امریکی فوج نے کہا ہے کہ وکی لیکس کو اہم سرکاری دستاویزات فراہم کرنے اور انہیں عام کرنے کے الزام میں بریڈلی میننگ کو کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑے گا۔چوبیس سالہ بریڈلی انٹیلی جنس کے تجزیہ کار کی حیثیت سے عراق میں اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے امریکی خفیہ مراسلات کو وکی لیکس کی ویب سائٹ کو فراہم کیے۔ ہزاروں خفیہ دستاویزات کو عام کرنے میں دشمن کو مدد دینے کا الزام اگر ان پر ثابت ہوجاتا ہے تو انہیں عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔بریڈلی دسمبر میں اس مقدمہ کی ابتدائی سماعت میں پیش ہوچکے ہیں جس کے بعد ان کے خلاف کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی۔انہیں اس سلسلے میں مئی سنہ دو ہزار دس میں گرفتار کیا گیا تھا۔امریکی فوج کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ کورٹ مارشل کے لیے اب تک کسی تاریخ کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ پریزائیڈنگ افسر میجر جنرل ایس لنِنگٹن نے دسمبر کے ابتدائی مقدمہ کی کارروائی اور اعلی افسران کی سفارشات کا جائزہ لینے کے بعد کہا کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بریڈلی کے خلاف کورٹ مارشل کا فیصلہ جائز ہے۔امریکی فوج اب ایک فوجی جج کا انتخاب کرے گی جو ابتدائی سماعت اور پھر بعد میں ہونے والی کارروائی کی تاریخیں طے کر کے ان کا اعلان کرے گا۔بریڈلی میننگ کو حراست میں لیے جانے کے بعد ریاست ورجینیا میں کوانٹیکو کی فوجی جیل میں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا تھا جس پر ان کے وکلا نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔بعد ازاں اپریل دو ہزار گیارہ میں میننگ کو ریاست کنساس کی فورٹ لیون ورتھ فوجی جیل منتقل کر دیا گیا تھا جہاں اب وہ قید ہیں۔