گزشتہ سال مارچ کے مہینے میں ڈاکٹری کے مقدس پیشے کی توہین کا مرتکب ایک بدعنوان اور رنگین مزاج سرکاری معالج درسگاہوں کے شہر ایبٹ آباد کا رُخ کرتا ہے اور ساتھ ہی شہر میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے بارے تشہیری مہم بھی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ سرکاری معالج پہلے ایبٹ آباد کے اِرد گرد غریب بستیوں کا رُخ کرکے جعلی پولیو مہم چلاتا ہے اور پھر ہیپا ٹائٹس بی کا ٹیکہ لگانے کے نام پر اُسامہ کمپاؤنڈ تک پہنچتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے کمپاؤنڈ میں داخلے کا اجازت نامہ بھی مل جاتا ہے اور اس دوران وہ اُسامہ بن لادن کے بچوں کے نمونے لے کر ڈی این اے کے لیئے امریکا کی خفیہ ایجنسی کو فراہم کرتا ہے یا پھر ایسے متبادل شواہد اکٹھے کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ جس کی حتمی تصدیق کے بعد یہ معلوم ہو سکے کہ اس کمپائونڈ میں موجود شخص اُسامہ بن لادن ہی ہے۔ اس جعلی ویکسی نیشن مہم کے چند روز بعد امریکا ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ بعد میں اس سانحے کا مرکزی کردار پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اورپھر یہ راز کھلتا ہے کہ سرکاری معالج کے روپ میں یہ شخص سی آئی اے کا تربیت یافتہ اور زرخرید ایجنٹ شکیل آفریدی ہے جو صوبہ خیبرپختونخواہ میں بحیثیت معالج سرکاری ملازم ہے ۔
shakeel afridi
ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سی آئی اے کی طرف سے اُسامہ بن لادن کا پتہ لگانے کے لیئے خصوصی ٹاسک سونپا گیا تھا اور وہ یہ کہتے ہوئے ایبٹ آباد میں داخل ہوا تھا کہ اُس نے ہیپاٹائٹس بی کے حفاظتی ٹیکے مفت لگانے کے لیئے خصوصی فنڈز حاصل کر رکھے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اہلیہ ایک امریکی شہری ہیں جو درہ آدم خیل میں کالج کی پرنسپل بھی رہیں جبکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق سی آئی اے نے آفریدی کو امریکا میں قیام کے دوران خصوصی تربیت دی اور پھر یہ شخص کالعدم تنظیموں سے رابطے کرکے پس پردہ سی آئی اے کی ڈیل بھی کرتا رہا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حفاظتی ٹیکوں بارے یہ ایک جعلی مہم تھی لیکن ایبٹ آباد ہیلتھ سروسز اس بارے کوئی باز پرس تک نہ کر سکی کہ اُسے بے موسمی پولیو اور ہیپاٹائٹس مہم شروع کرنے کی نوبت کیوں پیش آئی بلکہ بات یہاں تک جا پہنچتی ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی محکمہ صحت کے نچلی سطح کے ملازمین کو اس مہم میں تعاون کے لیئے اضافی معاوضہ بھی ادا کرتا رہا۔ ایبٹ آباد سانحے کے بعد جیسے ہی آئی ایس آئی نے غدارِ وطن اور ضمیر فروش ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اپنے شکنجے میں لیا تو اوباما انتظامیہ نے بڑے صاف لفظوں میں حکم دیا کہ شکیل آفریدی اور اُسکے خاندان کو چھوڑ دو امریکا انہیں اپنے ملک کی شہریت دے گا تاہم پاکستان کے انکار کے بعد اس تنازعہ نے دونوں ملکوں کے درمیان ٹکرائو کا ماحول پیدا کر دیا۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کے خلاف قبائلی علاقوں میں رائج قانون ایف سی آر کے تحت مقدمہ چلایا گیا جس کے تحت پولٹیکل انتظامیہ نے اُسے امریکا کے لیئے جاسوسی کرنے کے الزام میں تینتیس سال قید کی سزا سنائی اور تین لاکھ بیس ہزار روپے جرمانہ بھی کیا۔