مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے پندرہ ،بیس سال پہلے تک اخبارات اور ٹیلی ویژن پر خبروں میں صدر کا نام آتا تھا تو لکھا اور بولا جاتا تھا۔آج صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان قوم سے فلاں وقت خطاب کریں گے ۔بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ماضی میں پاکستان کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کا لفظ لازم تھا۔لیکن اب پاکستان لکھا اور بولا جاتا ہے ۔صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جگہ صدر محترم یا صدر پاکستان نے لے لی ہے۔
میرے لیے دکھ کی بات یہ ہے کہ باقی تمام چیزیں ویسی کی ویسی ہیں ۔جیسا کہ چیف جسٹس ، وزیراعظم ،چیف آف آرمی سٹاف،لیکن اسلامی جمہوری پاکستان کی بجائے صرف پاکستان لکھا اور بولا جانے لگا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟میرے خیال ہے کہ آج تک وطن عزیز میں نہ تو اسلامی قانون کی حکمرانی قائم کی جاسکی اور نہ ہی جمہوریت اپنی اصل روح کے ساتھ پنپ سکی جس کی وجہ سے اسلامی اور جمہوریہ غائب ہوگئے ہیں صرف پاکستان رہ گیا ہے۔جمہوریت پر تو بہت سی باتیں ہوتی رہتیں آج دل کررہا ہے کہ کچھ وقت اسلام کی باتیں کروں ۔اسلام نے اپنی تعلیمات اور ضابطہ حیات میں انصاف پر بہت زیادہ زور دیا ہے اگر ہمارے حکمران مذہب اسلام کی بنیادی تعلیمات ،قانون ،ضابطہ حیات اوراصلی آئین یعنی شریعت محمدیۖ پرعملدرآمد کو یقینی بنائیں تو معاشرے میں کوئی مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔آج ہمارے معاشرے میں وہ تمام برائیاں موجود ہیں ۔جو ایک مسلم معاشرے میں نہیں ہونی چاہیں ۔میرے خیال میں دنیا کی ہر برائی نا انصافی سے شروع ہوتی ہے ۔اگر معاشرے سے ناانصافی کا خاتمہ کردیا جائے تو پھر دنیا میں کوئی جھگڑا باقی نہیں رہے گا ۔لیکن اس کام کے لیے ہمیں پوراپورااسلام میں داخل ہونا ہوگاکیونکہ کائنات میں اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا ضابطہ حیات موجود نہیں ہے ۔اگر مسلمان اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر مزید وقت ،طاقت اور قوت ضائع کیے بغیر اللہ تعالیٰ کے دین کو اپنی زندگیوں میں نافذ کریں۔
دنیا میں ہرکام کے لیے حرکت ،طاقت اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر کام کی انجام دہی محنت کہلاتی ہے ۔دنیا کی تمام ترخوب صورتی ،پائیداری محنت اورمشقت ہی کی بدولت ہے ۔محنت اس کائنات کا ایک ایسا اصول ہے جس پر عمل کی بنیاد پر انسان کو زندگی کے ہر شعبے میں ثمرات میسر آتے ہیں ۔خود خالق کائنات نے بھی بڑے واضح الفاظ میں فرما دیا ہے کہ انسان کو زندگی میں وہی کچھ ملے گا جس کے لیے وہ محنت کرے گا ۔اور انسان کو وہی کاٹنا پڑے گا جووہ اپنے ہاتھوں سے بوئے گا ۔طاقت اورقوت کااستعمال اگر غلط حکمت عملی کی نظر کردیا جائے تو کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ آج تک دنیا میں کبھی بھی کسی بھی قوم کو درست حکمت عملی ا پناے بغیرکامیابی نہیں ملی ۔اب سوچنے اورسمجھنے کی بات یہ ہے کہ دستور جس کا دوسرا نام منشور بھی ہوسکتا ہے اس کے بنانے والوں کی حیثیت کیا ہے وہ دنیاو آخرت کے کن ،کن امور میں مہارت رکھتے ہیں ۔ بیشک انسان کواللہ تعالیٰ نے دنیا کی تمام مخلوقات سے اعلیٰ و افضل بنا کر اشرف المخلوقت ہونے کا شرف بخشاء ہے ۔اس حقیقت میں بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پرکائنات کے وہ راز افشا ں کیے جو کائنات کی کسی دوسری مخلوق پر نہیں کیے۔اور سب سے بڑھ کرکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کوزندگی گزارنے کے لئے ایک ایسا دستور عطافرمایا ہے جس کا تا قیامت کوئی متبادل نہیں ہوسکتا جی قارئین آپ بالکل ٹھیک سمجھے میرا اشارہ قرآن کریم کی طرف ہی ہے۔
