وہ خط جو پوسٹ نہ کیے گئے

writing letter

writing letter

حوا کی ایک بیٹی کے چند خطوط جو اس نے فرصت کیوقت محلے کے چند لوگوں کو لکھے مگر ان وجوہ کی بنا پر پوسٹ نہ کیے گئے جو ان خطوط میں نمایاں نظر آتی ہیں۔
( نام اور مقام فرضی ہیں)
پہلا خط مسز کرپلانی کے نام
خاتون مکرم
آداب عرض، معاف فرمائیے گا میں یہ سطور بغیر تعارف کے لکھ رہی ہوں مگر مجھے چند ضروری باتیں آپ سے کہنا ہیں۔ آپکو میں ایک عرصے سے جانتی ہوں۔ ہر روز صبح ساڑھے آٹھ بجے اٹھ کر جب میں بستر سے بالکنی میں آتی ہوں تو آپکو بازار میں سیر سے واپس آتے دیکھا کرتی ہوں۔ مجھے تعجب ہے کہ مسز کرپلانی جنہیں ساڑھے آٹھ بجے گھر سے دفتر پہنچنے کیلئے نکل جانا ہوتا ہے صرف ایک بڈھی نوکرانی کی موجودگی اور آپکی غیر حاضری میں ناشتہ کیسے کرتے ہیں۔ کپڑے کیوں کر تبدیل کرتے ہیں اور پھر آپکا بچہ بھی تو ہے انکی دیکھ بھال کون کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیر آپکی صحت کیلئے مفید ہے مگر اس سیر کا اثر آپکے شوہر پر کیا پڑیگا۔ کیا آپ نے اس کی بابت کبھی غور کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ میں نے پرسوں مسٹر کرپلانی کو دیکھا انکی حالت قابل رحم تھی۔ آپ نے سر پر ہیٹ الٹا لگا رکھا تھا اور اگر میری نگاہوں نے دھوکا نہیں کھایا تو انکے بوٹ کا ایک تسمہ کھلا ہوا تھا جو بار بار انکے پاؤں میں الجھ رہا تھا۔ کل بھی آپکی حالت ایسی ہی تھی انکی پتلون شکنوں سے بھرپور تھی اور ٹائی کی گرہ بھی درست نہیں تھی۔
اگر آپکی صبح کی سیر اسی طرح جاری رہی تو مجھے اندیشہ ہے کہ ایک روز مسٹر کرپلانی اس افراتفری میں دفتر کا رخ کرینگے کہ سرراہ چلتی عورتوں کو اپنی آنکھیں بند کرنی پڑینگی۔

