بٹوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کیطرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہیے یعنی جو مسلمان پاگل، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں۔ انہیں ہندوستان کے حوالے کر دیا جائے۔
معلوم نہیں یہ بات معقول تھی یا غیر معقول، بہرحال دانشمندوں کے فیصلے کے مطابق ادھر ادھر اونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں اور بالآخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کیلئے مقرر ہو گیا۔ اچھی طرح چھان بین کی گئی۔ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے۔ وہیں رہنے دیے گئے تھے جو باقی تھے انکو سرحد پر روانہ کر دیا گیا۔ یہاں پاکستان میں چونکہ قریب قریب تمام ہندو سکھ جا چکے تھے اسلیے کسی کو رکھنے رکھانے کا سوال ہی نہ پیدا ہوا۔ جتنے ہندو سکھ پاگل تھے سب کے سب پولیس کی حفاظت میں بارڈر پر پہنچا دیے گئے۔
ادھر کا معلوم نہیں لیکن ادھر لاہور کے پاگل خانوں میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز باقاعدگی کیساتھ ” زمیندار” پڑھتا تھا اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا۔ ” مولبی ساب” یہ پاکستان کیا ہوتا ہے؟ تو اس نے بڑے غوروفکر کیبعد جواب دیا۔ ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں۔ یہ جواب سن کر اسکا دوست مطمئن ہو گیا۔
mental hospital
اسی طرح ایک سکھ پاگل نے ایکدوسرے سکھ پاگل سے پوچھا۔ سردار جی ہمیں ہندوستان کیوں بھیجا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں تو وہاں کی بولی نہیں آتی؟ دوسرا مسکرایا۔ مجھے تو ہندوستوڑوں کی بولی آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندوستانی بڑے شیطانی آکڑ آکڑ پھرتے ہیں۔
ایک دن نہاتے نہاتے ایک مسلمان پاگل نے ” پاکستان زندہ باد” کا نعرہ اس زور سے بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گرا اور بیہوش ہو گیا۔ بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے۔ ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے افسروں کو دے دلا کر پاگل خانے بجھوا دیا تھا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں۔ یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا اور یہ پاکستان کیا ہے لیکن صحیح واقعات سے وہ بے خبر تھے۔ اخباروں سے کچھ پتا نہیں چلتا تھا اور پہرہ دار سپاہی ان پڑھ جاہل تھے۔ انکی گفتگو سے بھی وہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں کر سکتے تھے۔ انکو صرف اتنا معلوم تھا کہ ایک آدمی محمد علی جناح ہے جس کو قائداعظم کہتے ہیں۔ اس نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک بنایا ہے جسکا نام پاکستان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہاں ہے؟ اسکا محل وقوع کیا ہے؟ اسکے متعلق وہ کچھ نہیں جانتے تھے یہی وجہ ہے کہ پاگل خانے میں وہ سب پاگل جنکا دماغ پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا اس مخمصے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں۔ اگر ہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے؟ اگر وہ پاکستان میں ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ عرصہ پہلے یہیں رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں تھے۔
ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان، اور ہندوستان اور پاکستان کے چکر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہو گیا۔ جھاڑو دیتے دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنے پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی۔ سپاہیوں نے اسے نیچے اترنے کو کہا تو وہ اور اوپر چڑھ گیا۔ ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اس درخت پر ہی رہونگا۔
بڑی مشکلوں کیبعد جب اسکا دورہ سرد پڑا تو وہ نیچے اترا اور اپنے ہندو سکھ دوستوں سے گلے مل مل کر رونے لگا۔ اس خیال سے اسکا دل بھر آیا تھا کہ وہ اسے چھوڑ کر ہندوستان چلے جائینگے۔
