پاکستان میں اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ امریکہ کیلئے کھلم کھلا اور غیر مشروط حمایت بلکہ بعض امور میں حکمرانوں نے پاکستان کے اپنے قومی مفادات کا نقصان کر کے بھی امریکہ کی بھرپور حمایت اور اس کے ایجنڈے پر عمل کیا مگراس کے باوجود پاک امریکہ تعلقات میں گزشتہ 66 سال کے عرصہ میں کوئی پائیداری نہیں آئی اور نہ ہی ان تعلقات نے کوئی سمت اختیار کی۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی کمیونسٹ سوویت یونین سے دشمنی مول لے کر امریکہ سے معاہدے شروع کر دیئے اور دس سال سے بھی کم عرصہ میں پاکستان نے کمیونزم کے خلاف بغداد پیکٹ، سیٹو اور سینٹو کے فوجی معاہدوں میں خود کو امریکہ کے ساتھ جکڑ لیا ۔
بڈابیر اور دیگر پاکستانی علاقوں میں امریکہ کیلئے خفیہ فضائی اڈے اور مراعات کو روس کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دے کر سوویت یونین سے پاکستان کو ایٹمی حملے کی دھمکی تک لے لی مگر پھر بھی امریکہ نے نہ تو پاکستان کی دوستی کو قابل اعتماد سمجھا اور نہ ہی دوستی کا خاطر خواہ صلہ دیا بلکہ امریکی مفاد کے پورا ہوتے ہی اپنے معاہدوں کو نئے یکطرفہ معنی پہنانے شروع کر دیئے پاکستان پر تنقید اور الزامات عائد کرنا شروع کر دیئے۔اقتصادی اور فوجی امداد پر پابندیاں عائد کر ڈالیں اور پھر جب دوبارہ ضرورت پڑی تب پاکستان کا رخ پھر کیا عام پاکستانی شہری کا امریکہ کے بارے میں یہ تاثر بڑی حد تک درست ہے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں سیٹو کے فوجی معاہدے کے تحت حملہ کی صورت میں مشترکہ دفاع اور جنگ کی ذمہ داری سے امریکی انکار اور معاہدے کی نئی تعبیر سے لے کر افغان جہاد کی سوویت یونین کے خلاف مزاحمت و شکست میں پاکستان کے کلیدی کردار کے باوجود مقصد پورا ہوتے ہی امریکی پابندیاں، دہشت گردی کے خلاف افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے پر بھی پاک امریکہ تعلقات کی موجودہ کیفیت تشویشناک ہے گویا گھر بار لٹانے کے باوجود بھی پاکستانی عوام اور مملکت پاکستان امریکی الزامات، تعزیر، عدم اعتماد اور ممکنہ دشمنی کا شکار ہیں جہاں مزید مطالبات کے ذریعے پاکستان کے وجود کو مزید عدم استحکام کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔
US Marines
پاکستان کے دو ٹکڑے ہو کر بنگلہ دیش کے قیام میں سوویت یونین کے اہم رول کے باوجود امریکہ کی جانب سے صرف امریکی بحری بیڑے کی علاقے کی جانب روانگی کی خبر سے ہی دوستی کا سارا قرض چکا دیا گیا عام پاکستانی کے امریکہ کے بارے میں اس شکایتی رویے میں بڑا جواز اور ٹھوس دلیل موجود ہے، مگر پاک امریکہ تعلقات کی موجودہ نوعیت اور گزشتہ 66 سال کے عرصہ میں بھی غیر پائیداری کی حقیقی اور عملی وجوہات سمجھنے اور ٹھوس نتیجہ پر پہنچنے کیلئے ہمیں چند تلخ حقائق کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا۔ یہ تو ایک عالمی اور تاریخی حقیقت ہے کہ اس زمین پر آباد قبائل، کمیونٹیز اور قوموں کے درمیان تعلقات میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ماضی کے دشمن، حال اور مستقبل کے دوست اور اتحادی بن جاتے ہیں اور مشترکہ مفادات کے حصول تک اکٹھے رہ کر مفادات کے ٹکرا پیدا ہونے پر دوستیاں دشمنی اور جنگوں میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔
