنة للعسقلانی ج٤ ص٣٢٨ داراحیاء التراث العربی بیروت)
(8)حضرتِ علامہ ذہبی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ ”تذکِرةُ الحُفَّاظ” میں خطیبِ بغدادی علیہ رَحْمَةُ اللّٰہِ الھادیکے بارے میں تحریر فرماتے ہیں :”آپ راہ چلتے بھی مطالَعَہ جاری رکھتے۔” (تاکہ آنے جانے کا وقت بے کار نہ گزرے)
(تذکرة الحفاظ ج٣ ص٢٢٤ دارالکتب العلمیة بیروت)
(9)حضرتِ جنید بغدادی علیہ رحمة اللہ الھادی وقتِ نَزْع قرآنِ پاک پڑھ رہے تھے، ان سے اِستفسار کیا گیا :اس وَقت میں بھی تلاوت؟ اِرشاد فرمایا: میرا نامۂ اَعمال لپیٹا جارہا ہے تو جلدی جلدی اس میں اِضافہ کررہا ہوں۔