انتہا پسندی ایک ایسی بیماری، جو کسی معاشرے کو تباہ و برباد کر ڈالتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جب بھی انتہا پسندی پھیلی ہے اس معاشرے کا حال کینسر کے اس مریض جیسا ہو گیا ہے جو زندہ رہ کر بھی موت سے بدتر زندگی گزارتا ہے۔ انتہا پسندی مذہبی ہو یا سیکولر غرض کسی بھی طرح کی ہو معاشرے اس سے تباہ و برباد ہی ہوتے ہیں۔ پاکستان بھی ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جہاں انتہا پسندی کا رحجان بہت زیادہ ہوتا چلا جارہا ہے اور حد تو یہ ہے کہ یہ شاید دنیاکا واحد ملک ہو جہاں مذہبی انتہاپسندی کے ساتھ ساتھ سیکولر انتہاپسندی بھی پھیلتی جا رہی ہے یا بہتر تو یہ ہو گا کہ ہم یہ کہیں کہ سیکولر انتہاپسندی پھیلائی جارہی ہے۔
مذہبی انتہاپسندوں نے جو حال ہمارے ملک کا نہ صرف بلکہ اسلام کا کیا ہے وہ کوئی ڈھکا چھپا نہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان مذہبی انتہاپسندوں میں جاہلوں کی فوج کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے نام نہاد علماء بھی شامل حال رہیں ہے اور ان کا تعلق کسی محصوص طبقے یا گروہ سے نہ تھا بلکہ سب ہی اس میں کسی نہ کسی طرح سے شامل رہیں ہے۔ان حضرات سے میں کیا کہوں کہ ان کا فعل کیا رہا ہے اور کیا ہے، مختصراََ یہی کہوں گا کہ اگر حقیقتاََ عالم دین ہونے کا حق ادا کرناہو تو مولانا حسن جان شہید اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے قول و فعل جیسے ہو جائوں تاکہ اسلام دشمن پھیلی اس نام نہاد اسلامی انتہاپسندی سے نکل کر دین اسلام کی تعلیمات کو صحیح معنوں میں دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔
یہ تو بات ہو گئی ایک طرف،اب دوسری طرف کی بھی بات ہو جائے جو نہایت ہی سنگین نوعیت اختیار کرتی جارہی ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو دوہری انتہا پسندی کا شکار ہے جو مذہبی اور سیکولر پر مشتمل ہے۔پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ایک نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میںآیا تھا اور وہ نظریہ ہی ہے جس پر اس اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی گئی ہوئی ہے اور وہ نظریہ اسلام ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ایک سوچی سمجھی سازش کے ذریعے اس نظریے کو ختم کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے جس کے لیے ہمارے نام نہاد پاکستانی میڈیا کا سہارا لیا جارہا ہے۔
آپ پاکستانی میڈیا بالحصوص الیکٹرونک میڈیا پر اس سیکولر انتہاپسندی کی چھاپ جا بجا آسانی سے دیکھ سکتے ہے۔صبح مورنگ شو سے شروع ہو اور رات 12بجے کے آخری نیوز بلیٹین تک ہی جائے ،رات 12بجے والے نیوز بلیٹین کے بعد جو کچھ چلتا ہے اسے تو آپ نون فیملی ٹائم کے ذریعے اشتنا دے دیں تو آپ کو بالکل محسوس نہ ہو گا کہ آپ ایک اسلامی ریاست جس کا نام ”پاک” ”ستان” یعنی پاک جگہ ہے کا چینل دیکھ رہیں ہے بلکہ آپ یہی سمجھے گے کہ آپ ہندوستان یا پھر کسی سیکولرریاست کا چینل دیکھ رہیں ہے ،آپ کوئی تفریحی چینل لگالے یا پھر کوئی نیوز چینل ،آپ کو سیکولر انتہاپسندی کی یہ چھاپ یعنی بے حیائی، بے غیرتی اور لادینیت ہر جگہ نظر آئے گی اور نہ صرف یہ کہ وہ بے حیائی صرف چل رہی ہوگی بلکہ ان سب کا دفاع کرنے کیلیے مکرو نام نہاد مسلم چہرے بھی جا بجا ہر چینل پر موجود ہوگے۔
