پاکستانیوں سے متعلق ایک امریکی غیرسرکاری ادارے کی رپورٹ

america

america

یہ حقیقت نہیں ہے کہ آج 85فیصد محب وطن پاکستانی اپنے حکمرانوں اور امریکی قیادت سے ناخوش ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ لمحات میں 99.99فیصدپاکستانی ہیں جو اپنے حکمرانوں کے امریکی قیادت سے تعلقات قائم رکھنے پر ناخوش ہیں جبکہ 85فیصد کا جواِنکشاف امریکامیں ایک غیر سرکاری ادارے کی رپورٹ میں کیاگیاہے وہ غلط ہے اور اِس پر سونے پر سہاگہ یہ کہ اپنی اِس رپورٹ پر اِس امریکی ادارے نے دعوی  کیاہے کہ اِس کی یہ رپورٹ ہر قسم کے شک و شہبات سے بالاتر ہے امریکی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک غیرسرکاری ادارے نے 2011میں پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے لوگوں کی رائے پر مشتمل مختلف سروے کا جائزہ لینے کے لئے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں اِس نے چیخ چیخ کر یہ بتانے اور پاکستانی حکمرانوں ، سیاستدانوں اور امریکی قیادت کو اِس بات کی یقین دہانی کرانے کی کوشش کی ہے کہ43فیصد پاکستانی مسلم دنیااور مغرب میں تعلقات کو ضروری سمجھتے ہیں جس کی تفصیل بتاتے ہوئے اِس غیرسرکاری امریکی ادارے نے اپنی رپورٹ میں اِس کا بھی انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ سال دومئی کو ایبٹ آباد میں پیش آنے والے امریکی افواج کے آپریشن والے واقع کے بعدلوگوں سے جب یہ رائے جانی گئی کہ پاکستان اور امریکاکے تعلقات کس حد تک بحال ہونے چاہئیںتو اِس ادارے نے بتایاہے کہ 64فیصدلوگ اِس امریکی آپریشن سے آگاہ تھے جبکہ اِس پر ہم پاکستانی پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اِس آپریشن کا علم ایک فیصد بھی پاکستانیوں کو نہیں تھا یہ امریکی ادارہ کن 64فیصد پاکستانیوں کی بات کر رہا ہے۔
انہوں نے نفی میں جواب دیاجبکہ اِسی ادارے نے اپنی اِسی رپورٹ میں یہ بھی کہاہے کہ 5فیصد نے مثبت رائے دی اور10فیصد پاکستانیوں نے امریکی آپریشن کو سراہا اور اِسی طرح اِس امریکی ادارے نے یہ بھی کہاہے کہ 25فیصد وہ پاکستانی ہیں جو اپنی حکومت اورامریکی قیادت پر اعتماد نہیں کرتے ہیں جبکہ اِس نقطے پر اِس امریکی ادارے سے ہمارااختلاف یہ ہے کہ ملک کی موجودہ غیریقینی سیاسی اور معاشی صورت حال میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آج صرف 25فیصد پاکستانی نہیں بلکہ 99.99فیصد پاکستانی ہیں جو اپنی حکومت کے امریکی قیادت سے تعلقات قائم رکھنے پر اعتماد نہیں کرتے ہیں اِس کی وجہ یہ ہے کہ پاک امریکاتعلقات کی تاریخ کامطالعہ کیاجائے تویہ بات سامنے آئے گی کہ امریکیوں نے پاکستانیوں کی جانب سے باہمی تعلقات کے لئے بڑھائے گئے ہاتھ پر کبھی بھی اچھا رسپانس نہیں دیاہے اور آج یہی وجہ ہے کہ ہر پاکستانی امریکیوں کے لئے اپنے دل میںنفرتوں کا طوفان لیئے پھررہاہے اوریہ جس کا ذمہ دار اپنے ان امریکی تلوے چاٹتے حکمرانوں کو ٹھیراتاہے جنہوں نے اپنی کرسی اور اپنے مفادات کے لئے ملکی استحکام اور سا لمیت کو پس پست ڈال کر امریکیوں کی ہمیشہ جی حضوری کی اور ہر دور میں اپنی دال دلیہ کا بندوبست کیا اگرچہ آج یہ حقیقت بھی امریکیوں سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ امریکا نے پاکستان کے ساتھ جان بوجھ کر اپنا ایسارویہ اِس لئے