ایک ایم ایس سی پاس ریڈیو انجینئر میں جو مسلمان تھا اور دوسرے پاگلوں سے بالکل الگ تھلگ باغ کی ایک خاص روش پر سارا دن خاموش ٹہلتا رہتا تھا یہ تبدیلی نمودار ہوئی کہ اس نے تمام کپڑے اتار کر دفعدار کے حوالے کر دیے اور ننگ دھڑنگ سارے باغ میں چلنا پھرنا شروع کر دیا۔ چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جو مسلم لیگ کا سرگرم رکن رہ چکا تھا اور دن میں پندرہ سولہ مرتبہ نہایا کرتا تھا یک لخت یہ عادت ترک کر دی۔ اسکا نام محمد علی تھا۔ چنانچہ اس نے ایک دن اپنے جنگلے میں اعلان کر دیا کہ وہ قائداعظم محمد علی جناح ہے اسکی دیکھا دیکھی ایک سکھ پاگل ماسٹر تارا سنگھ بن گیا۔ قریب تھا کہ اس جنگلے میں خون خرابہ ہو جائے مگر دونوں کو خطرناک پاگل قرار دیکر علیحدہ علیحدہ بند کر دیا گیا۔
Amritsar Station
لاہور کا ایک نوجوان ہندو وکیل تھا جو محبت میں ناکام ہو کر پاگل ہو گیا تھا۔ جب اس نے سنا کہ امرتسر ہندوستان میں چلا گیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا۔ اسی شہر کی ایک ہندو لڑکی سے اسے محبت ہوئی تھی گو اس نے اس وکیل کو ٹھکرا دیا تھا مگر دیوانگی کی حالت میں بھی وہ اسکو نہیں بھولا تھا چنانچہ وہ ان تمام ہندو اور مسلم لیڈروں کو گالیاں دیتا تھا جنہوں نے مل ملا کر ہندوستان کے دو ٹکڑے کر دیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی محبوبہ ہندوستانی بن گئی اور وہ پاکستانی۔
جب تبادلے کی بات شروع ہوئی تو وکیل کو کئی پاگلوں نے سمجھایا کہ وہ دل برا نہ کرے اسکو ہندوستان بھیج دیا جائیگا۔ اس ہندوستان میں جہاں اسکی محبوبہ رہتی تھی مگر وہ لاہور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اسلیے کہ اسکا خیال تھا کہ امرتسر میں اسکی پریکٹس نہیں چلیگی۔
یورپین وارڈ میں دو اینگلو انڈین پاگل تھے۔ انکو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کر کے انگریز چلے گئے ہیں تو انکو بہت صدمہ ہوا وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں اب انکی حیثیت کس قسم کی ہو گی۔ یورپین وارڈ رہیگا یا اڑا دیا جائیگا۔ بریک فاسٹ ملا کریگا یا نہیں۔ کیا انہیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاٹی تو زہر مار نہیں کرنا پڑیگی۔
ایک سکھ تھا جسکو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے۔ ہر وقت اسکی زبان سے یہ عجیب و غریب الفاظ سننے میں آتے تھے۔ ” اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین۔” دن کو سوتا تھا نہ رات کو۔ پہرہ داروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لمحے کیلئے بھی نہیں سویا۔ لیٹتا بھی نہیں تھا البتہ کبھی کبھی کسی دیوار کیساتھ ٹیک لگا لیتا تھا۔
ہر وقت کھڑا رہنے سے اسکے پاؤں سوج گئے تھے۔ پنڈلیاں بھی پھول گئی تھیں مگر اس جسمانی تکلیف کے باوجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ ہندوستان، پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی تو وہ غور سے سنتا تھا۔ کوئی اس سے پوچھتا کہ اسکا کیا خیال ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا۔ ” اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان گورنمنٹ ” لیکن بعد میں ” آف دی پاکستان گورنمنٹ ” کی جگہ آف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ نے لے لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے جہاں کا وہ رہنے والا ہے لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں جو بتانے کی کوشش کرتے تھے وہ خود اس الجھاؤ میں گرفتار ہو جاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سنا ہے کہ پاکستان میں ہے۔ کیا پتا ہے کہ لاہور جو اب پاکستان میں ہے کل ہندوستان میں چلا جائے۔ یا سارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے اور یہ کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غائب ہی ہو جائیں۔
اس سکھ پاگل کے کیس چھدرے ہو کے بہت مختصر رہ گئے تھے چونکہ بہت کم نہاتا تھا اس لیے داڑھی اور سر کے بال آپس میں جم گئے تھے۔ جس کے باعث اسکی شکل بڑی بھیانک ہو گئی تھی مگر آدمی بے ضرر تھا۔ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا۔ پاگل خانے کے جو پرانے ملازم تھے وہ اس متعلق اتنا جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اسکی کئی زمینیں تھیں۔ اچھا کھاتا پیتا، زمیندار تھا کہ اچانک دماغ الٹ گیا اسکے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں داخل کرا گئے۔
مہینے میں ایکبار ملاقات کیلئے یہ لوگ آتے تھے اور اسکی خیر خیریت دریافت کر کے چلے جاتے تھے ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پر جب پاکستان، ہندوستان کی گڑبڑ شروع ہوئی تو انکا آنا بند ہو گیا۔