دنیا کے ہر ملک میں میڈیا موجود ہے بیشتر ملک کے میڈیا آزاد ہیں لیکن کسی ایسے ملک کی مثال موجود نہیں ہے جو آزادی ِاظہار کے نام پر اپنے ہی ملک کے نظریے کو تباہ و برباد کرتا ہو، جو آزادی اظہار کے نام پر بے حیائی پھیلتا ہو،آپ یورپ کے ملکوں کی ہی مثال لے لیں وہاںکوئی ایسا چینل نہیں جو فیملی اور پرائم ٹائم کے اوقات میں کوئی غیر اخلاقی پروگرام چلاتا ہو بلکہ وہاں فیملی چینلز پر کسی بھی وقت کوئی ایسی چیز نشر نہیں کی جا سکتی جو معاشرے میں کسی بھگاڑ کا باعث بنے لیکن دنیا میں ایک ملک ایسا ہے جہاں کوئی بھی چیز کسی بھی چینل پر کسی بھی وقت نشر کر دی جاتی ہے کیونکہ اس ملک میں آزادیِ اظہار کا حق ہے اور وہ ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں نیوز بلیٹین کی ہیڈلائنر میں بھی ایک آدھا ٹوٹا ضرور چلایا جاتا ہے۔
حد تو اب یہ ہوئی کہ ایک نجی چینل نے آزادی اظہار کا اپنا حق ایسا استعمال کیاکہ نظریہ پاکستان کو ہی بد ل ڈالا ہے۔چینل پر ایک اشتہار تسلسل کے ساتھ چلا کر سب جانتے ہوئے بھی نظریہ پاکستان پر وار کیا جا رہا ہے ۔ پاکستان کا مطلب کیا ؟ ۔۔۔۔ایک ایسا سوال جو ایک خطہ ارض کے وجود سے لیکر آخر تک کے نظریے کو بیان کرتا ہے،ایک ایسا سوال جو ایک ملک کے جغرافیائی حدود میں رہنے والوں کے نظام زندگی کا ترجمان ہے، ایک ایسا سوال جو ایک ریاست کے آئین و قانون کا پاسبان ہے،یہ سوال ایک اسلامی ریاست کی بنیاد کا عکاس ہے لیکن ایک نام نہاد پاکستانی چینل نے سیکولر انتہاپسندوں کی خوشنودی کی خاطرایک گمراہ کن اشتہار کے ذریعے لوگوں کو اصغرسودائی مرحوم کے دئیے ”پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ ”کی بجائے ”پڑھنے لکھنے کے سوا پاکستان کا مطلب کیا”چلا کر نظریہ پاکستان پرحملہ کیا ہے جو ہر لحاظ سے قابل مذمت اور ناقابلِ برداشت ہے۔
Pemra
آزادی اظہار ہر کسی کا حق ہے اور یہ کوئی بری چیز بھی نہیں لیکن آزادی اظہار کی آڑ میں پھیلائی جانے والی یہ بے حیائی ، بے غیرتی ،لادینیت اور روشن خیالی کے نام پر جہالت کا کوئی بھی متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس کا نوٹس لیا اور پیمرا کواس کے خلاف کاروائی کی ہدایت کی ، پیمرا کے چیئرمین صاحب نے بے حیائی کو سمجھنے کے لیے کہ بے حیائی ہے کیا، ایک کمیٹی بنادی جو آج تک کئی ماہ گزرنے کے باوجودبے حیائی کو بیاںہی نہیں کر سکی ،لیکن میری دعا ہے کہ اللہ پاک پیمرا کے چیئرمین کو ان کی بینائی لوٹا دیں تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے اپنے گھر کے ٹی وی پر اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر کچھ دیکھ سکیں اور پھر جب وہ اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر کچھ دیکھیں گے تو یقینا ان کو ضرور پتہ چل جائے گا کہ بے حیائی کیا ہوتی ہے۔خدا اس ملک کے حکمرانوں، دانشوروں،طالب علموں ،علمائ، وکلا،اہل فکر اور عوام کو وہ عقل و دانش عطا کریں جس سے وہ اپنے پیارے ملک پاکستان میں پھیلتی اس انتہاپسندی کا جوان مردی سے مقابلہ کر سکیں۔