میرا ایمان ہے کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی موجود گی میں انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کسی دوسرے قانون کی بالکل کوئی ضرورت نہ تھی نہ ہے اور نہ ہی قیامت تک ہوگی ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قانون سے بہتر کوئی قانون ہوہی نہیں سکتا اور کون ہے جو خالق کائنات کے قانون کو بدل سکتا ہے ۔اللہ کے سوا کون ہے جو سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے نکال سکتا ہے۔کون ہے وہ جو بیمار کو شفاء دیتا ہے ۔میرے خیال میں جو مسلمان ہو ،جسے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین ہو،جس اللہ کے نبیوں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان ہواور جو قرآن کریم کو کلام الٰہی مانتا ہواسے کسی بھی دوسرے دستور کی ضرورت نہیں لیکن بد قسمتی سے پچھلے 64.65سالوں میں جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے تب سے آج تک ہمارے حکمران اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور بنانے اور بنا کر بدلنے میں مصروف ہیں ۔لیکن ان عقل کے اندھوں کو کون بتائے کہ مسلمانوں کے پاس کائنات کا سب سے اچھا ،سچا اورقابل عمل دستور قرآن کریم کی صورت میں موجود ہے۔اسی دستورکو نافذ کرنے کی ضرورت حضرت علامہ اقبال نے محسوس کی اور مسلمانوں کے لئے نہ صرف ایک آزاد ریاست کاتصورپیش کیا بلکہ ملک خداداد کانقشہ بھی بتا دیا ۔اب ہمارے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کے آزاد ہوجانے کے بعد ہمارے لیے وہ دستور (قرآن کریم)نہ قابل قبول کیوں ہوگیا ؟جس پر عمل پیرا ہونے میں مشکلات کی وجہ سے مسلمانوں نے ایک آزاد ریاست کے لیے جدوجہد کی تھی ۔مجھے پورا یقین ہے کہ اگر برصغیر کے مسلمانوں کے پاس ان کا اپنا دستور (قرآن کریم ) موجود نہ ہوتا تو کبھی بھی پاکستان آزاد نہ ہوتا۔
حکمران65سال تو کیا قیامت تک بھی لگے رہیں پھر بھی کوئی دستور نہیں بنا سکتے نہ صرف پاکستان کے حکمران بلکہ اگر پوری دنیا کے لوگ بھی اکٹھے ہو کربھی بنانا چاہیں توبھی میرے اللہ کے قرآن کے مقابلے کا دستور نہیں بنا سکتے ۔قارئین اگر میں صرف حکمرانوں کو ہی تنقید کا نشانہ بنائوں،تو انصاف نہ ہوگا کیونکہ جیسی قوم ہوگی ویسے ہی حکمران ہوں گے ۔حدیث شریف میں ہے کہ موسیٰ علیہ سلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا (یااللہ جب آپ ناراض ہوتے ہیں تو کیا ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا جب تم دیکھو ملک کی حکمرانی نااہل اور بدکار لوگوں کے ہاتھ ہے۔اور دولت بخیلوں اور چوروں ڈاکوئوں کے پاس ہے تو سمجھ لینا کہ میں (اللہ )اس قوم سے ناراض ہوں۔حضرت موسیٰ علیہ سلام نے پھر سوال کیا یا اللہ جب راضی ہوتے ہیں تو کیا ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم دیکھو کے ملک کے حکمران نیک ،ایمان دار ،انصاف پسنداور خوف خدا رکھنے والے ہیں تو سمجھ لو کہ میں (یعنی اللہ تعالیٰ)اس قوم پر بہت راضی ہوں ۔
Asif Ali Zardari
آج ہم اپنی حالت پر صرف ایک نظر ڈالیں توصاف نظر آتا ہے کہ وہ پاکستانی قوم سے ناراض ہے۔وہ جو مشرق و مغرب کا مالک ہے،وہ جو پتھر کے اند ر بھی کیڑے کو رزق عطا کرتا ہے ،وہ جوآسمان سے پانی برساتا ہے،وہ جو اپنے بندے کو ستر مائوں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے، وہ جو بڑا مہربان ہے،وہ جو رحیم وکریم ہے ، ہ جو ہمارا خالق و مالک ہے ،وہ جس نے ظلم کی چکی میں پسے مسلمانوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان عطا کیا ، میری اوقات نہیں کہ اپنے رب کی ثنا خوانی کرسکوں جو مجھے انتہائی نا شکری کے عالم میں بھی نوازتا ہے۔مجھے تو آج اقوام مسلم اورخاص طورپرپاکستانی قوم کی حالت دیکھ کر اتنا سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک آزاد ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنی خاص رحمت سے عطا فرمایا تھا ۔لیکن ہم نے اس عظیم نعمت کی قدر نہیں کی جس کی وجہ سے وہ ہم سے ناراض ہے۔