وہ لڑکی

girl under tree

girl under tree

سوا بارہ بج چکے تھے لیکن دھوپ میں وہی تمازت تھی جو دوپہر کو بارہ بجے کے قریب تھی اس نے بالکنی میں آ کر باہر دیکھا تو اسے ایک لڑکی نظر آئی جو بظاہر دھوپ سے بچنے کیلئے ایک سایہ دار درخت کی چھاؤں میں آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔
اسکا رنگ گہرا سانولا تھا۔ اتنا سانولا کہ وہ درخت کی چھاؤں کا ایک حصہ معلوم ہوتا تھا۔ سریندر نے جب اسکو دیکھا تو اس نے محسوس کیا کہ وہ اسکی قربت چاہتا ہے حالانکہ وہ اس موسم میں کسی کی قربت کی بھی خواہش نہ کر سکتا تھا۔ موسم بہت واہیات قسم کا تھا۔ گرمی تھی، سوا چار بج چکے تھے۔ سورج غروب ہونے کی تیاریاں کر رہا تھا لیکن موسم نہایت ذلیل تھا، پسینہ تھا کہ چھوٹا جا رہا تھا۔ خدا معلوم کہاں سے مساموں کے ذریعے اتنا پانی نکل رہا تھا۔
سریندر نے کئی مرتبہ غور کیا تھا کہ پانی اس نے زیادہ سے زیادہ چار گھنٹوں میں صرف ایک گلاس پیا ہو گا مگر پسینہ بلامبالغہ چار گلاس نکلا ہو گا آخر یہ کہاں سے آیا؟
جب اس نے اس لڑکی کو درخت کی چھاؤں میں آلتی پالتی مارے دیکھا تو اس نے سوچا کہ دنیا میں سب سے خوش یہی ہے جسے دھوپ کی پروا ہے نہ موسم کی۔
سریندر پسینے میں لت پت تھا۔ اسکی بنیان اسکے جسم کیساتھ بری طرح چمٹی ہوئی تھی۔ وہ کچھ اسطرح محسوس کر رہا تھا کہ اسکے بدن پر کسی نے موبل آئل مل دیا ہے لیکن اسکے باوجود اس نے درخت کی چھاؤں میں بیٹھی ہوئی لڑکی کو دیکھا تو اسکے جسم میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اسکے پسینے کیساتھ گھل مل جائے اسکے مساموں کے اندر داخل ہو جائے۔

آسمان خاکستری تھا، کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ بادل میں یا محض گردوغبار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال اس گردوغبار یا بادلوں کے باوجود دھوپ کی جھلک موجود تھی اور وہ لڑکی بڑے اطمینان سے پیپل کی چھاؤں میں بیٹھی سستا رہی تھی۔
سریندر نے اب کی غور سے اسکیطرف دیکھا، اسکا رنگ گہرا سانولا تھا مگر نقش بہت تیکھے تھے ۔ اسقدر تیکھے کہ وہ سریندر کی آنکھوں میں کئی مرتبہ چبھے۔ مزدور پیشہ لڑکی معلوم ہوتی تھی یہ بھی ممکن تھا کہ بھکارن ہو لیکن سریندر اسکے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کر سکا تھا۔ اصل میں وہ یہ فیصلہ کر رہا تھا کہ آیا اسے اس لڑکی کو اشارہ کرنا چاہیے یا نہیں۔
گھر میں وہ بالکل اکیلا تھا اسکی بہن مری میں تھی۔ ماں بھی اسکے ساتھ تھی باپ مر چکا تھا۔ ایک بھائی تھا اس سے چھوٹا وہ بورڈنگ میں رہتا تھا۔ سریندر کی عمر ستائیس اٹھائیس سال کے قریب تھی۔ اس سے قبل وہ ادھیڑ عمر نوکرانیوں سے دو تین مرتبہ سلسلہ لڑا چکا تھا۔
معلوم نہیں کیوں لیکن موسم کی خرابی کے باوجود سریندر کے دل میں خواہش پیدا ہو رہی تھی کہ وہ پیپل کی چھاؤں میں بیٹھی ہوئی لڑکی کے پاس جائے یا اسے اوپر ہی سے اشارہ کر دے تاکہ وہ اسکے پاس آ جائے اور وہ دونوں ایکدوسرے کے پسینے میں غوطے لگائیں اور کسی نامعلوم جزیرے میں پہنچ جائیں۔

