امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی پاکستان کرا رہا ہے۔ کابل میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ آئی ایس آئی کی مدد سے ہوا تھا اور دیگر کئی کارروائیاں حقانی نیٹ ورک نے آئی ایس آئی کی مدد سے کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تشدد اور انتہا پسندی کی پالیسی کا انتخاب کر کے پاکستان نے سٹرٹیجک شراکت داری کو خطرے میں ڈال دیا ہے افغانستان میں ہونے والی ہر پر تشدد کارروائی میں پاکستان براہ راست ملوث ہے۔ حقانی نیٹ ورک آئی ایس آئی کے ایک حقیقی بازو کے طور پر کام کر رہا ہے امریکی سفارت خانے پر حملہ اور سابق صدر برہان الدین ربانی کا قتل اس بات کا ثبوت ہے کہ طالبان نے اہم اہداف کو نشانہ بنانے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے دریں اثنا امریکی سینٹ کی ایک کمیٹی نے پاکستان کے لئے ایک ارب ڈالر کی امداد کو حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ، کوئٹہ شوری اور دیگر شدت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی سے مشروط قرار دے دیا ہے۔ جس کی سینٹ اور ایوان نمائندگان نے بھی منظوری دے دی ہے تاہم پاکستان نے امریکی الزامات خاص طور پر حقانی نیٹ ورک سے تعلقات اور کابل میں ہونے والے حملے میں آئی ایس آئی کو ملوث قرار دینے کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر امریکی فوج کی در اندازی کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا دہشت گردی کے خلاف تعاون پاکستان کی اپنی خود مختاری سے وابستہ ہے قوم دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کی آڑ میں اپنی سرزمین پر غیر ملکی قدم نہیں پڑنے دے گی۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق پاکستان امریکہ کے خلاف کسی پراکسی وار میں ملوث نہیں نہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کا کوئی وجود ہے پاک فوج کے ترجمان کے مطابق پاک فوج تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے افغانستان کے اندر سکیورٹی کی ذمہ داری پاکستان کی نہیں بلکہ افغان اور نیٹو فورسز کی ہے۔ پاکستان کے خلاف ذمہ دار امریکی حلقے جس انداز میں حقانی نیٹ ورک سے پاک فوج کے رابطوں اور اسے افغانستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال کرنے کی بے بنیاد الزام تراشی کرتے چلے آ رہے ہیں امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے اس بیان میں جس طرح پاکستان کو ہدف تنقید بنایا ہے اس سے پاکستان کے خلاف امریکی عزائم بالکل کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور اب ان کا ادراک کرنے میں کسی تذبذب یا ابہام کی ذرا سی گنجائش نظر نہیں آتی دہشت گردی کے خلاف صرف پاک فوج کے ساڑھے تین ہزار سے زائد افسروں اور جوانوں کی قربانیوں ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کی ہلاکت اور قومی معیشت کو پہنچنے والے اربوں ڈالر کے نقصان کے باوجود امریکی سوچ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ حالات انتہائی خطرناک رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں اور امریکہ کے ساتھ بے لوث اور بے پناہ تعاون کے با وجود اب کسی خوش فہمی میں مبتلا رہنا ٹھیک نہیں ہو گا۔ ذمہ دار امریکی حلقوں کے بیانات اور پاکستان کے لئے مشروط امریکی ا مداد کا فیصلہ امریکہ کی اس پالیسی کی غمازی کرتا ہے کہ افغانستان میں ہونے والی ہر دہشت گردی اور بدامنی کے ہر واقعے میں صرف پاکستان ہی ملوث ہے گویا اس آڑ میں امریکہ پاکستان کی امداد بند کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اس پس منظر میں ہم انہی کالموں میں متعدد مرتبہ اپنے حکمرانوں اور بالخصوص پالیسی سازوں کو توجہ دلاتے رہے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ ماضی کے تجربات کے ساتھ ساتھ افغانستان میں امریکہ کی حالیہ ناکامی کے پہلو کو بھی نظر انداز نہ کریں۔ افغان جنگ اب اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے اور افغان عوام نے اپنی قبائلی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے امریکی جارحیت کے خلاف شدید ردعمل سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی غیر ملکی تسلط کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں لہذا اب امریکہ اور نیٹو فورسز کو یہاں سے جانا پڑے گا۔ اگرچہ بعض امریکی حلقے ابھی مزید کئی سال تک افغانستان میں موجود رہنے کا تاثر دے رہے ہیں لیکن خود کئی ذمہ دار امریکی حلقوں کے علاوہ معروف تجزیہ نگار یہ واضح اشارے دے رہے ہیں کہ امریکہ افغانستان کے خلاف اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکا جس کے باعث وہ شدید جھنجھلاہٹ کا شکار ہو کر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے چنانچہ پہلے صدر حامد کرزئی کے ذریعے اور اب براہ راست واضح کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان میں ہونے والی بدامنی اور دہشت گردی کا ذمہ دار پاکستان ہے ۔دراصل دس بارہ سال تک تمام تر طاقت کے بے دریغ استعمال کے باوجود اپنے مقصد کے حصول میں ناکام ہو جانے کے بعد وہ سارا الزام پاکستان پر تھونپ کر نہ صرف خود کو اس ناکامی سے بری ثابت کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ اس جنگ کو پاکستان کی سرزمین تک لے جانے کی بھی دھمکیاں دے رہا ہے اور ان دھمکیوں میں دن بدن شدت کا عنصر نمایاں ہو کر سامنے آ رہا ہے۔ وہ پاکستان کو ایک ناقابل بھروسہ اتحادی قرار دے کر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ چند روز میں ذمہ دار امریکی حلقے نائب امریکی صدر، امریکی وزیر دفاع اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف پاکستان کو ناقابل اعتبار اتحادی قرار دینے کے علاوہ افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی کا براہ راست ذمہ دار قرار دینے پر اتر آئے ہیں لیکن پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی طرف سے ان الزامات کی سختی سے تردید بھی ان کے موقف میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکی بلکہ اس میں شدت کا عنصر نمایاں ہوتا جا رہا ہے لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ امریکہ عراق، افغانستان اور کسی بھی ملک میں مداخلت کے باوجود وہاں امن قائم نہیں کر سکا ویت نام میں اس کی ناکامی ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے اب افغانستان سے لوٹتے ہوئے اس خطرناک مہم جوئی میں اپنی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دینے پر تلا ہوا ہے۔ یہ بلاشبہ حد درجہ غیر سنجیدہ، غیر ذمہ دارانہ اور کئی لحاظ سے بے حد خطرناک رویہ ہے جس سے امریکی قیادت کو اجتناب برتنا چاہئے۔ اس پس منظر میں ہم اپنی سیاسی قیادت کو پہلے دن سے ہی یہ صائب مشورہ دیتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے قومی اور ملکی مفادات کو بھی پیش نظر رکھیں ہم اگر اپنے قومی مفادات کو نظر انداز کر کے امریکہ کے ساتھ تعاون کریں گے تو اس کے نتیجے میں اپنا قومی نقصان کریں گے اور پاکستانی قوم اسے برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں قوم نے اب تک امریکہ کا اتحادی ہونے اور اس کے ساتھ تعاون کرنے کے نتیجے میں جو قربانیاں دی ہیں جس قدر جانی اور مالی نقصانات اٹھائے ہیں ہمیں اس کا بھی حساب کرنا ہو گا اور امریکی الزام تراشی کا جواب دیتے ہوئے ان ساری حقیقتوں کو بھی سامنے لانا ہو گا۔ خود امریکی معیشت کو افغان جنگ میں شدید بحران کا سامنا کرنا پڑا اسے جو فوجی اور سیاسی ناکامی ہوئی اب اسے فتح میں بدلنے کا خیال محض ایک خواب ہے سیاسی و عسکری قیادت کو چاہئے کہ وہ امریکی عزائم کو پیش نظر رکھتے ہوئے قومی سلامتی کو لاحق خطرات کا احساس کرے اور ان سے نمٹنے میں کسی کوتاہی سے کام نہ لے کیونکہ امریکہ افغانستان سے نکلنے کے بعد حالات کو اپنی پسند اور اپنے پروگرام کے مطابق جو رخ دینا چاہتا ہے وہ پاکستان کے لئے شدید خطرات اور مشکلات کا باعث بن سکتا ہے ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو ان امکانات کو سامنے رکھ کر حکمت عملی ترتیب دینی چاہئے۔