اسکا نام بشن سنگھ تھا مگر سب اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے اسکو یہ قطعاً معلوم نہیں تھا کہ دن کون سا ہے؟ مہینہ کونسا ہے؟ یا کتنے سال بیت چکے ہیں لیکن ہر مہینے جب اسکے عزیز و اقارب اس سے ملنے کیلئے آتے تھے تو اسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا۔ چنانچہ وہ دفعدار سے کہتا کہ اسکی ملاقات آ رہی ہے۔ اس دن وہ اچھی طرح نہاتا، بدن پر خوب صابن گھستا اور سر میں تیل لگا کر کنگھا کرتا اپنے کپڑے جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا نکلوا کے پہنتا اور یوں سج بن کر ملنے والوں کے پاس جاتا۔ وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یا کبھی کبھار۔” اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین” کہہ دیتا۔
اسکی ایک بیٹی تھی جو ہر مہینے ایک انگلی بڑھتی بڑھتی پندرہ برسوں میں جوان ہو گئی تھی۔ بشن سنگھ اسکو پہچانتا ہی نہیں تھا وہ بچی تھی جب بھی اپنے باپ کو دیکھ کر روتی تھی، جوان ہوئی تب بھی اسکی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔
پاکستان اور ہندوستان کا قصہ شروع ہوا تو اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ جب اطمینان بخش جوان نہ ملا تو اسکی کرید دن بدن بڑھتی گئی۔ اب ملاقات بھی نہیں آتی تھی۔ پہلے تو اسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا کہ ملنے والے آ رہے ہیں، پر اب جیسے اسکے دل کی آواز بھی بند ہو گئی تھی جو اسے انکی آمد کی خبر دے دیا کرتی تھی۔
اسکی بڑی خواہش تھی کہ وہ لوگ آئیں جو اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے تھے اور اسکے لیے پھل، مٹھائیاں اور کپڑے لاتے تھے۔ وہ اگر ان سے پوچھتا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے تو وہ یقیناً اسے بتا دیتے کہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں کیونکہ اسکا خیال تھا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی سے آتے ہیں جہاں اسکی زمینیں ہیں۔
پاگل خانے میں ایک پاگل ایسا بھی تھا جو خود کو خدا کہتا تھا۔ اس سے جب ایک روز بشن سنگھ نے پوچھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں تو اس نے حسب عادت قہقہ لگایا اور کہا ” وہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں۔ اس لیے کہ ہم نے ابھی تک حکم نہیں دیا۔
بشن سنگھ نے اس خدا سے کئی مرتبہ بڑی منت سماجت سے کہا کہ وہ حکم دیدے تاکہ جنجھٹ ختم ہو مگر وہ بہت مصروف تھا اسلیے کہ اسے اور بیشمار حکم دینے تھے۔ ایکدن تنگ آ کر وہ اس پر برس پڑا۔ ” اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف واہے گوروجی دا خالصہ اینڈ واہے گورو جی کی فتح۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو بولے سو نہال ست سری اکال”۔
اسکا شاید یہ مطلب تھا کہ تم مسلمانوں کے خدا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سکھوں کے خدا ہوتے تو ضرور میری سنتے۔۔
A patient
تبادے سے کچھ دن پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک مسلمان جو اسکا دوست تھا ملاقات کیلئے آیا۔ پہلے وہ کبھی نہیں آیا تھا۔ جب بشن سنگھ نے اسے دیکھا تو ایکطرف ہٹ گیا اور واپس جانے لگا مگر سپاہیوں نے اسے روکا۔ یہ تم سے ملنے آیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا دوست فضل دین ہے۔ کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ تم سے ملوں لیکن فرصت ہی نہ ملی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے سب آدمی خیریت سے ہندوستان چلے گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے جنتی مدد ہو کی، میں نے کی۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری بیٹی روپ کور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بشن سنگھ کچھ یاد کرنے لگا۔” بیٹی روپ کور” فضل دین نے رک رک کر کہا۔ ہاں۔۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکے ساتھ ہی چلی گئی تھی۔ ”