balcony

balcony

سریندر نے بالکنی کے کٹہرے کے پاس کھڑے ہو کر زور سے کھنکارا مگر لڑکی متوجہ نہ ہوئی۔ سریندر نے جب کی مرتبہ ایسا کیا اور کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا تو اس نے آواز دی، ارے بھئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا ادھر دیکھو۔
مگر لڑکی نے پھر بھی اسکیطرف نہ دیکھا، وہ اپنی پنڈلی کھجاتی رہی۔
سریندر کو بہت الجھن ہوئی اگر لڑکی کے بجائے کوئی کتا ہوتا تو وہ یقیناً اسکی آواز سن کر اسکی طرف دیکھتا۔ اگر اسے اسکی یہ آواز ناپسند ہوتی تو بھونکتا مگر اس لڑکی نے جیسے اسکی آواز سنی ہی نہیں تھی اگر سنی تھی تو ان سنی کر دی تھی۔
سریندر دل ہی دل میں بہت خفیف ہو رہا تھا۔ اس نے ایک بار بلند آواز میں اس لڑکی کو پکارا، اے لڑکی۔
لڑکی نے پھر بھی اسکیطرف نہ دیکھا۔ جھجھلا کر اس نے اپنا ململ کا کرتہ پہنا اور نیچے اترا۔ جب اس لڑکی کے پاس پہنچا تو وہ اپنی ننگی پنڈلی کھجا رہی تھی۔
سریندر اسکے پاس کھڑا ہو گیا لڑکی نے ایک نظر اسکیطرف دیکھا اور شلوار نیچی کر کے اپنی ننگی پنڈلی ڈھانپ لی۔

سریندر نے اس سے پوچھا، تم یہاں کیا کر رہی ہو؟
لڑکی نے جواب دیا بیٹھی ہوں۔
کیوں بیٹھی ہو؟
لڑکی اٹھ کھڑی ہوئی، لو اب کھڑی ہو گئی ہوں۔
سریندر بوکھلا گیا، اس سے کیا ہوتا ہے سوال یہ ہے کہ تم اتنی دیر سے یہاں بیٹھی کیا کر رہی ہو؟
لڑکی کا چہرہ اور زیادہ سنولا گیا، تم چاہتے کیا ہو؟
سریندر نے تھوڑی دیر اپنے دل کو ٹٹولا، میں کیا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کچھ نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں گھر میں اکیلا ہوں۔ اگر تم میرے ساتھ چلو تو بڑی مہربانی ہو گیا۔
لڑکی کے گہرے سانولے چہرے پر عجیب و غریب قسم کی مسکراہٹ نمودار ہوئی، مہربانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاہے کی مہربانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو۔
اور دونوں چل دیے۔
جب اوپر پہنچے تو لڑکی صوفے کی بجائے فرش پر بیٹھ گئی اور اپنی پنڈلی کھجانے لگی۔ سریندر اسکے پاس کھڑا سوچتا رہا کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے۔
اس نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ خوبصورت نہیں تھی لیکن اس میں وہ تمام قوسیں اور تمام خطوط موجود تھے جو ایک جوان لڑکی میں ہوتے ہیں۔ اسکے کپڑے میلے تھے لیکن اسکے باوجود اسکا مضبوط جسم اس سے باہر جھانگ رہا تھا۔ سریندر نے اس سے کہا، یہاں کیوں بیٹھی ہو۔۔۔۔۔۔۔ ادھر صوفے پر بیٹھ جاؤ۔

Black couple arguing

Black couple arguing

لڑکی نے جواب میں صرف اسقدر کہا، نہیں۔
سریندر اسکے پاس فرش پر بیٹھ گیا، تمہاری مرضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لو اب یہ بتائو کہ تم کون ہو اور درخت کے نیچے تم اتنی دیر سے کیوں بیٹھی تھیں؟
میں کون ہوں اور درخت کے نیچے کیوں بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے تمہیں کوئی مطلب نہیں۔ لڑکی نے یہ کہہ کر اپنی شلوار کا پائنچہ نیچے کر دیا اور پنڈلی کھجانا بند کر دی۔ سریندر اسوقت اس لڑکی کی جوانی کے متعلق سوچ رہا تھا۔ وہ اسکا اور ان دو ادھیڑ عمر نوکرانیوں کا مقابلہ کر رہا تھا جن سے دو تین مرتبہ سلسلہ ہو چکا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ اس لڑکی کے مقابلے میں ڈھیلی ڈھالی تھیں۔ جیسے برسوں کی استعال کی ہوئی سائیکلیں لیکن اسکا ہر پرزہ اپنی جگہ پر کسا ہوا تھا۔
سریندر نے ان ادھیڑ عمر نوکرانیوں سے اپنی طرف سے کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ خود اسکو کھینچ کر اپنی کوٹھڑیوں میں لے جاتی تھیں مگر سریندر اب محسوس کرتا تھا کہ یہ سلسلہ اسکو اب خود کرنا پڑیگا حالانکہ وہ اسکی تکنیک سے قطعاً ناواقف تھا۔ بہرحال اس نے اپنے ایک بازو کو تیار کر لیا اور اسے لڑکی کی کمر میں حائل کر دیا۔

