خدا جانے اشرف المخلوقات کی عقل پر کیا پردہ پڑگیا ہے ۔جنگ لڑتا ہے امن قائم کرنے کے لیے ۔بارود خریدنے کے لیے اپنے بچوں کے منہ کا نوالہ تک چھین لیتا ہے اور بات کرتا ہے انسانی حقوق ہیومن رائٹس کی، عوام کودووقت کی روٹی نہیں ملتی ۔بجلی نہیں آتی ۔گیس نہیں آتی ۔مزدوری نہیںملتی ۔اچھی تعلیم نہیں ملتی۔محرومیاں تو اور بھی بہت ہیں لیکن بات مختصراپنے گھر میں ہی عزت وجان کا تحفظ نہیں۔زندگی کا کوئی سامان دستیاب نہیں ہے گھر میں لیکن ایٹم بم بنالیا ہے۔اپنے آنگن میں بارود کا ڈھیر لگا لیا ہے ۔ جنگ لڑنے کو ہروقت تیار ہے انسان۔تمنا میں امن کی لاشوں کاڈھیرلگالیا ہے ۔ کیا یہی ہیں انسانی حقوق ؟نہیں ہرگز نہیں یہ انسانی حقوق نہیںہیں لیکن سوچنے کی بات یہ کہ انسان کو انسان کے حقوق دے گاکون ؟کس سے مانگ رہا ہے آج کا انسان اپنے حقوق کتنی شرم کی بات ہے کہ انسان ،انسان کا حق نہیں دیتااور امن قائم کرنا چاہتا ہے جنگ کے ذریعے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جنگیں لڑ کرقلعے تو فتح کیے جا سکتے ہیں۔لیکن جنگ سے کبھی بھی امن قائم نہیں ہوسکتا۔امن تو صرف امن سے ہی قائم ہوسکتا ہے۔کہیں ایسا تو نہیںکہ ہم انسان ہی نہیں رہے ؟اگر ایسا ہے تو پہلے ہمیں انسان بننا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ انسان وہ چاہے پاکستانی ہو یاامریکن ہوو ہ نہ توکسی کا خالق ہے نہ ہی کسی کا رازق ہے ،نہ تو کسی کوزندگی دے سکتا ہے اورنہ ہی کسی کی موت کا وقت مقرر کرسکتا ہے ۔اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ نہ صرف مسلمان بلکہ ساری کائنات کا رازق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے ۔زندگی دینے اور واپس لینے کا اختیار بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے ۔لیکن بڑے ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے تب سے لے کر آج تک پاکستان کے حکمران امریکہ کو ہی اپنا رازق اور مالک سمجھتے ہیں ۔جس کی وجہ سے آج پاکستان کوبہت سی مشکلات کا سامناہے جن میں سب سے بڑی مشکل افغان جنگ میں اتحادی کاکردار ادا کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اور پاکستانی قوم کواس آگ میں جھونکنے والا ایک ڈکٹیٹر ساب صدر جنرل پرویزمشرف تھاجو اب کہتا ہے اگر پاکستان اس وقت امریکہ کو اڈے نہ دیتا تو انڈیا سارے اڈے دینے کو تیار تھابھائی اگر انڈیا امریکہ کو اڈے دینے کو تیار تھا تو ہمیں کیادے دیتا یہ ان کا ذاتی مسئلہ تھا۔مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ موجودہ حکومت نے بھی اس جنگ سے نکلنے کی کوشش کرنے کی بجائے خود کو پہلے سے زیادہ envoleve کردیااور وزیراعظم پاکستان کہتے ہیں کہ افغانستان کی زمین ،پاکستان کے خلاف استعمال ہوئی ہے۔لیکن یہاں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس کا موقع ہم نے خود امریکہ کو فراہم کیا ہے ۔کیونکہ پاکستان کی زمین بھی افغانستان کے خلاف استعمال ہوئی ہے اورہورہی ہے کیونکہ جب امریکہ پاکستانی زمین کو افغانستان کے خلاف استعمال کرسکتا ہے تو پھر وہ افغانستان کی زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیوں نہیں کرسکتا۔ اور جب ہم نے اپنے وطن کو میدان جنگ بنا کر امریکہ کے حوالے کر دیا ہے تو پھر ہمیں یہ بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ جنگ چاہے کوئی بھی جیتے میدان جنگ کے حصے میں صرف تباہی آتی ہے ۔جس کا نمونہ پاکستان پیش کررہا ہے ۔امریکہ کی اس جنگ میں اتحادی کا کردار ادا کرکے پاکستان کو تباہی اور ساری دنیا میں رسوائی کا سامنا ہے ۔یہ تباہی اوررسوائی پاکستان کا مقدر اس لیے بنی کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا۔