اور ہاں دیکھیے کل آپ نے جو ساڑھی پہن رکھی تھی وہ آپکی نہیں ہے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مسز اڈوانی نے یہ ساڑھی پچھلی دیوالی پر خریدی تھی۔ دوسروں کے کپڑے پہننا بہت معیوب ہے۔ آپکے پاس کم ازکم بیس ساڑھیاں موجود ہیں۔ مسز اڈوانی کی ساڑھی مستعار لے کر آپ نے کیوں پہنی۔ یہ میں ابھی تک سمجھ نہیں سکی۔
ایک بات اور وہ یہ کہ آپکو بغیر آستینوں کا بلاؤز اچھا معلوم نہیں ہوتا آپکے کاندھوں پر ضرورت سے زیادہ گوشت ہے جسکی نمائش آنکھوں پر بہت گراں گزرتی ہے۔ آپکے جسم کا یہ عیب آستینوں والے بلاؤز میں چھپ جاتا ہے اسلیے آپکو ہمیشہ اسی تراش کا بلاؤز پہننا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اونچی ایڑھی کا شو آپ کیوں پہنتی ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپکا قد ماشاء اللہ کافی اونچا ہے۔ پرسوں آپ نے غیر معمولی اونچی ایڑھی کا سینڈل پہن رکھا تھا۔ معاف فرمائیے معلوم ہوتا تھا آپکے پیروں کے ساتھ سٹول بندھے ہوئے ہیں۔ اونچی ایڑھی کا جوتا پہن کر آپ آسانی سے چل بھی نہیں سکتیں۔ خواہ مخواہ کیوں اپنے آپ کو تکلیف دیتی ہیں۔
آپکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*********************************************************
دوسرا خط مسز اڈوانی کے نام
محترم بہن
تسلیمات! میں نے پچھلے دنوں آپکو باندرہ کے میلے پر چند سہیلیوں کیساتھ دیکھا تھا۔ آپ نے پیلے رنگ کی جارجٹ کی ساڑھی پہن رکھی تھی۔ بارڈر کے بغیر بلاؤز کالی ساٹن کا تھا۔ کھلے گلے کا آستینوں کے بغیر۔ گلے پر زرد رنگ کی ساٹن کا پائپنگ تھا اور سامنے سینے پر اسی رنگ کا پھول۔ پاؤں میں آپکے سنہری سینڈل تھی۔ چھاتا سیاہ رنگ کا تھا اور جسکی مونٹھ زرد رنگ کے سلو لائیڈ کی تھی۔ کالے بالوں میں پیلا ربن تھا۔ سیاہی اور زردی کا یہ میل مجھے بہت پسند آیا تھا۔ آپکے ذوق کی میں بیحد معترف ہوں۔ رنگوں کے صحیح الترام کا آپ خوف سلیقہ رکھتی ہیں مگر کل آپ جب بس پر سے اتریں تو مجھے یہ دیکھ کر سخت صدمہ ہوا کہ آپ نے کالی ساڑھی کیساتھ بھوسلے رنگ کا بلاؤز پہن رکھا ہے۔ آپکے بالوں میں نیلا ربن گندھا ہے اور جوتا سفید کینوس کا پہن رکھا ہے۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ ایسی اعلیٰ ذوق رکھنے والی خوتون نے کیونکر ایسے بھونڈے لباس میں باہر نکلنا گوارا کیا اور پھر غضب یہ ہے کہ آپ بس میں کہیں دور گئی تھیں۔ آئندہ اگر میں نے آپکو ایسے بے تکے لباس میں دیکھا تو مجھے اتنا صدمہ ہوگا کہ میں بیان نہیں کر سکوں گی۔

girl sweeping

girl sweeping

یک بات اور میری سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ کی نوکرانی اتنا بناؤ سنگھار کیوں کرتی ہے؟ اسکی عمر میرے اندازے کے مطابق اٹھارہ برس ہے بظاہر وہ کنوای ہے۔ اس عمر میں اور خاص کر کنوار پنے میں اسکا یوں بن سنور کر سودا سلف لینے باہر بازار میں نکلنا اتنا خطرناک نہیں جتنا کہ آپکا آپکے گھر میں بناؤ سنگھار پر توجہ دینا ہے۔ آپ عموماً گھر سے باہر رہتی ہیں اور مسز اڈوانی چونکہ دفتر نہیں جاتے اسلیے وہ اکثر گھر ہی میں رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپکی غفلت حد سے بڑھ گئی ہے۔ میں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہہ سکتی۔
میرا خیال ہے کہ آپکی دائیں آنکھ بائیں آنکھ سے چھوٹی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ چشمہ پہنا کریں تو یہ عیب بالکل دور ہو جائیگا کیونکہ شیشوں میں سے یہ معمولی فرق نظر نہ آئیگا۔
ہاں یہ آپ نے اپنی سہیلیوں کو اپی ساڑھیاں پہننے کیلئے کیوں دیدیا کرتی ہیں۔ آپکو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ بدعت معاشرتی نقطہ نظر سے بہت بری ہے۔ اسکے علاوہ سہیلیاں خواہ کتنی محتاط ہوں مستعار کپڑے کو نہایت بے دردی کیساتھ استعمال کرتی ہیں اگر آپکو یقین نہ ہو تو اپنی ساڑھی کو غور سے دیکھیے جو آپ نے ایک روز مسز کرپلانی کو پہننے کیلئے دی تھی۔ اسکا تلے کا کام کئی جگہ سے اکھڑ گیا ہے۔
بازار میں چلتے وقت آپ بار بار ساڑھی کا پلو نہ سنبھالا کریں مجھے اس سے بڑی الجھن ہوتی ہے۔
آپ کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*********************************************************
تیسرا خط مسٹر ایوب خاں انسپکٹر پولیس کے نام
مکرمی محترمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلام مسنون
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ دن میں دوبار اپنی داڑھی منڈوانا چھوڑ دیں۔۔۔۔۔۔ میں سمجھتی ہوں کہ نارمل آدمی کی داڑھی کے بال نارمل حالت میں اتنی جلدی نہیں اگ سکتے۔
پولیس اسٹیشن جاتے ہوئے اور وہاں سے شام کو آتے ہوئے آپکا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ سیلون میں داخل ہو جائیں۔۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو MANIA ہو گیا ہے اگر آپکا دماغی توازن درست ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ دن میں دوبار صبح و شام اپنی داڑھی پر استرا پھرائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا سیلون کا نائی آپکی اس عجیب و غریب عادت پر زیرلب کبھی نہیں مسکرایا؟
اور پھر آپ اپنے سر کے بال کس طور سے کٹواتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ واللہ بہت برے معلوم ہوتے ہیں ۔ گردن سے لے کر کھوپڑی کے بالائی حصے تک آپ بالوں کا بالکل صفایا کرا دیتے ہیں اور کانوں کے اوپر تک باریک مشین پھروا کر آخر آپ کیا فیشن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت آپکی گردن کے اوپر بہت بھدی ہے اور آپکے سر کے نچلے حصے پر پھوڑوں کے نشان ہیں جو صرف بال ہی چھپا سکتے ہیں اور کیا آپ نے کبھی غور فرمایا ہے کہ بار بار بال مونڈنے سے آپکی گردن موٹی ہو جائیگی۔