آج کی مہذب دنیا میں ڈپلومیسی اور گلوبلائیزیشن میں بھی یہی اصول دوستی اور دشمنی کارفرما ہے مختصر یہ کہ اشتراک و اتحاد یعنی دوستی کے عرصہ میں جو فائدہ اٹھایا جا سکے، وہ اٹھا لیا جائے ورنہ دوستی کا وقت گزر جانے کے بعد دوسری قوم یا ملک سے آپ وہ فائدہ یا تعاون حاصل نہیں کر سکیں گے ۔ عالمی سفارت کاری سے لے کر قومی اور خاندانی رشتوں کی زندگی میں بھی یہ اصول کارفرما ہے تو پھر پاک امریکہ تعلقات کو بعض پاکستانی ذہن رومانس کی نظر سے کیوں دیکھتے ہیں حالانکہ عملی زندگی میں رومانس اور انتہائی جدوجہد کے بعد ہونے والی شادی بھی بعض اوقات وقت کے ہاتھوں علیحدگی، طلاق اور موت سے دوچار ہوتے دیکھتے رہتے ہیں لہذا دو ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کیلئے مذاکرات کرنے والوں اور تعلقات کی بنیاد اور سمت متعین کرنے والوں کی بصیرت، مقاصد سے آگہی اور اپنے عوام کے مفاد سے وابستگی کی حد کا بڑا انحصار ہے ورنہ دو فریقین میں سے ایک ہوشیار فریق تعلقات کو اپنے حق میں بہتر طور پر استعمال کر کے فوائد حاصل کر لے گا آئیے اب ہم ان حقائق اور وجوہات پر نظر ڈالیں جو ممکنہ طور پر پاک امریکہ تعلقات میں ہر طرح کے اتحادی معاہدوں، تعاون اور قربانیوں کے باوجود پاکستانیوں کیلئے شکایات اور امریکہ کیلئے پاکستانی عوام سے لا تعلق رہ کر پاکستان سے تعلقات کو پائیدار شکل نہ دینے کا سبب بنی ہیں۔
پاکستانی حکمرانوں نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی اپنے فوری اور بہت ناراض دشمن بھارت سے محفوظ رہنے کیلئے سیکورٹی کے حصول کی گھبراہٹ والی تلاش میں عالمی طاقتوں میں سرد جنگ کے آغاز اور سب سے متوازن تعلقات کی بجائے یکطرفہ طور پر امریکہ سے اتحادی تعلقات استوار کر کے خود کو علاقائی صورتحال اور دنیا کے کمیونسٹ ممالک سے مخالفت مول لے لی امریکہ کے ہاتھوں خودسپردگی کے اس عمل میں بھی کوئی آٹ لائن کوئی سمت اور کوئی ایجنڈا طے ہی نہیں کیا۔ صرف جغرافیائی سرحدوں کی سیکورٹی کی تلاش میں پاکستانی فوج اور امریکی پینٹاگون کے درمیان جو تعلقات پیدا ہوئے پاک امریکہ تعلقات میں حکومتی اداروں کے درمیان صرف یہی اداروں کے تعلقات تھے تعلقات کی باقی نوعیت پاکستان میں اقتدار میں آنے والے حکمرانوں کی ذاتی جاگیر رہی جبکہ امریکی نظام کے اداروں پینٹاگون، سی آئی اے، وہائٹ ہاس اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے پاکستان سے تعلقات کو امریکی مفادات کے تقاضوں کے مطابق مقاصد اور سمت دی، معنی دیئے اور استعمال کیا۔
Pakistan Generals
پاکستان کی 66 سالہ زندگی میں تقریبا 33 سال کی ڈائریکٹ فوجی آمریت میں کوئی بھی فوجی انقلاب امریکی پینٹاگون کی مرضی، منظوری اور حمایت کے بغیر نہیں آیا? جنرل ایوب، جنرل یحیی?، جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف اپنے ذاتی مزاج میں مختلف مگر امریکی حمایت اور منظوری ان کے درمیان اقتدار میں آنے، اقتدار میں رہنے اور پھر رخصت و محروم ہونے میں قدر مشترک تھی ظاہر ہے کہ ان 33 سالوں کے دوران ان ڈکٹیٹروں کے اقتدار کو پائیداری کیلئے امریکی خوشنودی ضروری تھی لہذا انہوں نے پاکستانی مملکت اور عوام کے مفادات سے بے نیاز ہو کر ذاتی فیصلے، ذاتی عمل، ذاتی یقین دہانیوں کے ذریعے وہ سب کچھ کیا جو انہوں نے ذاتی اقتدار کیلئے ضروری اور مناسب سمجھا جاری ہے۔ تحریر : عظیم ایم میاں