امریکہ نے پچھلے دس سال سے پاکستان کو اپنا اتحادی بھی مانا ہے لیکن کبھی بھی پاکستان پر اعتبار بھی نہیں کیا ۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جس پر اعتبار نہ ہو اس کو اپنا اتحادی کیسے بنایا جا سکتا ہے پھر اس قدر اہم معاملے میں جس میںنہ صرف مالی بلکہ بڑی تعدادمیں جانی نقصان بھی ہونے والا ہو۔ کیا امریکن دودھ پیتے بچے ہیں جو گزشتہ دس سال سے ایک طرف تو پاکستان پر دہشتگردوں کا ساتھ دینے کا الزام لگاتے ہیں اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اپنا اتحادی بھی مانتے ہیں ۔لیکن اب وقت آگیا ہے کہ پاکستا ن کو اپنا بچائو کرنا ہوگاجس کے اثرات نظر آنے شروع ہو رہے ہیں۔ پاکستانی چک پوسٹوں پر نیٹوں ہیلی کاپٹروں کے حملوں میں پاکستانی افواج کے دو افسروں سمیت دودرجن سے زائداہلکار شہید ہوئے ہیں۔ تب سے پاکستان کی حکومت نے جرات مندانہ اوربڑے فیصلے کیے ہیں جن میں نیٹوکوپاکستان کے راستے ہونے والی رسد کی سپلائی کی بندش ۔شمسی ائربیس کو خالی کروانا۔بون کانفرنس کا بائیکاٹ کرناuaeکی طرف سے درخواست کو مسترد کرنا جس میںuaeیعنی عرب عمارات نے پاکستان سے کہا تھا کہ امریکہ سے شمسی ائیربیس خالی نہ کروائی جائے یا پھر15دن کی دی گئی مہلت کو بڑا دیاجائے لیکن پاکستانی حکومت نے صاف لفظوں میں منع کردیا۔پاکستا ن کی 87فیصدء عوام کو حکومت سے ایسے حقیت پسندانہ فیصلوں کی امید نہ تھی کیونکہ پاکستانی حکمران پچھلے 64سالوں سے امریکہ کے سامنے بیکاری بن کر ہاتھ پھیلائے ہیں ۔راقم کی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کے حکمرانوںاور عوام کواس مشکل وقت میں سہی فیصلے کرنے اوران پر قائم رہنے کی طاقت دے۔اور میں آج سلام کرتا ہوں افواج پاکستان کو جس نے مشکل ترین حالات میں تحمل مزاجی سے سوچ وبچار سے آخر کار یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب ہم پاکستان کی خودمختاری کو چیلنج کرنے والوں کو معاف نہیں کریں گے ۔اور یہاں اگر میں چیف آف آرمی سٹاف عزت مآب جناب اشفاق پریزکیانی صاحب کو سلام پیش نہ کروںتو بہت بڑی ذیادتی ہوگی ۔جنہوں نے پاکستان کی سیاست سے باہر رہ کرہمیشہ اپناکردار ادا کیااور ماضی کی طرح منتخب حکومت کوختم کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی اورجواعلان چیف آف آرمی سٹاف اشفاق پرویزکیانی نے 2دسمبر کو کیا جس میں انھوں نے پاک افواج کو کسی بھی قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا حکم دے دیا ہے ۔اور صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اب ہم پاکستان میں حملہ کرنے والوں کو واپس نہیں جانے دیں گے وہ چاہے نیٹوہو یاایساف ہو۔میں ایک بار پھرافواج پاکستان کو سلام پیش کرتا ہوں۔اور میں سمجھتا ہوں کہ چیف آف آرمی سٹاف کے اس علان سے پاکستان کے تمام دشمنوں کومنہ توڑ جواب بھی مل گیا ہے اور پاکستانی قوم کی نظروں میں پاک افواج کا وہ مقام بحال کردیا ہے جو سابقہ جرنیلوں کی غلطیوں کی وجہ سے کھو گیا تھا ْ۔اپنی فوج کے سربراہ کے منہ سے یہ بات سن کر میری آنکھیں خوشی سے نم ہیں اور میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں ۔میں آج اپنی تحریر میں حکومت پاکستان کے خلاف بہت سار ازہر اگلنے جا رہا تھا لیکن جس وقت میں لکھنا شروع کیا اسی وقت ایک نیوز چینل پربریکنگ نیوز چلی جس میں پاک آرمی کے چیف اشفاق پرویز کیانی صاحب کے منہ سے یہ بات سن کر کہ اب وہ پاک سرحدوں میں دشمن کو آنے نہیں دیں گے میرے اندر کی ساری آگ ٹھنڈی ہوگئی۔لکھنا تو ابھی بہت کچھ تھا لیکن اب صرف راقم پوری پاکستانی قوم کی طرف سے اس مشکل وقت میں پاک افواج کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ پوری قوم آپ کے ساتھ ہے آپ اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھیں اورکسی بھی کافر سے با لکل نہ گبھرائیں اللہ تعالی اور پوری پاکستانی قوم کے جان ومال اور دعائیں آپ کے ساتھ ہیں ۔آپ ہر محاز پر اپنی قوم کو اپنے ساتھ پائو گے ۔پاکستان زندہ آباد ۔پاک افوج پائندہ آبا دتحریر:امتیازعلی شاکر