hajaam

hajaam

آپکے کان بہت بڑے ہیں جس فیشن کی حجامت کا آپکو شوق ہے اس سے اور بھی زیادہ بڑے دکھائی دیتے ہیں۔ میری رائے ہے کہ آپ قلمیں رکھیں اور کانوں کے قریب سے بال زیادہ نہ کٹوائیں۔ گردن پر اگر آپ تھوڑے سے بال اگنے دیں تو کوئی حرج نہیں اس سے آپکو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔
ہاتھ میں چھڑی لیکر جب آپ بازار میں چلتے ہیں تو دماغ میں اس خیال کو جگہ نہ دیا کریں کہ ہر اسکول جانیوالی لڑکی آپکو دیکھ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی شائستہ مذاق لڑکی کی آنکھیں آپکی طرف نہیں اٹھ سکتیں اسلیے کہ آپ کاندھوں پر ایسا بھونڈا سر اٹھائے پھرتے ہیں جسکو آپکے ایجاد کردہ فیشن نے اور بھی زیادہ بدنما بنا رکھا ہے۔
بار بار آپ اپنے کوٹ سے کیا جھاڑا کرتے ہیں؟ کیا گردوغبار کے ذرے صرف آپ ہی کے کوٹ پر آ بیٹھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا پھر آپ حد سے زیادہ نفاست پسند ہیں؟
کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ چالیس برس کے ہونے پر بھی آپ کنوارے ہیں؟ اگر یہ سچ ہے تو اس سے آپکو عبرت حاصل کرنا چاہیے۔ میرا مشورہ لیجیے اور دن میں دوبار سیلون میں جا کر داڑھی منڈوانا چھوڑ دیجیے، خدا آپکی حالت پر رحم کرے۔
آپ کی مخلص۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*******************************************************
چوتھا خط مس ڈی سلوا کے نام
ڈئیر مس ڈی سلوا
تمہاری حالت پر مجھے بہت افسوس ہوتا ہے تم روز بروز موٹی ہوتی جا رہی ہو اگر تمہارا موٹاپا اسی رفتار سے بڑھتا گیا تو مجھے اندیشہ ہے کہ تم کسی مرد کے قابل نہ رہو گی۔ اسکول جانے کیلئے جب تم ” جم ” پہن کر گھر سے نکلتی ہو تو میرے دل میں عجیب وغریب خیال پیدا ہوتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ اس کرسمس پر تم ڈانس کیسے کر سکو گی۔ ایک دو قدموں میں ہی تمہارا پسینہ چھوٹ جائیگا اور تمہارا ساتھی کیونکر تمہاری بانہوں کو حسب منشاء حرکت میں لا سکے گا۔ تمہاری بغلوں کے نیچے اسقدر گوشت جمع ہو رہا ہے کہ تم ڈانس کرنے کے بالکل قابل نہیں رہی ہو۔ خدا کیلئے اپنا علاج کرو اور اس موٹاپے کو جلد سے جلد ختم کرنے کی کوشش کرو۔
ایک نصیحت میری اور سن لو۔ شام کو تم ہر روز ٹیرس پر اکیلی جاتی ہو اور سامنے والے مکان پر ڈی کوسٹا کے بڑے لڑکے کو اشارے کرتی ہو۔ اول تو یہ شریف لڑکیوں کا کام نہیں دوسرے یہ اشارے چربی بھرے گوشت کے مانند بھدے اور بے لذت ہوتے ہیں تم جیسی موٹی لڑکیوں کو ایسی اشارہ بازی نہیں کرنی چاہیے۔ اسلیے کہ اشارہ ایک لطیف یعنی باریک اور پتلی چیز کا نام ہے۔ تمہارے اشارے اشارے نہیں ہوتے، انکے لیے مجھے کوئی اور نام تلاش کرنا ہو گا۔

