وطن عزیز میں ہمارے پیارے حکمران سیاستدان اورہونہار بیوروکریٹس اقتدار اور طاقت ملتے ہی جو پہلا کام کرتے ہیں وہ ان کا وی آئی پی پروٹوکول کا حصول ہے،جووہ اپنا استحقاق سمجھتے ہوئے استعمال کرتے ہیں، اسکارٹ میں بڑی بڑی قیمتی گاڑیاں،ہوٹر اور ساہرن کی کان پھاڑتی آواز،چاک و چوبند پولیس کے درجنوں جواں،اسکواڈ کی رونق ملٹری اور سول کمانڈوز کی پھرتیاں،کیا مجال کے کوئی مائی کا لال اس کارواں کا مزا کرکرا کر سکے،انتہائی اہم شخصیت عام طور پر دو چار ایک جیسی گاڑیوں میں سے کسی ایک گاڑی میں تشریف فرما ہوتے ہیں۔
باقی سب خالی یا پھر ان میں قریبی عزیز،پارٹی عہدیداران اور چند چمچے کڑچھے براجمان ہوتے ہیں،ڈاکٹروں کی ٹیم پیچھے ایمبولینس میں ٹھونسے ہوتے ہیں، فائربرگیڈ کی ایک دو گاڑیاں بھی شامل کارواں ہوتی ہیں، یہ قافلہ کہاں سے آیا اور کدھر کو چلا،یہ جاننا عوام کے لیے ضروری نہیں…البتہ عوام یہ گمان کر سکتی ہے کہ یہ قافلے ان کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے باگ دوڑ کرتے پھر رہے ہیں، لہذا لازم ہے کہ ان کو مکمل سکون،آرام اور یکسوئی سے کام کرنے دیا جائے،کوئی بدمزگی نہ ہونے پائے۔
کوئی ان کے کام میں روڑے نہ اٹکائے اور نہ اپنی منحوص صورت لیے انکے روٹ کے راستے منڈلاتا پھرئے ،کیوں کہ یہ کسی للو پنجو اور مولی پاولی کی سواری نہیں گزر رہی یہ ہمارئے وی وی آئی پی اشرافیہ طبقے کے وہ اعلیٰ قدر ذی وقار لوگ ہیں جوہمارے ہی ووٹوں سے مرغززاروں کے مزے لیتے پھر رہے ہیں،اور ہم خار زاروں کے مریخ میں بھٹکتے پھر رہے ہیں،کوئی ہمارا حامی و ناصر نہیں ہے،وفاقی آسمانوں پر اس وی وی آئی پی کلچرکا سایہ فگن ہمیشہ سے رہا ہے،دوسری طرف صوبائی والے خودنمائی کے ڈینگی بخار میں مبتلازندگی کے آیام ہنسی خوشی گزار رہے ہیں ، صرف ایک غم انہیں کھائے جارہا ہے جب سنتے ہیں کہ’ اگلی بار ی پھر زرداری’ تو سینے پر سانپ لوٹنے لگتے ہیں،باقی راوی چین ہی چین لکھتا ہے باقی رہی جہاں تک عوام کی بات…انکی خدمت میں عرض ہے..’ ہور چوپو ‘!!! یہ وی آئی پی کلچراور خودنمائی کا بخار ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑئے گا، خدارا اس لعنت سے جلد چھٹکارا حاصل کریں،جھوٹی شان و شوکت نے ہمیں اپنی اوقات بھلا دی ہے،قیصر و کسریٰ کے حکمرانوں سے بڑھ کے ہم پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔
بھلا کوئی مغل شہنشاہ ہمارے صدرمملیکت کا آن بان شان اور ہاتم طائی جیسی سخاوت کرسکتا تھا،ان کے بچے تو درباری گویوں اور قصیدہ گو اساتذہ سے پڑھتے تھے،ہمارے بچے تومجال ہے جو امریکہ لندن سے کم کہیں بریک لگاہیں، وہ تاریخی اور پرشکوہ عمارات بنانے پرکجھل خوار ہوئے ہم نے لندن امریکہ میں بڑی بڑی بلڈنگز اور بزنس ایمئپائر کھڑے کر دیے،وہ لوگ تو چند درجنوں ہاتھیوں اور گھوڑوں پر بیٹھ کے سرکاری دورے کرتے تھے،ہم چارٹر طیاروں پر بمعہ اپنے لاؤلشکر سفر کرتے ہیں اور دنیا کے انتہائی مہنگے ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں، ہمارا لباس،ٹائی کوٹ پینٹ اور شترمرغ کی کھال سے بنے جوتے یورپ امریکہ سے آتے ہیں،ہم سیلاب یا کسی قدرتی آفات کا محض جائزہ اور نظارہ اپنے سرکاری ہیلی کوپٹر پر بیٹھ کے لینے پر ہی کروڑوں لگا دیتے ہیں،من کے موجی ہیں دل چاہا تو کسی پسماندہ علاقے میں ایچیسن کالج کی طرز کا سکول بنا دیا، اسی علاقے کے باقی ٹاٹ سکولوں کو جوں کا توں رہنے دیا۔
تعلیم پر دوچار ارب اور شہر کی خوبصورتی پر نصف کھرب لگا دینا ہمارا ہی شیوا ہے،بتایئے ہے کسی اور ملک کے حکمرانوں کا اتنا جگرا؟ ہوتا بھی کیسے نہ وہ پی آراو شپ میں ماہر،نہ انہیں سلف پروجیکشن کا شعور،بڑی بڑی دلفریب چکنی چوپڑی باتیں او ر لارے وعدے کرنے کی ان میں خداداد صلاحیت ہی نہیں تھیں،ان کے بڑوں بڑوں نے کسی سوئس بنک کا نام تک نہیں سنا تھا۔ جہاں وہ ماردھاڑ اورلوٹ کھسوٹ کا پیسہ جمع کرتے اور بڑھاپہ آرام سے گزارتے!! وہ بیچارے اپنی لوٹ مارکی رقم اپنے ہی محل اور دیگوں میں رکھ کے اللہ کو پیارے ہوجاتے ،بلاخر وہی خزانہ کچھ عرصے بعد عوام کے ہاتھ جا لگتا اور یوں ملک اور عوام میں خوشحالی آجاتی تھی۔ جبکہ اس قسم کی حماقت ہمارے ہاں بھول کر بھی نہیں کی جاتی۔ہم بھلا کیوں حرام کی دولت کو اپنے پاس رکھیں،وہ یہودیوں اور کافروں کے پاس ہی رہے تو بہتر ہے، ایویں ای عدلیہ اور مخالفین مفت میں لٹھ لیکر پیچھے پڑجاتے ہیں، بھلا ہم سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ وہ دولت ہم نے کب؟کہاں اور کیسے کمائی؟ یہ انکشاف تو ہم قبر میں فرشتوں تک کو پتہ نہیں چلنے دیں گے کہ ہم کہ ٹہرئے وی وی ّئی پی.. طاقت اقتدارحکمرانی گھر کی لونڈی، کوئی جائے اور انہیں یہ بتائے کہ ہم کوئی…. للو پنجو اور موچی پولی نہیں !! بلبل ملتان کشفی ملتانی کے بقول: رند بخشے گئے قیامت کے روز…..شیخ کہتا رہا حساب حساب۔