آسٹریلیا کی ٹیم آج کل یو اے اکے دورے پر آئی ہو ئی ہے جس میں تین ون ڈے انٹر نیشنل اور تین ٹی ٹونٹی میچز کھیلے جا نے ہیں۔ پاکستانی شائقینِ کرکٹ بہت خوش ہیں کہ انھیں اسٹریلیا جیسی نامی گرامی ٹیم کے کھیل سے محظوظ ہو نے کے مواقع میسر آرہے ہیں۔(٨٠)اسی ڈگری کی نمی اور ٤٥ ڈگری کے انتہائی گرم موسم میں یو اے ای میں کرکٹ میچز کے انعقاد کا فیصلہ بڑا حیران کن ہے کیونکہ اس طرح کے موسم میں کرکٹ کھیلنا آسان نہیں ہو تا۔ اس طرح کے گرم موسم میں کرکٹ میچز کے انعقاد کو میں کرکٹ کے قتل کے مترادف سمجھتا ہوں۔اسٹریلیا کیلئے اس طرح کی گرمی میں اپنی پرفارمنس دینا انتہائی مشکل مرحلہ تھا۔
میچ کے دوران ان کی جو جسمانی کیفیت تھی سٹیڈیم میں بیٹھے ہو ئے شائقین واضح طور پر محسوس کر رہے تھے ۔ انھیں میچ کے دوسرے ہاف میں گیند کو گرپ کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔ نمی اتنی زیادہ تھی کہ گیند ہر شارٹ کے ساتھ گیلا ہو رہا تھا اور بائو لرز کیلئے اپنی لائن اور لینتھ قائم رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ شائقین کی حالت بھی بڑی نا گفتہ بہ تھی۔ شائقین پسینے سے شرا بور تھے اور کھیل کے ساتھ ساتھ ان کے دل میں ٹھنڈی ہوائوں کی بھی آرزو ابھر رہی تھی لیکن ہوا تھی کہ کہیں بھی محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔ انتہائی حبس کا موسم تھا اور نمی اسے اور بھی ناقابلِ برداشت بنا رہی تھی۔
شائقینِ کرکٹ کے جذبوں کی داد دینی پڑیگی کہ اتنی شدید گرمی میں بھی وہ اپنے کھلاڑیوں کو داد دے رہے تھے اورا ن کی ہر اچھی شارٹ پر ان کے حوصلے بڑھا رہے تھے۔یو اے ای کی سرزمین ہمیشہ ہی پاکستان کیلئے خوش قسمتی کی علامت رہی ہے۔ یہاں پر پاکستان نے بڑی بڑی فتوحات حا صل کی ہیں اور بڑی بڑی ٹیموں کے چھکے چھڑوائے ہیں ۔ بہت سی ٹیمیں پاکستان کی فتح کے خوف سے میدان سے بھاگ نکلیں اور آج تک لوٹ کر میدان میں نہیں اتریں۔ اس سلسلے میں بھارتی ٹیم کی مثا ل ہر لحاظ سے موزوں ہے جو یو اے ای میں آکر کھیلنا پسند نہیں کرتی کیونکہ وہ پاکستان کی یواے ای میں اعلی کارکردگی سے پریشر محسوس کرتی ہے۔ بھارت خود کو کرکٹ کا چمپین سمجھتا ہے لیکن یو اے ای میں اس نے جو پے در پے شکستوں کے زخم سہے ہیں اس سے وہ یہاں پر کھیلنے سے اجتناب کئے ہو ئے ہے۔ ١٩٨٥ میں جاوید میاں داد کے چھکے نے جس طر ح بھارتی ٹیم کے چھکے چھڑوائے تھے وہ ابھی تک اس خوف سے خود کو آزاد نہیں کرا سکی ۔ انھیں ہر قسم کی سہولیات کی پیشکش کی گئی لیکن انھوں نے ہر آفر ٹھکرا کر یو اے ای میں کھیلنے سے انکار کر دیا ۔ پاکستان کرکٹ بورڈکے چیرمین چوہدری ذکاء اشرف کا کہنا بالکل بجا ہے کہ بھارتی ٹیم خوف کا شکار ہے اوریو اے ای میں پاکستان کا مقابلہ کرنے سے کترا ری ہے۔ اب یہ طے ہوا ہے کہ پاکستانی ٹیم دسمبر میں بھارت جائیگی اور اس طرح ایک مدت کے بعد کرکٹ کو دو روائیتی حریف ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہو ں گئے۔