جس لونڈے کیساتھ تم رومان لڑانا چاہتی ہو اسکے متعلق بھی سن لو۔ وہ ایک آوارہ مزاج لڑکا ہے۔ ڈھائی مہینے سے کالی کھانسی میں مبتلا ہے۔ ماں باپ نے ناقابل اصلاح سمجھ کر اسکو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ اسکے پاس صرف تین پتلونیں ہیں جنکو بدل بدل کر پہنتا ہے۔ ہر روز اپنی قمیض اور پتلون پر وہ دو بار استری کرتا ہے تاکہ باہر کے لوگوں کی نظر میں اسکی وضع داری قائم رہے مجھے ایسے آدمیوں سے سخت نفرت ہے۔
تم اپنی پنڈلیوں کے بال استرے سے نہ مونڈا کرو۔ بال اڑانے کے سب پاؤڈر اور سب کریمیں بھی فضول ہیں۔ بال ہمیشہ کیلئے کبھی غائب نہیں ہو سکتے اسلیے کہ تم اپنی پنڈلیوں پر ظلم نہ کرو۔ بال رہنے دو اور لمبی جرابیں پہنا کرو۔
تمہارا دوست آج دوپہر کو اپنا پھٹا ہوا جوتا خود مرمت کر رہا تھا۔
تمہاری خیر خواہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*******************************************************
پانچوں خط کوشلیا دیوی کے نام
شریمتی کوشلیا دیوی نمسکار
اس میں کوئی شک نہیں اپنے گھر میں ہر شخص کو اختیار ہے کہ وہ آرام دہ سے آرام دہ لباس پہنے اور تکلفات سے آزاد رہے مگر دیوی جی آپ ململ کی باریک دھوتی پہن کر اس آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہیں اور پھر یہ دھوتی آپ کچھ اس بے تکلفی سے پہنتی ہیں کہ جب آپ اتفاق سے نظر آ جائیں تو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ آپکو کس زاویے سے دیکھا جائے۔

آپکو معلوم ہونا چاہیے روشنی کے سامنے کھڑے ہونے سے آپکی ململ کی دھوتی کا وجود ہونے نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ آپکی عمر اسوقت چوالیس برس کے قریب ہے۔ عمر کی اس زیادتی نے آپکے جسم کو بالکل ڈھیلا کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ باریک دھوتی میں آپکی بھدی ٹانگوں کی نمائش آنھوں پر گوہانجنی بن کر رہ جاتی ہے۔
آپکے فلیٹ کا دروازہ عام طور پر کھلا رہتا ہے اور میں نے اکثر آپکو باورچی خانہ کے پاس یہی باریک دھوتی پہنے دیکھا ہے اگر آپکو اس کا استعمال ترک نہیں کرنا ہے تو براہ کرم اپنے فلیٹ کا دروازہ بند رکھا کریں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*******************************************************
چھٹا خط مسٹر سعید حسن جرنلسٹ کے نام
جناب من ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تسلیم
آپ ہر روز صبح بالکونی میں پتلون پہنتے ہیں۔ آپکا یہ فعل کمیونزم کی بدترین مثال ہے، مجھے امید ہے کہ یہ خط پڑھ کر آپ ضرور شرمسار ہونگے اور آئندہ سے پتلون شریف آدمیوں کیطرف اپنے کمرے میں پہنا کریں گے۔
مخلص۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکرر: أپکے بال بہت بڑھ گئے ہیں۔ سیلون آپکے گھر کے نیچے ہے۔ ہمت کر کے آج ہی کٹوا دیں۔
*******************************************************
ساتواں خط مسز قاسمی کے نام
خاتون مکرم السلام علیکم
میں بہت عرصے سے آپکو یہ خط لکھنے کا ارادہ کر رہی تھی مگر چنددرچند وجوہ کے باعث ایسا نہ کر سکی۔ میں نے سنا ہے کہ دو گھروں میں نفاق پیدا کرنے کیلئے آپکو بہت سے گر زبانی یاد ہیں۔ مسز اڈوانی اور مسز کرپلانی کے درمیان ایک دفعہ آپ ہی کوششوں سے رنجش پیدا ہوئی تھی اور پچھلے دنوں سیٹھ گوپال داس کی لڑکی پشپا کے بارے میں آپ نے جو افواہیں مشہور کی تھیں۔ ان سے سیٹھ گوپال داس اور سیٹھ رام داس کے خاندانوں میں اچھا خاصا ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔ مجھے آپکی صلاحیتوں کا اعتراف ہے مگر میں سوچتی ہوں۔ ابھی تک آپکے اور مسز قانونگو کے درمیان کشیدگی پیدا کیوں نہ ہوئی۔ ابتک آپ نے جس عورت کو اپنی سہیلی بنایا ہے اس سے تیسرے چوتھے مہینے آپکی تو تو میں میں ضرور ہوئی ہے لیکن مسز قانونگو سے آپکی دوستی کو چھ مہینے ہو گئے ہیں جو کئی برسوں کے برابر ہیں۔ میں اب زیادہ انتظار نہیں کر سکتی۔ اس مہینے میں مسز قانونگو سے آپکی چخ ضرور ہونی چاہیے، آپکو اپنی روایات برقرار رکھنی چاہئیں۔