پولٹیکل انتظامیہ کی طرف سے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سنائی جانے والی سزا کے خلاف امریکا ایک بار پھر سیخ پا ہے۔ واشنگٹن کا مؤقف ہے کہ اُسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے میں شکیل آفریدی نے امریکا کی مدد کی تو اس کا یہ اقدام پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ القاعدہ قیادت کے خلاف تھا۔ وہ یہ جواز بھی فراہم کرتا ہے کہ ڈاکٹر آفریدی کو سزا سے دنیا میں یہ تاثر جائے گا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ نہیں دینا چاہتا۔ امریکی انتظامیہ اگر اس سرکاری معالج کی خدمات لیتے وقت پاکستانی قیادت کو آگاہ کر دیتی تو پھر وہ یہ جواز فراہم کرنے میں بھی حق بجانب تھی کہ ڈاکٹر آفریدی کا یہ اقدام پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ القاعدہ کے خلاف ہے لیکن معاملہ اسکے برعکس رہا اور سی آئی اے نے شکیل آفریدی کا انتخاب ایسا خفیہ رکھا کہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کو بھی اس کی بھنک تک نہ پڑ سکی۔اب امریکا شکیل آفریدی پر اس لیئے شور مچا رہا ہے کہ اس نے ایک شخص کو اپنا ایجنٹ بنایا اور اس ایجنٹ کی حفاظت نہیں کر سکا۔ اوباما انتظامیہ یہ بھی جانتی ہے کہ اگر وہ اپنے ایجنٹ کو چھڑا نہ سکی تو آئندہ کوئی دوسرا پاکستانی امریکا کا ایجنٹ بننے کے لیئے تیار نہیں ہوگا۔
american flag
امریکا کو یہ جان لینا چاہئے کہ یہ فیصلہ پاکستانی قوانین کے مطابق عدالتوں نے کیا ہے اور ہمیں ایک دوسرے کے قانونی عمل کا احترام کرنا چاہئے۔ غدارِ وطن اور ضمیر فروش ڈاکٹر شکیل آفریدی امریکی شہری نہیں تھا بلکہ وہ سی آئی اے کا زرخرید پاکستانی ایجنٹ تھا۔ اس نے پاکستان کے خلاف پاکستان میں ہی جرم کیا ہے تو پھر اسے امریکا کے حوالے کرنے کا کوئی جواز بھی نہیں بنتا۔ پاکستانی عدالت نے ڈاکٹر آفریدی کو ایسے ہی سزا سنائی جیسے ماضی میں امریکا نے اسرائیل کے زرخرید اپنے شہری جوناتھن پولارڈ کو اسرائیل کے لیئے جاسوسی کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی اور اس ایجنٹ کی رہائی کے لیئے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کی اپیل تک مسترد کر دی تھی۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ امریکا نے اپنے ہی شہریوں کو دوسروں کے لیئے جاسوسی کرنے کے الزام میں سزائیں دیں۔ امریکا نے اپنے چوراسی سالہ شہری بین ایمی کادیش کے خلاف بھی اسرائیل کے لیئے جاسوسی کرنے کے الزام میں مقدمہ قائم کیا۔ امریکی محکمہ انصاف نے اسرائیلی جاسوس پر یہ الزام عائد کیا کہ اس نے سنہ 80ء کی دہائی میں جوہری ہتھیاروں، جنگی طیاروں اور پیٹریاٹ میزائلوں کے بارے میں خفیہ معلومات اسرائیل کے حوالے کیں۔