بشن سنگھ خاموش رہا۔ فضل دین نے کہنا شروع کیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری خیر خیریت پوچھتا رہوَ اب میں نے سنا ہے کہ تم ہندوستان جا رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی بلیر سنگھ اور بھائی ودھاوا سنگھ سے میرا سلام کہنا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بہن امرت کور سے بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی بلیر سے کہنا۔ فضل دین راضی خوشی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو بھوری بھینسیں جو وہ چھوڑ گئے تھے ان میں سے ایک نے کٹا دیا ہے دوسری کے کٹی ہوئی تھی پر وہ چھ دن کی ہو کے مر گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے لائق جو خدمت ہو’ کہنامیں ہر وقت تیار ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ تمہارے لیے تھوڑے سے مرونڈے لایا ہوں۔ بشن سنگھ نے مرونڈوں کی پوٹلی لیکر پاس کھڑے سپاہی کے حوالے کر دی اور فضل دین سے پوچھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ فضل دین نے قدرے حیرت سے کہا۔ کہاں ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہیں ہے جہاں تھا۔ بشن سنگھ نے پھر پوچھا۔ پاکستان میں یا ہندوستان میں ؟ ہندوستان میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں پاکستان میں فضل دین بوکھلا سا گیا۔ بشن سنگھ بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔ اوپڑ دی گڑگڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی در فٹے منہ۔”
تبادلے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنیوالے پاگلوں کی فہرستیں پہنچ گئی تھی اور تبادلے کا دن بھی مقرر ہو چکا تھا۔
سخت سردیاں تھیں جب لاہور کے پاگل خانے سے ہندو سکھ پاگلوں سے بھری ہوئی لاریاں پولیس کے محافظ دستوں کیساتھ روانہ ہوئیں۔ متعلقہ افسر بھی ہمراہ تھے۔ واہگہ کے بارڈر پر طرفین کے سپرنٹنڈنٹ ایکدوسرے سے ملے اور ابتدائی کارروائی ختم ہونے کیبعد تبادلہ شروع ہو گیا جو رات بھر جاری رہا۔
پاگلوں کو لاریوں سے نکالنا انکو دوسرے افسروں کے حوالے کرنا بڑا کٹھن کام تھا۔ بعض تو باہر نکلتے ہی نہیں تھے جو نکلنے پر رضامند ہوتے تھے۔ انکو سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا کیونکہ ادھر ادھر بھاگ اٹھتے تھے جو ننگے تھے انکو کپڑے پہنائے جاتے تو وہ پھاڑ کر اپنے تن سے جدا کر دیتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی گالیاں بک رہا ہے۔ کوئی گا رہاہے۔ آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ رو رہے ہیں بلک رہے ہیں۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاگل عورتوں کا شورو غوغا الگ تھا اور سردی اتنی کڑاکے کی تھی کہ دانت سے دانت بج رہے تھے۔
پاگلوں کی اکثریت اس تبادلے کے حق میں نہیں تھی۔ اس لیے کہ انکی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہیں اپنی جگہ سے اکھاڑ کر کہاں پھینکا جا رہا ہے وہ چند جو کچھ سوچ سمجھ سکتے تھے” پاکستان زندہ باد” اور ” پاکستان مردہ باد”کے نعرے لگا رہے تھے۔ دو تین مرتبہ فساد ہوتے ہوتے بچا کیونکہ بعض مسلمانوں اور سکھوں کو یہ نعرے سن کر طیش آ گیا تھا۔
جب بشن سنگھ کی رہائی آئی اور واہگہ کے اس پار متعلقہ افسر اسکا نام رجسٹر میں درج کرنے لگا تو اس نے پوچھا۔ ” ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں یا ہندوستان میں۔ ” متعلقہ افسر ہنسا۔ پاکستان میں ۔
یہ سن کر بشن سنگھ اچھل کر ایکطرف ہٹا اور دوڑ کر اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا۔ پاکستانی سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور دوسری طرف لے جانے لگے مگر اس نے چلنے سے انکار کر دیا۔ ” ٹوبہ ٹیک سنگھ” یہاں ہے اور زور زور سے چلانے لگا۔ ” اوپڑ دی گڑگڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر نہیں گیا تو اسے فوراً وہاں بھیج دیا جائے مگر وہ نہ مانا۔ جب اسکو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں ہلا سکے گی۔
آدمی چونکہ بے ضرر تھا اسلیے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی اسکو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا باقی کام ہوتا رہا۔
toba tek singh
سورج نکلنے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ ادھر ادھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوندھے منہ لیٹا ہے۔ ادھر خار دار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جسکا کوئی نام نہیں تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