nipali girl

nipali girl

ہاں یہ ضرور بتائیے کہ آپ کہاں پیدا ہوئی تھیں۔ یہ تو مجھے معلوم ہے کہ آپ پنجاب کی رہنے والی ہیں مگر آپکا چہرہ نیپالیوں اور تبتیوں سے کیوں ملتا جلتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔ آپکی ناک بالکل نیپالیوں جیسی چپٹی ہے اور گالوں کی ہڈیاں بھی انہی کیطرح ابھری ہوئی ہیں البتہ آپکا قد انکیطرح پست نہیں ہے۔
آپ نے عید پر جو ساڑھی پہنی تھی مجھے پسند نہیں آئی۔ آپکا ذوق نہایت فضول ہے اگر آپ بھڑکیلے اور شوخ رنگوں کے بجائے ہلکے رنگ کے کپڑے انتخاب کیا کریں تو بہت اچھا ہو۔ لمبے قد کی عورتوں کو کھڑی لکیروں کی قیمض نہیں پہننی چاہیے کیونکہ لمبے قد کی عورتوں کیلئے یہ موزوں نہیں ہوتا اور پھر آپ تو ویسے بھی دبلی پتلی ہیں۔ آپکے کندھے پر بلاؤز کے اٹھے ہوئے پف بہت برے معلوم ہوتے ہیں۔
آپ کی خیر اندیش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*******************************************************
آٹھواں خط مس راجکماری ایکٹرس کے نام
مس راجکماری
مجھے تم سے نفرت ہے، تم عورت نہیں ہو سوٹ کیس ہو۔
تم سے نفرت کرنے والی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*******************************************************
نواں خط مسٹر صالح بھائی کنٹریکٹر کے نام
جناب صالح بھائی صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تسلیم
مجھے آپکے خلاف کوئی شکایت نہیں لیکن پھر بھی میں آپکو پسند نہیں کرتی۔ نامعلوم کیا وجہ ہے کہ آپکو دیکھ کر میرے دل میں غیض و غضب پیدا ہو جاتا ہے۔ آپ بہت شریف آدمی ہیں۔ آپکی شکل و صورت بھی کوئی خاص بری نہیں لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پھر آپکو میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے کیوں دیکھتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپکے چہرے پر یتیمی برستی ہے۔ آپکی چال بھی نہایت واہیات ہے۔
آپ کی ہمدرد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*******************************************************
دسواں خط مس رضیہ صلاح الدین کے نام
ڈئیر مس رضیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلام مسنون
تم ابھی ابھی پنجاب کے کسی گاؤں سے آئی ہو پہلے ساڑھی پہننے کی عادت اختیار کرو پھر اس لباس میں باہر نکلو۔ تمہیں یہ لباس پہننے کا بالکل سلیقہ نہیں ہے۔ خدا کیلئے اپنے آپکو تماشہ نہ بناؤ۔
تمہاری خیر خواہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*******************************************************

تحریر: سعادت حسن منٹو