گزشتہ دنوں لاہور میں موجود ایک دوست کیلئے اخبارات کے کچھ حاشیے بیجھنے کی ضرورت پیش ائی۔پرائیویٹ کورئیر سنٹر جانے کیلئے 20 منٹ کا راستہ طے کرنا تھا جبکہ پاکستان پوسٹ افس تک رسائی کیلئے صرف 5 منٹ درکار تھے۔میں نے سستی سے کا م لیکر گرمی کا موذوں بہانا بنایا اور ”ڈاکخانہ” چلا گیا،وہاں جاکر حالات کا بغورجائزہ لیا تو غم سے ایک ٹھنڈی اہ بھر کر افسردہ ہوگیا۔دو کمروں پر مشتمل اس دفتر کے انٹیں واپس مٹی میں تبدیل ہوچکے تھے،لکٹری سے بنے کھڑکیوں اور دروازوں کو دیمک نے چاٹ لیا تھا،بجلی نہ ہونے کی وجہ سے عملے کے ہاتھوں میں قلم کے بجائے دستے پنکھے نظر ارہے تھے،فرنیچر بوسیدہ ہونے کی وجہ سے دفتر کم اور گیراج ذیادہ لگتا تھا جبکہ رہی سہی کسر چڑیوں نے آباد ہوکر پورا کیا تھا۔
میں نے لفافہ آفیسر کو دیکر ”رجسٹری” کروایا اور 60 روپے دے کر رسید حاصل کرلی۔پوچھنے پر بتایا گیا کہ کل لازم پہنچ جائیگی یعٰنی 24 گھنٹوں کا وقت ظاہر کیا۔یہ سُن کر باہر ایا اور پھرتی سے لاہور فون کرکے امتیاز علی شاکرصاحب کو اپنے کارنامے کے بارے میں عرض کیا۔امتیاز صاحب نے چار دن بعد فون کرکے بتایا کہ ابھی تک کچھ وصولی نہیں ہوئی ہے اور ساتھ ہی پاکستان پوسٹ سے بیجھنے پر ڈانٹا کہ کسی کورئیر کمپنی کے ذریعے بیج کر وقت بچایا جاسکتا تھا،خیر تھوکنے کے بعد افسوس کرنے سے بہتر ہے کہ حالات کا مقابلہ کریں۔
میں نے دو دن مزید انتظار کیا اور پھر جا کر ڈاکخانہ میں باادب ہوکر اپنا ”کمپلینٹ” داخل کروایا اور ساتھ ہی اس مسئلے کے حل کے بارے میں عرض کیا تو پتہ چلا کہ ”کھبی کھبی” یہ دس دن بھی لیتے ہیں اور سا تھ ہی مُھجے دلاسہ دینے کیلئے اضافہ کیا کہ ” ہوجائیگا” ”تم فکر مت کر کھبی کھبی ایسا ہوتا ہے”۔
میں یہ سن کر بڑا حیران و پریشان دفتر آیااور دوستوں کے سامنے بالا واقع پیش کی تو وہ لوگ مجھے دلاسہ دینے کے بجائے ہنسنے لگے اور پھر باری باری پوسٹ آفس سے وابسطہ اپنے اپنے تلخ تجربات اور واقعات کا ذکرشروع کیا جس سے میرا غم ہلکا سا ہوگیا۔
post office
اسی طرح دو دن اور گزرگئے اور میں ایک بار پھرڈاکخانہ جا کراپنا درخواست رکھ دی تواس ماڈرن دور میں کمپیوٹر کے بجائے موٹے موٹے کتابوں سے ریکارڈ ٹٹول کر میر ے حوالہ کیا۔اس ریکارڈ کی لاہورمیں جانج پڑتال کی گئی تو پتہ چلا کہ وہ دو دن پہلے اپنی اڈریس پر واپس روانہ کیا گیا ہے۔یہ سن کر میں پھر سے پوسٹ آفس کا چکر لگانے لگا، لیکن وہاں جواب ملا کہ ایسا کوئی خط نہیں ملا ہے۔
قارئین کرام!پاکستان میں کل GPO کی کل تعداد 83 اور پوسٹ آفس کی تعداد 567 ہے۔ ٹیکنالوجی کی اس جدید دور میں صرف GPO میں کمپیوٹر موجود ہیں۔لیکن تمام GPO آپس میں منسلک نہیں ہے۔جبکہ پوسٹ آفس میںوہی پرانااسودہ حال نظام رائج ہے۔پاکستان پوسٹ نے 15 اگست1947 سے لاہورسے کام کا آغاز کیا تھاجبکہ 6 جولائی1996 کو علیٰحدہ کارپوریشن بنایا گیا اور رہی سہی کسرموجودہ حکومت نے پوری کی کہ پاکستان پوسٹ کو علیٰحدہ وزارت سے بھی نوازا گیا۔پاکستان پوسٹ یونیورسل پوسٹل یونین کا 89thممبر ہے۔۔