لڑکی نے ایک زور کا جھٹکا دیا۔ یہ کیا کر رہے ہو تم؟
سریندر ایک بار پھر بھوکھلا گیا۔ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔
لڑکی کے سانولے ہونٹوں پر عجیب قسم کی مسکراہٹ نمودار ہوئی، آرام سے بیٹھ رہو۔
سریندر آرام سے بیٹھ گیا مگر اسکے سینے میں ہلچل اور زیادہ بڑھ گئی۔ چنانچہ اس نے ہمت سے کام لے کر لڑکی کو پکڑ کر اپنے سینے کیساتھ بھینچ لیا۔
لڑکی نے بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن سریندر کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ وہ فرش پر چت گر پڑی، سریندر اسکے اوپر تھا۔ اس نے دھڑا دھڑ اسکے گہرے سانولے ہونٹ چومنے شروع کر دیے۔

boy and girl

boy and girl

لڑکی بے بس تھی۔ سریندر کا بوجھ اتنا تھا کہ وہ اسے اٹھا کر پھینک نہیں سکتی تھی۔
بدرجہ مجبوری وہ اسکے بوجھل گیلے بوسے برداشت کرتی رہی۔
سریندر نے یہ سمجھا کہ وہ رام ہو گئی ہے۔ چنانچہ اسنے مزید راز دستی شروع کی اسکی قمیض کے اندر ہاتھ ڈالا۔ وہ خاموش رہی۔ اس نے ہاتھ پاؤں چلانے بند کر دیے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس نے مدافعت کو اب فضول سمجھا ہے۔
سریندر کو اب یقین ہو گیا کہ میدان اسکے ہاتھ رہیگا۔ چنانچہ اس نے دراز دستی چھوڑ دی اور اس سے کہا چلو آؤں پلنگ پر لیٹتے ہیں۔
لڑکی اٹھی اور اسکے ساتھ چل دی۔ وہ دونوں پلنگ پر لیٹ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی تپائی پر ایک طشتری میں چند مالٹے اور ایک تیز چھری پڑی تھی۔ لڑکی نے ایک مالٹا اٹھایا اور سریندر سے پوچھا۔ میں کھا لوں؟
ہاں ہاں ۔۔۔۔۔۔ ایک نہیں سب کھا لو۔
سریندر نے چھری اٹھائی اور مالٹا چھیلنے لگا مگر لڑکی نے اس سے یہ دونوں چیزیں لے لیں۔
میں خود چھیلوں گی۔
اس نے بڑی نفاست سے مالٹا چھیلا۔ اسکے چھلکے اتارے پھانکوں پر سے سفید سفید جھلی ہٹائی پھر پھانکیں علیحدہ کیں۔ ایک پھانک سریندر کو دی دوسری اپنے منہ میں ڈالی اور مزہ لیتے ہوئے پوچھا۔ تمہارے پاس پستول ہے؟
سریندر نے جواب دیا۔ ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں کیا کرنا ہے؟

لڑکی کے گہرے سانولے ہونٹوں پر پھر وہی عجیب و غریب مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
میں نے ایسے ہی پوچھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم جانتے ہو نا کہ آجکل ہندو مسلم فساد ہو رہے ہیں۔
سریندر نے دوسرا مالٹا طشتری سے اٹھایا۔ آج سے ہو رہے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت دنوں سے ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے پستول سے چار مسلمان مار چکا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑے خونی قسم کے ۔
سچ؟ یہ کہہ کر لڑکی اٹھ کھڑی ہوئی۔ مجھے ذرا وہ پستول تو دکھانا۔
سریندر اٹھا اور دوسرے کمرے میں جا کر اس نے اپنے میز کا دروازہ کھولا اور پستول لے کر باہر آیا یہ لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ٹھہرو۔ اس نے پستول کا سیفٹی کیچ ٹھیک کر دیا کیونکہ اس میں گولیاں بھری تھیں۔

Murder

Murder

لڑکی نے پستول پکڑا اور سریندر سے کہا۔ میں بھی آج ایک مسلمان کو ماروں گی یہ کہہ کر اس نے سیفٹی کیچ کو ایکطرف کیا اور سریندر پر پستول داغ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ فرش پر گر پڑا اور جان کنی کی حالت میں کراہنے لگا۔ یہ تم نے کیا کیا؟
لڑکی کے گہرے سانولے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ چار مسلمان جو تم نے مارے تھے ان میں میرا باپ بھی تھا۔

تحریر: سعادت حسن منٹو