اس کے علاوہ باون سالہ امریکی سائنسدان اسٹیورٹ ڈیوڈ نوزیٹ پر قومی دفاع سے متعلق اہم خفیہ معلومات دانستہ طور پر اسرائیل کو فروخت کرنے کی کوشش پر بھی فرد جرم عائد کی گئی۔ جب امریکا کو یہ شک گزرا کہ نوزیٹ اسرائیلی جاسوس ہے تو اُس سے ایف بی آئی کے ایک ایجنٹ نے اسرائیلی ایجنٹ بن کر رابطہ کیا۔ اگلے چند ہفتوں میں نوزیٹ نے اسے بھاری رقم کے بدلے امریکی سیٹلائٹ، پیشگی اطلاع دینے والے نظام، دفاعی اور حملوں کی حکمت عملی اور دیگر انٹیلی جنس معلومات فراہم کیں جسکے بعد اُسے میری لینڈ سے گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح چین کو امریکی فوجی راز مہیا کرنے کا جرم قبول کرنے والے تائیوان نژاد امریکی شہری تائی شین کیو کو پندرہ سال سے زیادہ قید کی سزا سنائی گئی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ چینی نژاد امریکی شہری ماک کے ساتھ بھی پیش آیا جسے امریکی عدالت نے چین کے لیئے جاسوسی کرنے کے الزام میں چوبیس برس قید کی سزا کا حکم سنایا۔ اسکے علاوہ چینی نژاد امریکی شہری گریگ چن پر بھی الزام عائد کیا گیا کہ اس نے خلائی شٹل اور ہوا بازی کے دوسرے منصوبوں کے بارے میں چین کو ایسی معلومات فراہم کیں کہ جن سے امریکی سکیورٹی خطرے میں پڑ سکتی ہے جبکہ ایک اور مقدمے میں ایک عورت سمیت تین لوگوں پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے امریکی محکمہ دفاع کے ایسے کاغذات چین کے حوالے کیئے جن میں تائیوان کو بیچے جانے والے اسلحہ سے متعلق حساس معلومات موجود تھیں۔
صرف امریکا ہی نہیں بلکہ ہر ملک میں ایسے ہی قوانین رائج ہیں اور کوئی بھی اپنے خلاف غداری برداشت نہیں کرتا۔ جب ایران میں امریکی جاسوسوں کی گرفتاری پر انہیں باقاعدہ سزائیں دی گئیں تو پھر امریکا اپنے ایجنٹ شکیل آفریدی کی رہائی کے لیئے کس قاعدے اور قانون کے تحت پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ شکیل آفریدی نے ملک سے غداری کی اور اپنے وطن کو بدنام کیا۔ صرف شکیل آفریدی ہی نہیں بلکہ ہر وہ شخص جس نے ذاتی مفادات کے لیئے عوام اور وطن کی عزت کو بیچا وہ غدار ہے کیونکہ ان ہی کے کرتوتوں کی وجہ سے ہمیں ”ماں تک بیچ دینے” کا طعنہ ملتا ہے۔ ڈاکٹر آفریدی بھی میر جعفر از بنگال اور میر صادق از دکن کے سلسلے سے نکلے ہیں۔ ایسے غداروں کے لیئے پولٹیکل انتظامیہ کی طرف سے ایف سی آر کے تحت تینتیس برس قید اور جرمانے کی سزا بہت کم ہے بلکہ ایسے کرداروں کو گنجا کرکے اور منہ کالا کرکے پہلے تمام پاکستان میں پھرانا چاہئے اور پھر سرعام پھانسی کے پھندے پر لٹکا دینا چاہئے تاکہ آئندہ کوئی فرد ملک کیخلاف ایسی غداری کا سوچ بھی نہ سکے۔ آج امریکا جس طرح اپنے ایجنٹ کے اقدام کو پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ القاعدہ کیخلاف سمجھتا ہے عین ممکن ہے اگر وہ شکیل آفریدی کو رہا کرانے میں کامیاب ہوگیا تو پھر مستقبل میں اپنے کسی ایجنٹ کے ذریعے ایٹمی اثاثوں تک رسائی حاصل کرکے یہ جواز فراہم کر سکتا ہے کہ اُس نے پاکستان کے ایٹمی اثاثے اس لیئے ناکارہ بنائے کیونکہ اُسے یہ اثاثے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا اندیشہ تھا لہٰذا اُسکے ایجنٹوں کا یہ اقدام بھی پاکستان کیخلاف نہیں بلکہ دہشت گردوں کیخلاف تھا۔