دیگر اداروں کی طرح یہاں بھی ایک خوبصورت ماٹو بنایا گیا یعنی خدمت ہر وقت ،ہر جگہ ،ہر کسی کا لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔پاکستان پوسٹ حکومت پاکستان کا بڑا اور وسیع نیٹ ورک ہے اور تمام لوگوں کے توقعات اس سے وابستہ ہے لیکن روز ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جس میں انٹرویو کی کال لیٹر تب وصول ہوتی ہے جب دیا ہوا تاریخ گزرجائے۔اسی طرح کال لیٹر،امتخانی رولنمبر،یا دوسرے ضروری کاغزات نہ ملنے سے کسی کی ذندگی تباہ ہوسکتی ہے جبکہ دوسرے طرف ان کے مقابلے میںپرائیویٹ کورئیر کمپنیاںہیں جسکی وسائل اور حجم پاکستان پوسٹ سے کئی گنا کم ہے لیکن کارگردگی میں کئی گنا ذیادہ ہے۔
Pakistan post office
میں نے جب ڈاکخانہ میں موجود ادھیڑ عمر کے افیسر سے پاکستان پوسٹ کی اسی حالت زار کی وجہ پوچھی تو سب سے پہلے نزلہ پرائیویٹ کمپنیوں کی کثرت پر ڈالا گیا۔بتایا گیا کہ ان کی پھرتی اور حُسن کارکردگی کی وجہ سے بہت کم لوگ یہاں کا رُخ کرتے ہیں،میں نے عرض کیا کہ اپ بھی پھرتی دکھا کر ان کا مقابلہ کرسکتے ہیں جس پر انھوں نے حسب روایت کم وسائل اور نامعقول تنخواہ کا رونا شروع کیا لیکن دراصل ہمارے ملکی ڈاک کا نظام اِنتظامیہ کے سخت رویہ اور پرانا اسودہ حال سسٹم کی وجہ سے فیل ہے کیونکہ پاکستان پوسٹ کے مقابلہ میں دوسرے کورئیر اداروں میں وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن وہ لوگ اج کے نئے نئے طریقوں اور اصولوں پر عمل پیرا ہیں جسکی وجہ سے ہم لوگ پرائیویٹ اداروں میں دوگنا خرچ دینے کیلئے تیار ہیں لیکن اپنی مُلکی ادارہ یٰعنی پاکستان پوسٹ کے استعمال سے کتراتے ہیں۔
میرے دوست ارشد نے اسی پر بحث کرتے ہوئے ایک انوکھا انکشاف کیا کہ پاکستان پوسٹ کے تباہی کے ذمہ دار خود اس کے نوکر پیشہ افراد ہیں۔PTCL کی طرح یہاں بھی اپنے ملازمین خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مار کر پاکستان پوسٹ کا مورال خراب کرتے ہیں یٰعنی خطوط پہنچانے میں تاخیر تو کھبی اہم دستاویز ضائع کیا جاتا ہے جسکا معاوضہ پرائیویٹ کورئیر کمپنیاں انہیں ادا کرتے ہیں مطلب میر جعفر کی طرح غداری کرکے اپنے گھر کو اگ لگاتے ہیں جس طرح PTCL کو انٹر نیشنل کمیونیکیشن اداروں کے ایما اور Black Investment پر تباہ کیا گیا۔
PIA and Railway
آج پاکستان میں تقریبََا تمام حکومتی ادارے تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں جسکی ذندہ مثال پی ائی اے،ریلوے اور پاکستان پوسٹ ہیں۔اگر اسی طرح چلتا رہے اور پاکستان پوسٹ لوگوں کی ضروریات پورا کرنے سے قاصر رہے تو ایک دن یہی ادارہ صرف پینشنز دینے تک محدود ہوجائیگا،اسیئے حکومت کو چا ہیے اس مسئلے کی ممکنہ حل کیلئے لائحہ عمل طے کریں تاکہ یہ ستم ذدہ قوم مزید تکلیف سے بچ جائے۔اگر ممکن ہو تو درجہ ذیل اصلاحات کی جا ئے۔
١۔اس ادارے کو Public ادارہ بنایا جائے ٢۔تمام ضلعوں میں GPO قائم کیا جائے ٣۔ پورے ادارے کو کمپیوٹرائز کیا جائے ٤۔اس کے ملازمین کیلئے خصوصی ٹریننگ کا بندوبست کیا جائے۔ تحریر: نعیم خان اتمانی