رکھاہواہے کہ وہ پاکستانی حکمرانوں کی رگ رگ سے اچھی طرح واقف ہے اور آج بھی اِسے ہی یہ کریڈٹ جاتاہے کہ موجودہ حکمران بھی اِس کے اس ہی پیمانے پر پورااترے ہیں جیساکہ امریکا پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں سے متعلق پہلے ہی اپنا ایک امیج رکھتاہے جبکہ دوسری جانب وہ محب وطن پاکستانی عوام ہے جس نے ہمیشہ اپنے حکمرانوں کی امریکاسے تعلقات کی ڈوری تھامے رکھنے پر احتجاج کیاہے اور آج بھی پاکستانی عوام پاک امریکاحکمرانوں کے خلاف ہے کیوں کہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکانے پاکستانی حکمرانوں سے ہمیشہ اپنے مفادات کا کام نکلاہے اور ہمارے حکمران اپنی کرسی اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے خاطر ہرامریکی انتظامیہ کے اشارے پر ملنے والے ہر الٹے سیدھے حکم کو بجالانے کے لئے لٹوکی طرح ناچتے رہے ہیں اور ہمارے حکمرانوں کی یہی وہ روش ہے جِسے آج امریکی انتظامیہ سمجھتی ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کو اپنے لئے کیا چاہئے۔
جبکہ پاکستانی عوام اپنے حکمرانوں کی امریکی انتظامیہ سے تعلقات قائم رکھنے پر ہمیشہ سے خائف رہے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان ہی کیا اگر اِس کی جگہہ کوئی دوسراملک بھی ہوتاتو اِس کے لوگ بھی یہی کچھ کرتے جیساآج ہر پاکستانی امریکاکے متعلق سوچتا اور کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ادھر امریکاہے کہ جواول روز سے ہی پاکستان سے متعلق اپنی ان دو پالیسیوں پر کاربندہے جن کی بنیاد پر امریکانے ہمیشہ پاکستانی حکمرانوں کوسبزباغات دکھاکراپناالوسیدھاکیاہے اول یہ کہ پاکستان سے دوستی کا ہاتھ تو ضروربڑھائے رکھومگر اِس کی ضرورت کے وقت کبھی بھی فورااِس کے کام مت آو اور دوئم یہ کہ پاکستان کی ضرورت کے دس مطالبات میں سے صرف دویا چار ہی مطالبات پر عمل کرواور اگر کبھی اِ س کی جانب سے مزید مطالبہ زور پکڑیں تو پھر اِس بات کا جائزہ لیاجائے کہ اِن میں امریکی مفادات کی کتنی گارنٹی محفوظ ہے اور جب یہ یقین ہوجائے کہ اِن میں امریکی مفادات کا عنصر زیادہ غالب ہے تو پھر پاکستان کے ساتھ ایسی شرائط طے کی جائیں جن پر پاکستان اگر عمل کرنے کا حامی ہوتاہے تو پھر اِن مطالبات کو پوراکردیاجائے اور اگر یہ اِن پابندیوں پر عمل درآمد کرنے پر رضامندنہیں ہوتاہے تو پھر وہ مطالبات بھی مستردکردیئے جائیں جنہیں پوراکرنے کا امریکاپاکستان سے پہلے حامی بھرچکاہے آج اگر اِن ہی امریکی رویوں اور پالیسیوں کی وجہ سے محب وطن پاکستانیوں میں امریکی انتظامیہ اور امریکی عوام سے متعلق نفرت کا کوئی شعلہ بھڑک رہاہے تو پھر اِس کے بارے میں آپ کاکیاخیال ہے کیا ہے ٹھیک نہیں ہے..؟؟کیا ایسے میں پاکستانی عوام اپنے حکمرانوں کو امریکاسے تعلقات قائم رکھنے پر خائف رہتے ہیں تو آپ کیاسمجھتے ہیں یہ غلط ہیں ..؟ ایسے میں ہمارے حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ وہ بھی امریکاسے اپنے تعلقات قائم رکھنے سے متعلق اپنا احتساب خودبھی کریں اوریہ سوچیں کہ انہوں نے امریکا سے تعلقات کیوں اور کس لئے استوار کررکھیں ہیں …؟اوروہ امریکا جو کبھی بھی ہمارے برے وقت میں کام نہیں آیا تو اِس کے ساتھ یہ دوستی قائم رکھنے پر کیوں بضد ہیں۔
تحریر :   محمد اعظم عظیم اعظم[email protected]