پاکستان شائقین کی خواہش ہے کہ جس طرح پا کستانی ٹیم بھارت کا دورہ کرنے والی ہے اسی طرح بھارت کو بھی پاکستان کا دورہ کرنا چائیے تا کہ انٹر نیشنل کرکٹ سے پاکستان کی تنہائی کا خاتمہ ہو سکے۔ بھارتی ٹیم کے پاکستانی دورے سے پاکستان میں کرکٹ کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو گا اور شائقینِ کرکٹ کی اعلی درجے کی کرکٹ دیکھنے کی آرزرو بھی پوری ہو جائے گی ۔ پچھلے سال انگلینڈ کو بھی یو اے ای میں پاکستان کے ہاتھوں وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا تھا اور انگلینڈ ٹیسٹ سیرز بڑی بری طرح ہار گیا تھا ۔پاکستانی سپنرز نے جس اعلی معیار کا کھیل پیش کیا اس نے بڑی بڑی ٹیموں کے دل ہلا کر رکھ دئے ہیں لہذا انگلینڈ کا شکار ہو نا کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسٹریلیا کے خلاف ہم نے یو اے ای میں اپنے جیتنے کی قائم کردہ روائیت کا بھی خا تمہ کر لیا ہے۔۔
Saeed Ajmal
کہتے ہیں کہ کرکٹ کا کھیل بڑا ہی بے اعتبارا اور غیر یقینی ہوتا ہے اور اسکے بارے میں کسی قسم کی پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ماضی کی جیت پر مستقبل کی فتح کے خواب سجائے جا سکتے ہیں۔ کرکٹ کا کھیل ایک ایسے مدو جزر کی مانند ہو تاہے جس کی لہریں کبھی کبھی انتہائی اتھری ہو جاتی ہیں اور کبھی کبھی بالکل د ھیمی ہو جاتی ہیں ایک غیر یقینی کی کیفیت ہوتی ہے جس میں کھلاڑی کو اپنے آپ کو ڈھالناہو تا ہے تا کہ وہ ٹیم کی امیدوں کو اپنے ساتھ لے کر چلتا رہے۔ کھلاڑی کی ذرا سی کوتاہی پورے میچ کی قسمت کو دائو پر لگا سکتی ہے اسی لئے ہر کھلاڑی کو اپنی بہترین صلا حیتوں کا اظہار کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کی ذار سی چوک ہار کے شاخسانے میں بدل جاتی ہے۔پاکستان کے پاس اس وقت دنیا کے بہتریں سپنرز ہیں جنھیں کھیلنا اتنا آسان نہیں ہے۔بڑے بڑے بیٹسمیں ان کے سپین کے جادو سے خوف زدہ ہیں۔سعید اجمل اس وقت اپنی زندگی کی بہترین فارم میں ہے اور بڑے بڑے کھلاڑی ان کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں۔
سعیدا جمل نے ون ڈے سیریز میں جس طرح کی شاندار بائو لنگ کی ہے اس پر اسے شاباشی دینی چائیے۔مائیکل ہسی جو اس وقت ون ڈے کا بڑا نامی گرامی کھلاڑ ی ہے اسے بھی سعید اجمل کو کھیلنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔یہ وہی مائیکل ہسی ہے جس نے 2010کے ٹی ٹونٹی کے فائنل میں سعید اجمل کی جو درگت بنا ئی تھی وہ سب کے علم میں ہے لیکن ان دو سالوں میں سعید اجمل اپنی محنت اور خونِ جگر سے اپنی صلاحیت کو اس مقام تک لے گیا ہے کہ اب وہی مائیکل ہسی سعید اجمل کے سامنے بھیگی بلی بنا ہوا ہے۔ پاکستان کی اصل قوت اسکی سپین بائو لنگ ہے جس پر پاکستانی ٹیم اپنی ساری منصوبہ بندی کرتی ہے اور سعید اجمل اس میں سرِ فہرست ہے۔
پہلا ون ڈے شارجہ میں کھیلا گیا جسے اسٹر یلیا نے چار وکٹوں سے جیت لیا۔ اس میچ میں سپنرز نے اپنا کمال تو ضرور دکھایا لیکن پاکستانی بیٹنگ لائن فلاپ ایک دفعہ پھر فلاپ ہو گئی اور صرف ١٩٨ رنز پر پو یلین لوٹ گئی ۔ اسد شفیق اور عمر اکمل نے ٹیم کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن و ہ بھی بڑا سکور کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ شاہد آفریدی ہمیشہ کی طرح ایک دفعہ پھر اپنا جادو نہ جگا سکے۔ اسٹریلیا نے مطلوبہ ہدف با آسانی عبور کر لیا۔ دوسرا ون ڈے ابوظبی میں تھا جس میں سعید اجمل نے ایک دفعہ پھر اپنی سپین بائو لنگ سے اسٹریلین کھلاڑیوں کو مبہوت کر دیا۔ انھوں نے چار کھلاڑیوں کو آئو ٹ کر کے اسٹریلین بیٹنگ کی کمر توڑ دی۔ اسٹریلیا کا ٢٤٩ کا ٹارگٹ اتنی زیادہ گرمی میں بہت بڑا ہدف تھا لیکن ناصر جمشید کی شاندار ٩٧ رنز کی اننگ نے میچ کا پانسہ پلٹ دیا ۔ اظہر علی اور مصباح الحق نے رہی سہی کسر پوری کر کے اسٹریلیا کو چھ وکٹوں سے شکست دے کر پہلے ون ڈے کی شکست کا حساب چکتا کیا۔ تیسر ا ون ڈے شارجہ میں تھا جس میںپاکستان نے مقررہ 50 اوورز میں سات وکٹوں کے نقصان پر 244 رنز سکو ر کئے۔
محمد حفیظ 78ناصر جمشید 48 اور اظہر علی 27 رنز کے ساتھ نمایاں بلے باز تھے۔129 رنز کے اوپننگ سٹینڈ سے امید بندی تھی کہ پاکستان تین سو کا ہدف حاصل کر لیگا لیکن مائکل سٹارک کی کی شاندار بائولنگ اور پاکستانی بلے بازوں کی جلد بازی کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ سعید اجمل نے اپنی اعلی کارکردگی سے اسٹریلین ٹیم کو بے بس کرکے رکھ دیا لیکن دوسرے بائولرز کی مایوس کن با ئولنگ اور ناقص فیلڈنگ کی وجہ سے وہ اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار نہ کر سکا۔ کامران اکمل نے جس طرح کی ناقص کیپنگ کی اس کے بعد اس کی ٹیم میں شمولیت کا کوئی جوا ز نہیں ہے۔ اس نے کیپنگ اور بیٹنگ میں مکمل مایوس کیا اور ٹیم کی شکست میں سب سے بڑا سبب بنا ۔اگر وہ اچھی کیپنگ کا مظا ہرہ کرتا تو اسٹریلین ٹیم کافی دبائو کا شکار ہو جاتی ۔کیچز ونز میچز ایک حقیقت ہے لیکن اس رات پاکستانی ٹیم نے کیچز چھوڑنے میں انتہا کر دی۔ شاہدآفریدی کا زخمی ہو نا بھی پاکستان کیلئے بڑا نقصان دہ ثا بت ہوا۔وہ اپنے فطری انداز میں بائولنگ کروانے سے محروم رہا جس کا بھر پور فائدہ اسٹریلین بلے بازوں نے اٹھایا۔
Michael Clarke australia
کپتان مصباح الحق اس دن صحیح فیصلے کرنے سے قاصر نظر آرہا تھا ۔ اس کے غلط فیصلوں نے اسٹریلین ٹیم کوبڑ اسہارا دیا ۔انھوں نے سعید اجمل کواس وقت بائولنگ سے ہٹا دیا جب اسٹریلین بلے باز پورے دبائو میں تھے اور اس سے خوفزدہ تھے۔اس وقت سعید اجمل کو بائولنگ جاری رکھنے دی جانی چائیے تھی کیونکہ اس وقت وہ بڑے جارحانہ انداز میں بائو لنگ کر رہا تھا اور پورے میچ پر چھا یا ہو اتھا۔ مائکل ہسی کا ایل بی ڈبلیو فیصلہ بھی میچ کا انتہائی متنازعہ فیصلہ تھا ۔ کپتان مصبا ح الحق کو اس وقت ایمپائر سے ریفل مانگ لینا چائیے تھا ۔کپتان کی اس لاپرواہی سے میچ کا رخ بدل گیا اور پھر اسی مائکل ہسی نے پاکستانی بائولروں کے چھکے چھڑوا دئے۔ کپتان مائکل کلارک ، ڈیوڈ ہسی نے اچھی بلے بازی کا مظاہرہ کیا اور ا سٹریلین ٹیم کو مشکل صورتِ حال سے نکالنے میں مائکل ہسی کو مکمل سپورٹ دی ۔
نئے بلے باز گلین میکسول نے جس عمدہ انداز میں شاندار بلے بازی کی اس نے سب کو حیران کر دیا۔ پاکستان کے سب سے خطرناک بائو لر سعید اجمل کا اس نے جس اعتماد کے ساتھ سامنا کیا وہ اس کے روشن مستقبل کی دلیل ہے۔ تیسرا ون ڈے اسٹریلیا تین وکٹوں سے جیت تو گیا لیکن یہ جیت اس کی اعلی کارکردگی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ہماری ناقص کاکردگی کی وجہ سے جیتا ہے جس کا شائقینِ کرکٹ کو ہمیشہ افسوس رہے گا ۔